• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ایک بہت پرانے دوست جو گاوٴں کے نمبردار بھی تھے بہت سالوں کے بعد پاکستان آئے اور یہ دیکھ کر بہت آزردہ ہوئے کہ گاوٴں کے نائی کا بیٹا رفیق جو روز شیو کرنے آتا تھا اب وہ ایسا نہیں کرتا بلکہ اس کا قریب کے بس اڈے پر کریانے کا بہت بڑا اسٹور ہے اور حقیقتاً وہ نمبردار خاندان سے کہیں زیادہ خوشحال ہے۔ ہم نے اپنے دوست سے کہا کہ آپ تو سوشلسٹ کامریڈ تھے اور آپ بھی تو چاہتے تھے نا کہ غریب امیروں کے برابر ہو جائیں۔ کہنے لگے لیکن اس طرح تو نہیں ”ہم تو ایک خاص طریقے سے انقلاب لانا چاہتے تھے“ مطلب اگر غرباء ان کے انقلابی طریقے استعمال کئے بغیر ہی خوشحال ہو جائیں تو یہ ایک افسوسناک عمل ہے۔
ہمارے ایک اور کامریڈ میرا جنگ میں کالم پڑھ کر سیخ پا ہو گئے ۔ اس کالم میں شواہد و دلائل سے ثابت کیا گیا تھا کہ پاکستان میں ایک نیا امیر طبقہ پیدا ہوا ہے اور درمیانہ طبقہ بہت وسیع ہو چکا ہے۔ کامریڈ فرمانے لگے کہ یہ سب بکواس ہے کوئی درمیانہ طبقہ پیدا نہیں ہوا یہ تو صرف اشتہار بازی سے لوگوں کو چیزیں بیچی جا رہی ہیں، ٹی وی اور سیل فون کے مل جانے سے کوئی درمیانے طبقے کا حصہ نہیں بن جاتا۔ ہم نے لاکھ دلیلیں دیں کہ درمیانہ طبقہ معاشی اصطلاح ہے اور اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس نہ چیزوں کی فراوانی ہے اور نہ ہی کم مائیگی وہی طبقوں کے درمیان میں ہوتا ہے اور اسی کو درمیانہ طبقہ کا نام دیا جاتا ہے۔ انہوں نے نہ ماننے کی قسم کھا رکھی تھی سو وہ نہ مانے۔
تاریخی تناظر میں دیکھیں تو ساٹھ کی دہائی تک گاڑی، گراموفون، ریڈیو، کلائی کی گھڑی، ریفریجریٹر صرف بڑے زمینداروں یا شہروں کے امیر لوگوں کے گھروں میں پائے جاتے تھے۔ زمیندار صاحب اپنے گراموفون یا ریڈیو سے سارے گاوٴں کو مرعوب کرتے تھے اور گاوٴں والے اس جادو کی مشین سے آنے والی آوازیں سننے کے لئے ترستے تھے۔ یہی حال دوسری اشیائے تصرف کا تھا کہ وہ صرف مخصوص طبقے کے زیر استعمال تھیں۔ اب وہ چیزیں جو پرانے زمانے میں صرف صاحب ثروت کے استعمال میں تھیں اب وہ گھر گھر میں پائی جاتی ہیں۔ اب گاڑی، گھڑی کی کوالٹی میں تو فرق ہو سکتا ہے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ ہر معیار کی اشیاء کا استعمال ایک ہی ہے۔ سونے کی گھڑی ہو یا پلاسٹک کی دونوں اوقات کار بتاتی ہیں، گاڑی چھوٹی ہو یا بڑی دونوں ایک مقام سے دوسرے تک لے جاتی ہیں۔ یہی حال باقی اشیائے تصرف کا ہے کہ عوام کے پاس کم کوالٹی کی ہو گی تو امیر کے پاس بڑی پھندنوں والی لیکن سب کا تصرف ایک ہی ہے۔
کیا عوام کے پاس نئی پہنچنے والی اشیائے تصرف کو کنزیومرازم یا تصرف پسندی کہنے والوں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر مخصوص اشرافیہ تک ان چیزوں کا استعمال رہے تو درست ہے اور اگر وہی اشیائے تصرف عام انسانوں کے پاس آجائیں تو تصرف پسندی کا گناہ کبیرہ سر زد ہو جاتا ہے۔ ہمیں سب سے زیادہ حیرت ترقی پسند سوشلسٹ خیالات رکھنے والوں پر ہے جو ساری معاشی ترقی کو کنزیومرازم کہہ کر اڑا دیتے ہیں۔ آخر امیر اور غریب میں کن بنیادوں پر فرق کیا جاتا تھا جس کو ہمارے نام نہاد کامریڈ ختم کرنا چاہتے تھے؟ امیر اور غریب کے درمیان فرق تو اشیائے تصرف کا ہی تھا وگرنہ تو ہر انسان ننگا پیدا ہوتا ہے اور کفن کے مختصر کپڑے میں لپٹ کر دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔ دراصل روایت پسندوں کی اکثریت جاگیرداری سماج کے اطوار کو ہی حرف آخر سمجھتی تھی اور ہے۔ جاگیرداری سماج میں اشیائے صرف کی تقسیم سرمایہ داری سے بالکل مختلف تھی، کچھ اشیاء مخصوص طبقے کے زیرِاستعمال تھیں اور دوسرے اس سے تہی دست تھے۔ اسی بنیاد پر سماجی درجہ بندی اور حفظ مراتب طے ہوتے تھے۔ خون کے رشتوں، دوستی، مروت کے مخصوص معیار تھے جن کو دائمی تسلیم کیا جاتا تھا لیکن اگر غور کیا جائے تو جاگیرداری دور میں بھی یہ ساری اقدار مخصوص طبقے تک محدود تھیں۔ مثلاً صاحب جائیداد بوڑھے لوگوں کو بہت عزت اور وقار ملتا تھا لیکن بہت غریب گھرانوں میں ماں باپ کو گالیاں بکنا عام مشاہدے کی بات تھی۔ اب اشیائے تصرف کے عوامی استعمال سے سماجی معیار اور حفظ مراتب پر گہری چوٹ پڑی ہے۔ عمران خان کے نوجوان پیروکاروں کی شوخیاں اور بدتمیزیاں پرانی نسل کے لئے ایک بڑے صدمے سے کم نہیں لیکن یہ بدلتے زمانوں کا اظہار ہے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جاگیرداری سماج کی اقدار مٹ رہی ہیں اور سرمایہ داری سماج کی روایات نے جنم نہیں لیا۔
اب جب آزادیٴ جمہور کے زمانے کی آمد آمد ہے اور نقش کہن مٹ رہے ہیں تو عوام کی رسائی صرف اشیائے تصرف تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اب اس کے لئے تعلیم کا حصول بھی ممکن ہو گیا ہے۔ انگریز کے اسکولوں کے نظام سے پہلے تک مدرسہ نظام تھا جس میں چند لوگ ہی تعلیم حاصل کرتے تھے پھر انگریز کے نظام تعلیم میں خواندگی کی شرح بڑھی جو اب ہر گاوٴں تک پہنچ چکی ہے۔ پہلے زمینداروں کی اولاد ہی کالجوں کی تعلیم کے اخراجات کی متحمل ہو سکتی تھی اب تعلیمی اداروں کے اضافے اور ٹرانسپورٹیشن سسٹم کے پھیلاوٴ سے عام درمیانے بلکہ نچلے طبقے کے لوگوں کی بھی تعلیم تک رسائی ہے۔ یہ درست ہے کہ بہت سا غریب طبقہ اب بھی معاشی حالات کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہے کہ تعلیمی نظام سے فیضیاب ہونے والوں کی تعداد میں کئی سو گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اسی نئی معیشت کا حصہ ہے جس کو تصرف پسندی کا گناہ کبیرہ گردانا جا رہا ہے۔
تعلیم کے ساتھ ساتھ نئے دور میں ذرائع ابلاغ میں بے پناہ وسعت آئی ہے۔ گھر گھر ٹی وی، ریڈیو اور سیل فون ہیں۔ وسیع تر درمیانے طبقے کے گھروں میں انٹرنیٹ کا استعمال عام ہو چکا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے پھیلاوٴ سے افراد کی ذہنی وسعت میں کئی ہزار گنا اضافہ ہوا ہے۔ پہلے ایک گاوٴں کے لوگوں کے لئے قریب کا دوسرا گاوٴں اجنبی ہوتا تھا اب وہی گاوٴں کا انسان پوری دنیا کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اب وہ افریقہ، امریکہ، لاطینی امریکہ کے لوگوں سے اس طرح خوش گپیاں کرتا ہے جیسے کہ وہ اس کے پڑوسی ہوں۔ پہلے وہ اطلاعات جو محلات اور بڑے لوگوں کے ڈرائنگ روموں یا خفیہ اداروں کی فائلوں تک محدود رہتی تھیں اب وہ پلک جھپکتے میں ساری دنیا تک پہنچ جاتی ہیں۔ اس طرح کے نظام ابلاغ نے دنیا میں رنگ و نسل کی حدود کو مسمار نہیں تو کمزور ضرور کر دیا ہے اور یہ امر بھی اتفاقیہ نہیں ہے کہ اسی نئے دور کے ذرائع ابلاغ کے نتیجے میں سفید فام امریکہ میں سیاہ فام بارک اوباما صدر کی کرسی پر براجمان ہے۔ جدید معاشی نظام کو کنزیومرازم کی شعبدہ بازی کہنے والوں کو یہ بھی شکایت ہے کہ اب ادب و فن تنزل پذیر ہیں حالانکہ صورتحال اس کے الٹ ہے۔ جاگیرداری نظام میں فنون لطیفہ مخصوص گروہوں (جن کو میراثی، بھانڈ وغیرہ) کہا جاتا تھا۔ اب وہی فنون عام ہو رہے ہیں ، بہت سے عام گھرانوں سے موسیقار، ایکٹر ایکٹریسیں اور دیگر فنکار پیدا ہو رہے ہیں۔ اب فن بھی ویسے ہی عام ہورہا ہے جس طرح سے گراموفون یا ٹی وی۔
ہم زند گی کے ہر شعبے میں مثبت تبدیلی کی نشاندہی کر سکتے ہیں لیکن کالم کی حدود اس کی متحمل نہیں ہو سکتیں اس لئے ہم قاری سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ خود اپنے اردگرد نظر دوڑا کر دیکھے کہ زندگی کس طرح مثبت سمت میں رواں دواں ہے۔
تازہ ترین