یہ آج سے انیس برس قبل ستمبر کی گیارہ تاریخ تھی جب عالمی دہشت گردوں نے دنیا کی واحد سپرپاور امریکہ کو نشانہ بنایا،یہ حملہ ایک ایسے وقت کیا گیا جب پاکستانی قوم بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی برسی کے موقع پر سوگوار تھی،سانحہ نائن الیون امریکی سرزمین پر دوسری جنگ عظیم کے دوران پرل ہاربر کے بعددوسر ا سب سے بڑا حملہ قرار دیا گیا جس میںمسافر بردار طیاروں کو اغواء کرکے نیویارک میں واقع سو سے زائد منزلوں پر مشتمل ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور عسکری مرکز پینٹاگون سے ٹکرا دیا گیا، اس بھیانک حملے کے نتیجے میں لگ بھگ تین ہزارافراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ تقریباً چھ ہزار زخمی ہوئے۔عالمی طاقت امریکہ کی اقتصادی ترقی کی نشانی سمجھا جانے والا ورلڈ ٹریڈ سینٹر دہشت گردوں کے خطرناک حملے سہہ نہ سکا اوردیکھتے ہی دیکھتے میں بوس ہوگیا۔آگ اور خون کا یہ بھیانک منظر دنیا بھر کے ٹی وی چینلز نے لائیو ٹیلی کاسٹ کیا جس سےپوری دنیا حیرانگی اور خوف میں مبتلا ہوگئی ، مجھے آج بھی یاد ہے کہ اس زمانے میں پاکستان میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز موجود نہیں تھے اور نہ ہی آج کی طرح سوشل میڈیا کا زور تھا،فوری معلومات کے حصول کا بڑا ذریعہ سرکاری پی ٹی وی یا پھرغیرملکی نیوز چینلز کی بذریعہ ڈش انٹینا رسائی تھی۔ سی این این ، بی بی سی اور دیگر عالمی چینلز نائن الیون حملے کی کوریج ضرور کر رہے تھے لیکن دیگر تفصیلات فراہم کرنے سے قاصر تھے، بہت جلد ٹی وی چینلز کی ا سکرین پر امریکہ انڈر اٹیک، وار آن ٹیرر، بلڈی ٹیوس ڈے جیسے ٹکر چلنے لگے، اسی طرح اگلے دن کے اخبارات کی شہ سرخیاں نائن الیون حملے کی تباہکاریوں سےمتعلق تھیں۔ گیارہ ستمبر حملوں کے فوراََ بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا، میں سمجھتا ہوں کہ یہ اعلان جنگ درحقیقت دورحاضر کی جدیدتاریخ میں واضح تبدیلی کا عکاس تھا، صدر بش نے عالمی برادری کے نام پہلے پیغام میں ہی امریکی حکومت کاغضبناک موڈ عیاں کردیا تھا، انہوں نے امریکی سرزمین پر تباہی پھیلانے والے عناصر کے خلاف سخت ایکشن لینے کا عندیہ دیتے ہوئے خبردار کیا کہ امریکہ اپنے مجرموں کوانصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے ہرممکن اقدام اٹھائے گا، اس موقع پر دیگر ممالک کی قیادت کوبھی وارننگ دی گئی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نیوٹرل رہنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، امریکہ کا ساتھ دینے کیلئے فوری اقدام اٹھایا جائے۔ اس وقت دنیا بھر سے مذمتی پیغامات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا،دنیا کے تمام ممالک کی ہمدردیاں امریکی عوام کے ساتھ تھیں، ایک طرف امریکی عوام صدمے کا شکار تھے تو دوسری طرف امریکی حکومت سفارتی محاذ پر دہشت گردی کے خلاف عالمی اتحاد کی تشکیل کیلئے سرگرم ہوچکی تھی،اس حوالے سے اگلے روز 12ستمبر کواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں سخت قراردادوں کی منظور ی نے دہشتگردوں اور ان کے ٹھکانوںکے خلاف عسکری کارروائی کی را ہ ہموار کر دی۔،دوہفتے بعد امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے ایک واضح قرارداد پاس کرانے میں کامیاب ہو گیا ۔ اس امر میں کوئی شک نہیںکہ نائن الیون دہشتگردی نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور دنیا کی مختلف اسٹاک ایکسچینج مارکیٹس کریش کرگئی تھیں۔ اس وقت کے پاکستانی حکمراںجنرل مشرف کا شمار ان چند عالمی شخصیات میں ہوتا ہے جن سے امریکہ نے نائن الیون حملے کے فوری بعد رابطہ قائم کرکے تعاون مانگا۔بلاشبہ پاکستان کیلئے گیارہ ستمبر حملے کے بعد کی صورتحال بہت گمبھیر اور پیچیدہ تھی، ایک طرف پاکستان مغربی سرحد کے پار قائم طالبان حکومت کو سرکار ی طور پر تسلیم کرتا تھا تو دوسری طرف مشرقی سرحد کے پار بھارت امریکہ کو بھرپور تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے فوجی اڈے فراہم کرنے کی پیشکش کرچکا تھا۔ پاکستان کے وسیع تر قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف عالمی اتحاد میں شمولیت کا مشکل فیصلہ کرلیاگیا، تاہم نائن الیون حملے کے ردعمل میں لڑی جانے والی اس جنگ نے پاکستان اور خطے کو لہولہان کردیا، امریکہ کے خلاف نبزدآزما قوتوں نے اپنے جوابی ردعمل کےطور پرپاکستان کو اپنے نشانے پر رکھ لیا، پاک سرزمین کے چپے چپے پر خودکش حملوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا، ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک اسی ہزار پاکستانی باشندے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ کا پیش کرچکے ہیں، اس بات کا کریڈٹ پاکستان کی بہادر افواج کو جاتا ہے جس نے اپنی لازوال قربیانیوں اور انتھک جدوجہد کی بدولت قیام امن کو ممکن بنایا ۔ رواں برس گیارہ ستمبر کو امریکی سرزمین پر ہونے والے اندوہناک دہشت گرد حملے کو انیس برس پورے ہوجائیں گے ، اس طویل عرصے میں دنیا میں بہت کچھ بدل چکا ہے، سفارتی محاذ پرکل کے دشمن آج کے دوست بن چکے ہیں ۔ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر حملے کے نتیجے میں امریکی متاثرین سے دِلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہنا چاہوں گا کہ دنیا کے تمام تنازعات آخرکار مذاکرات کی میز پر ہی حل ہوتے ہیں، امریکہ نے انیس سال قبل جن قوتوں کے خلاف جنگ چھیڑ ی تھی، آج ان سے امن مذاکرات کا خواہاں ہے، امریکہ اگر افغانستان سے فوجیں نکالنا چاہتا ہے تو خدارا نوے کی دہائی کی غلطی نہ دہرائے۔ میں گیارہ ستمبر کو قائداعظم کی برسی کے موقع پرامریکہ اور عالمی برادری کو بانی پاکستان کا خارجہ پالیسی کے حوالے سے یہ فرمان بھی یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارا مقصد اندرونی اور بیرونی سطح پر قیام امن ہے، ہم پرامن زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں، ہم اپنے ہمسایہ ممالک سے قریبی تعلقات کے خواہاں ہیں، ہمارے کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں ہیں، ہم اقوام متحدہ کے چارٹر پر عمل پیرا ہیں اورعالمی امن کے قیام کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرتے رہیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)