• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا گھمن گھیریاں، گھوم گھوم کر وہیں ، جہاں سے چلے تھے ،کل نواز شریف لندن میں تھے، یہی باتیں ، کیا واپس آئیں گے ،کب آئیں گے، آج پھر نواز شریف لندن میں ، وہی باتیں ، کیا واپس آئیں گے،کب آئیں گے، کل بھی فیصلہ عدالتی ، نواز شریف حاضر ہوں ، آج بھی فیصلہ عدالت کا، نواز شریف 10ستمبر کو سرینڈرکریں ، کل تاثریہی ،نواز شریف آئے،ملک وقوم پر احسان کیا، آج یہی ماحول بنایا جارہا ،آئیں گے ،ملک وقوم پر احسان ہوگا، کل یہی بات ہورہی تھی ، اگر نواز شریف عدالت کے بلانے پر آسکتے ہیں تو پرویز مشرف کیوں نہیں۔

آج بھی یہی بات ہورہی ،اگر نواز شریف آئیں گے تو پرویز مشرف ،جہانگیر ترین کیوں نہیں،کیا گھمن گھیریاں، کل نواز شریف کہہ رہے تھے مجھے کیوں نکالا، آج عمران خان کہہ رہے ، میں نے کیوں نکالا، کیا گھمن گھیریاں، وہی کراچی، وہی بارشیں ،وہی تباہی ،وہی الزام تراشیاں ،دشنام طرازیاں ،وہی پوائنٹ اسکورنگ ، وہی کریڈٹ لینے کے چکر ، وہی دعوے، نعرے ،وعدے، بڑھکیں ،وہی عوامی چیخیں ،وہی جانی ،مالی نقصان ،وہی رُلتی مخلوق ، وہی گٹر ،وہی بند نالے،وہی تجاوزات ،کیا گھمن گھیریاں، بارش برسے تباہی،بارش نہ برسے تباہی، سیلاب تباہی ،خشک سالی تباہی،کیا گھمن گھیریاں، جو آئے یہی کہے ،پچھلے تو ملک دیوالیہ کر گئے ،معیشت ،تجارت برباد، اندرونی محاذ ،کوئی شے اپنی جگہ پر نہیں ، بیرونی محاذ، ہم تنہا،اتنی تنہائی اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ گیا،کیا گھمن گھیریاں، عوامی اخلاقی حالت یہ۔

ایک دوسرے کو کتے،سور ،گدھے کھلارہے، مردہ جانوروں کی انتڑیوں سے گھی بنارہے، پلاسٹک کے انڈے بیچ رہے،معصوم بچیوں کی عزتیں لوٹ رہے اور ساتھ ساتھ کورس میں یہ بھی گارہے، کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے،کیا گھمن گھیریاں، ہر گنگو تیلی راجہ بھوج بنا بیٹھا، اقبال کے شاہین کوؤں جیسی زندگیاں گزار رہے۔

کیا گھمن گھیریاں، کراچی بارشیں ،لوڈ شیڈنگ ،کرنٹ سے مرتے لوگ، جی چاہ رہا، کے الیکٹرک کہانی سناؤں، کہانی لمبی ،خلاصہ حاضر خدمت، یاد رہے، یہ وہی کے الیکٹرک جس کو عدالتیں ڈانٹ رہیں ، جس کے بارے میں ابھی کل ہی سپریم کورٹ میں پتا چلا کہ اس نے پورے کراچی سے ’ارتھ وائرز‘ اتارلیں ، تبھی بارشوں میں کھمبے ،تاریں انسان ماررہے ،سنیے، ایک کمپنی ہوا کرتی تھی، جس کانام تھا کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن ،مشرف دور، سال 2001-2، اس کمپنی کا خسارہ بڑھ کر 17ارب 74کروڑ ہوا تو اسکی نجکاری پر غور شروع ہوا، نجکاری فیصلہ ہوا، اشتہار دیا گیا ، بولیاں طلب کی گئیں۔

خلیجی ملک کی ایک کمپنی نے سب سے زیادہ بولی دی، یہ کمپنی مقررہ وقت پر ادائیگی نہ کرسکی، حکومت پاکستان نے خلیجی ملک کی ہی ایک بروکر کمپنی سے مذاکرات کئے ، حکومت پاکستان نے اس کمپنی کو مشورہ دیا، کنسورشیم بنالو، کنسورشیم بنا، جب کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے اثاثوں کی مالیت 2ارب سے زائد اور صارفین سے 29ارب لینے تھے تب کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کو خلیجی ملک کی بروکر کمپنی کو 15ارب 86کروڑ میں بیچ د یا گیا، اس خلیجی بروکر کمپنی کا تجربہ بجلی کے شعبے کی بجائے تعمیرات کے شعبے میں تھا۔

