• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں حالیہ عرصے سے اخبارات میں سیکولرازم کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور زیادہ تر سیکولرازم کی تشریح اور معانی کو کچھ اس طریقے سے پیش کیا گیا ہے جیسے سیکولر ازم اسلام کے متضاد کسی مذہب کی حیثیت رکھتا ہے اور ملک میں تمام خرابیوں کی جڑ یہی ہے۔ہمارے بہت ہی قابلِ احترام، محقق، مخلص اور دیانتدار کالم نگار سیکولرازم کو اسلام کے متضاد قرار دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ میری ان تمام سے درخواست ہے کہ وہ ٹھنڈے دل سے سیکولر ازم کی تشریح اور معانی پر دوبارہ سے ایک نگاہ ڈال لیں جس سے انہیں اس بات کا واضح احساس ہوگا کہ سیکولرازم، اسلام کی ہرگز نفی نہیں کرتا اور نہ ہی اس کے متضاد ہے۔ دراصل پاکستان میں سیکولرازم کو غلط سمجھنے کی بڑی وجہ اردو لغت میں پیش کی جانے والی اس کی تشریح اور اس کو پہنائے جانے والے معنی ہیں۔ اردو لغت میں سیکولرازم کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے۔”سیکولرازم کا مطلب ہے”لا دین یعنی جس کا کوئی دین یا مذہب نہ ہو، بے دین، دہریہ اور ملحد۔ ظاہر ہے اگر اردو کی لغت میں اس لفظ کی تشریح کچھ اس انداز بھی کی جائے گی تو لازمی طور پر عام لوگ اسے کفر ہی قرار دیں گے۔ اردو زبان میں کی جانے والی یہ تشریح اور پہنائے جانے والے یہ معنی سراسر غلط، باطل ، فسخ اور لغو ہیں۔ آکسفورڈ ڈکشنری میں سیکولرازم کی تشریح کچھ یوں کی گئی ہے۔
"The belief that religion should not be involved with the ordinary social and political activities of a country"
( ایک نظریہ جس کے مطابق مذہب کو ملک کے عام سماجی اور سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے) ایک اور بڑی سادہ اور آسان سی تشریح کچھ یوں ہے۔ "Secularism is more than religious harmony" (سیکولرازم مذہبی ہم آہنگی سے بھی بالاتر ہے)۔ زیادہ تر انگریزی لغات میں سیکولرازم کی تشریح اسی طریقے ہی سے کی گئی ہے لیکن بدقسمتی سے اردو لغت میں عام طور پر سیکولرازم کے لئے ” لا دین“ کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں عربی زبان میں لفظ ” لا“ نفی کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے اور دین کے ساتھ ” لا“ لگانے سے ”لادین“ یعنی بے دین، دہریہ، ملحد اور جس کا کوئی دین نہ ہو کا مطلب ہی لیا جاتا ہے، جو سراسر غلط ہے۔ اس تشریح اور معنی سے بعض نام نہاد مولویوں نے خوب دکانداری چمکائی حالانکہ اردو میں سیکولرازم کی صحیح تشریح کچھ یوں ہونی چاہئے۔ ”تمام مذاہب کے ساتھ رواداری ، غیر جانبداری اور ملکی نظم و نسق ،سماجی، تعلیمی اور سیاسی معاملات میں تمام مذاہب کے ایک ہی فاصلے پر کھڑا ہونے اور کسی بھی مذہب اور فرقے کو کسی دیگر فرقے اور مذہب پر کسی بھی طرح برتری حاصل نہ ہونے، تمام مذاہب کے اور فرقوں کو مملکت کی نظر میں مساوی حیثیت حاصل ہونے ہی کا نام سیکولرازم ہے“۔
اس تشریح سے یہ بات بالکل واضح ہے ہوتی ہے کہ سیکولرازم کسی بھی صورت مذہب کی نفی نہیں کرتا بلکہ مذہبِ اسلام کی صحیح روح یعنی”دین میں کوئی جبر نہیں ہے“ کے عین مطابق عمل کرنے کا درس دیتا ہے۔اب رہی بات ہمارے زیادہ تر کالم نگاروں کی جانب سے اس نظریئے کو پیش کیا جانا کہ قائد اعظم نے ایک سیکولر نہیں بلکہ ایک مذہبی ریاست قائم کی تھی حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ (جیسا کہ میں اوپر عرض کرچکا ہوں کہ یہ سب کالم نگار سیکولرازم کو لادین کے معانی پہناتے ہیں اور پھر اسی کو بنیاد بنا کر اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں اور اس طرح قائد اعظم کی جانب سے تھیوکریٹک اسٹیٹ قائم کرنے کا اظہار کرتے ہیں)۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلمانوں کے لئے الگ وطن کا مطالبہ اس لئے کیا تھا کہ ان کو معلوم تھا کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد ہندوستان میں جمہوریت قائم ہونے کی صورت میں مسلمان کبھی بھی ہندوؤں کی غلامی سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکیں گے۔ (کیا مقبوضہ کشمیر کے مسلمان اپنے علاقے میں اکثریت ہونے کے باوجود اس غلامی سے چھٹکارا حاصل کر پائے ہیں؟) اس وقت کے زیادہ تر مذہبی رہنماؤں نے جن میں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسین مدنی اور مولانا مودودی بھی شامل تھے ایک آزاد اسلامی مملکت کی مخالفت کی تھی جبکہ نوجوانوں کی اکثریت اور لبرل اور سیکولر طبقے نے پاکستان کے قیام کے لئے اپنا تن من دھن قربان کردیا تھا۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے نئی اور آزاد مملکتِ پاکستان کو صرف مسلمانوں ہی کے لئے تشکیل نہ دیا تھا بلکہ ان تمام اقلیتوں کو بھی جو پاکستان کی حدود میں آباد تھیں اس نئی مملکت میں ان کا حصہ دینے کا وعدہ کیا تھا اور یوں ان کی بھی ہمدردیاں حاصل کی تھیں جبکہ کٹر مذہبی نظریات کے حامل مسلمانوں نے پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی اور زیادہ تر نے ہندوستان ہی میں رہنے کو ترجیح دی تھا۔ قائداعظمِ اسلام کے وسیع النظر ہونے، رواداری برتنے، اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنے والا مذہب ہونے پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ قائداعظم نے پاکستان کے قیام سے چند روز قبل9/اگست 1947ء کو اردو کے مشہور شاعر جگن ناتھ آزاد سے اپنے ایک دوست کے توسط سے رابطہ قائم کرتے ہوئے ان سے پاکستان کا قومی ترانہ تخلیق کرنے کو کہا تھا۔ حالانکہ اس وقت بڑی تعداد میں بڑے اہم اور مشہور مسلمان شاعر موجود تھے لیکن قائد اعظم کا ایک ہندو شاعر سے قومی ترانہ تحریر کرانے کا مقصد ایک ایسا قومی ترانہ تحریر کرانا تھا جس میں پاکستان میں موجود تمام نسلوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو نمائندگی کا حق دیا جاتا ہو۔ قائد اعظم اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر قومی ترانہ کسی مسلمان شاعر سے لکھوایا گیا تو قومی ترانے میں صرف مذہب اسلام ہی کا ذکر ہوگا اور ملک میں موجود دیگر مذاہب اور نسلوں کے احساسات کو نظر انداز کر دیا جائے گا اور اس طرح سیکولرازم کی نفی ہوگی۔ جب تک قائد اعظم زندہ رہے لاہور میں آباد جگن ناتھ آزاد ہی کے قومی ترانے کو استعمال کیا جاتا رہا لیکن ان کی رحلت کے ایک سال بعد اس کی جگہ حفیظ جالندھری سے نئے سرے سے قومی ترانے کو تحریر کرایا گیا اور اس وقت سے اب تک حفیظ جالندھری ہی کے تحریر کردہ قومی ترانے کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ کیا کبھی ہم نے اس پر غور کیا ہے وہ قومی ترانہ جو قائداعظم نے اپنی دلی اور قومی خواہشات کے عین مطابق تحریر کرایا تھا،کہاں گیا؟ کیا اسے سیکولرازم سے بیر رکھنے والے عناصر نے جان بوجھ کر تو نہیں ہٹوا دیا تھا؟
قائد اعظم کی وفات کے بعد اسے تبدیل کرنے کی کیونکر ضرورت محسوس ہوئی؟ وہ قومی ترانہ دراصل پاکستان کے ایک سیکولر ملک ہونے، قائد اعظم کے ایک سیکولر مملکت بنانے کے نظریات کی غمازی کررہا تھا۔ اس کی بڑی وجہ اس دور میں قائد اعظم کا جدید جمہوریہ ترکی اور اس کے بانی مصطفی کمال اتاترک سے متاثر ہونا تھا۔ انہوں نے اس دور میںH.C. Armstrong کی کتاب Gray Wolf (بوزکرت) کا نہ صرف خود کئی بار مطالعہ کیا تھا اور اس کتاب کے کئی ایک اہم موضوعات اور صفحات جس میں ترکی کی غیر ملکیوں سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد، ملک میں جدید نظام اور سیکولرازم کو متعارف کرانے جیسے موضوعات شامل تھے کو انڈر لائن کرتے ہوئے اس کتاب کو اپنی صاحبزادی کو پیش کرتے ہوئے کہا تھا” یہ بہت عمدہ کتاب ہے اس کو ضرور پڑھو“ قائد اعظم محمد علی جناح نے 1938ء میں اتاترک کی وفات کے موقع پر بہار پٹنہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 26 ویں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ”ہمیں عظیم ترک رہنما اتاترک کی وفات پر گہرا دکھ پہنچا ہے۔ وہ مشرق کی عظیم اور روشن خیال شخصیت تھی جنہوں نے ترکی کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے دیگر اسلامی ممالک کی آزادی کی شمع کو روشن کیا ہے۔” قائد اعظم اتاترک ہی کی طرز پر ملک کو جدید خطوط پر استوار کرنا چاہتے تھے( یہ الگ بات ہے کہ اتاترک کے بعد ان کے جانشینوں نے سیکولرازم کو غلط رنگ دے دیا اور اسے مذہبی حلقوں پر ظلم و ستم کرنے، مساجد کو اصطبل میں تبدیل کرنے، عربی زبان میں اذان دینے سے روکنے، سرکاری اداروں میں داڑھی رکھنے پر پابندی لگانے،ہیڈ اسکارف پہن کر یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے جیسے ظلم ڈھائے جسے موجودہ حکومت نے ختم کرتے ہوئے سیکولرازم پر اس کی صحیح روح کے مطابق عملدرآمد کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ جس کا آئندہ ہفتے ذکر کیا جائے گا)۔ قائد اعظم نے پاکستان کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور سیکولرازم پر عملدرآمد کرنے کی سوچ کا مالک ہونے کی وجہ سے پاکستان میں آباد ہندوؤں کو پاکستان ہی میں آباد رہنے کی پیشکش کی تھی اور ان کو یقین دلایا تھا کہ پاکستان کی تمام اقلیتیں مسلمانوں کی طرح اپنے عقیدے پر عملدرآمد کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہوں گی۔
تازہ ترین