جبکہ کنسورشیم میں سب سے زیادہ شیئرز والی کمپنی کا تجربہ آٹو موبائل شعبے میں تھا، کراچی الیکٹرک سپلائی کارپویشن خریدنے والوں نے جرمنی کی ایک کمپنی کو تکنیکی معاون مقررکیا، اس جرمن کمپنی کا بجلی سے بس اتنا واسطہ تھا کہ وہ بجلی کی مصنوعات بناتی تھی، یہاں یہ بھی یاد رہے، حکومت پاکستان نے 15ارب 86کروڑ میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن بیچ کر کمپنی خریدنے والوں سے یہ وعدہ بھی کر لیا کہ انہیں 14 ارب دیں گے تاکہ کمپنی کو جدید بنایا جا سکے ،فعال کیاجا سکے، خیر جب خلیجی کمپنی کراچی صارفین کو بجلی فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی تو اس نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حکومت پاکستان جو 26فیصد شیئرز کی حامل تھی اسے بتائے بنا ابراج کو کمپنی فروخت کردی، ابراج نے اس کا نام کے الیکٹرک رکھ دیا۔

آگے سنیے، پیپلز پارٹی حکومت آئی، راجہ پرویز اشرف پانی وبجلی کے وزیر بنے، ابراج نے معاہدے میں من مرضی کی ترامیم کرالیں،مبینہ ترمیمی معاہدے کے تحت کے الیکٹرک کے 31ارب کے بقایا جات کو حکومتی خسارہ قرار دے کر معاف کر دیا گیا، کے الیکٹرک کو پاکستانی قوانین سے متصادم آرڈر پاس کرنے کا اختیار مل گیا، کے الیکٹر ک 7سال بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھا سکتی۔

یہ شق ختم کر دی گئی، وفاق کے الیکٹر ک کو 650میگا واٹ بجلی دینے کا پابند ہو ا، یہی 650میگا واٹ اب بڑھتے بڑھتے 850میگا واٹ ہوگئے ، حکومت پاکستان کے الیکٹرک کو سبسڈی دے گی، کے الیکٹرک سسٹم بہتر بنانے کیلئے ہر سال انوسٹمنٹ کرے گی، یہ شق بھی ختم، ترمیمی معاہدے میں یہ شق بھی ڈال دی گئی کہ اگر کسی موقع پر حکومت پاکستان کے الیکٹرک کو اپنی تحویل میں لے گی تو اس کے تمام واجبات حکومت پاکستان اداکرے گی،یہ شق اس لئے ڈلوائی گئی کیونکہ کے الیکٹرک کی زمین ،گرڈ اسٹیشن ،آلات گروی رکھوا کر ملکی وغیر ملکی اداروں سے اربوں روپے قرضہ لیا جا چکا۔

مطلب اب حکومت پاکستان کے الیکٹرک کو اپنی تحویل میں لیتی ہے تو معاہدے کی روسے یہ سب قرضہ حکومت پاکستان کو دینا ہوگا، یہ بھی سنتے جایئے،اس ترمیمی معاہدے کی وفاقی کابینہ ،کابینہ ڈویژن یا نجکاری کمیشن سے منظور ی نہ لی گئی بلکہ یہ ترمیمی معاہدہ کے الیکٹرک سی ای او اور وزارت پانی وبجلی کے سیکرٹری کے درمیان ہوا ،پی پی حکومت گئی ،مسلم لیگی حکومت آئی ،مگر 5سال تک لیگی حکومت نے پاکستانی مفاد ات سے متصادم اس معاہدے کی طرف دیکھا تک نہیں ۔

کیا گھمن گھیریاں، آج وہی پیپلز پارٹی کے الیکٹرک تباہی ،لوڈشیڈنگ پر مگرمچھ کے آنسو بہارہی ، یہ ترمیمی معاہدہ کیوں ہوا، کس کس کو کتنا فائدہ ہوا، کون مال کما گیا، یہ علیحدہ کہانی ،مگرآج جو ہر ادارہ تباہ و برباد ہو چکا ،جدھر دیکھو خسارہ ہی خسارہ ،یہ سب پل بھر میں نہیں ہوا۔

اس کے پیچھے سالوں کی لُٹ مار اور بدنیتی ، یہی وجہ جس طرف نظر جائے ،بس ڈھانچے ہی ڈھانچے ،گد ھیں نوچ نوچ کھا گئیں بلکہ گدھوں کو کھا کھا، بدہضمیاں ہوگئیں ،کیا گھمن گھیریاں،گھوم گھوم کر وہیں ،جہاں سے چلے تھے ۔

تازہ ترین