• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ملک کیوں درندوں کی بستی بنتا جارہا ہے۔کیا وہ انسان کہلانے کے حقدار ہیں جنہوں نے موٹر وے پر اپنی گاڑی میں جاتی ہوئی عورت کے ساتھ اس کے بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کی۔ نہیں ہرگز نہیں۔ وہ انسان نہیں ہو سکتے۔ وہ جانور تھے۔

یہ بستی ہی جانوروں کی ہے۔ گزشتہ حکومت میں صرف قصور میں سینکڑوں بچوں کے ساتھ ظلم ہوا۔ اس پر ظلم کہ آج بھی اہل قصور کہتے ہیں بااثر ہونے کی وجہ سے اصل مجرم ابھی تک آزاد پھرتے ہیں۔

سانحہ چونیاں، جس میں چار بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا، اس کا مجرم وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی ذاتی کاوشوں سے گرفتار ہوا مگر کیا اسے نمونہ ِ عبرت بنایا گیا کہ دوسروں کو سبق حاصل ہو۔ نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا، یہ کام عدلیہ کا تھا۔ اس ملک کی کئی دوسری بڑی خرابیوں کے ساتھ بڑی خرابی سست رفتار انصاف بھی ہے۔

پنجاب میں زیادتی کے کیسوں کی تعداد گزشتہ برس اتنی زیادہ تھی کہ ایک آئی جی کے بدلنے کی وجوہات میں یہ وجہ بھی سامنے آئی۔ اگرچہ اس برس حالات کچھ بہتر رہے مگر موٹروے پر سفر کرتی ہوئی ماں نے نیند سے چونک کے اٹھے ہوئے لوگوں کو گھبرا کے آنکھیں ملنے پر مجبور کردیا ہے۔

سیالکوٹ موٹر وے کی پولیس کہاں تھی۔ ان مجرموں نے موٹر وے کے ساتھ لگی ہوئی لوہے کی باڑ کاٹی۔ سڑک پر آئے، کار کا شیشہ توڑا، اس میں عورت بچوں کو نکالا اور باڑ سے دوسری طرف جھاڑیوں میں لے گئے۔ یہ واقعہ لمحہ بھر میں نہیں ہو سکتا۔ کہاں تھی آخر اس وقت پولیس۔ پھر یہ پولیس آئی جی موٹر وے کلیم امام کے ماتحت کیوں نہیں۔

کیا باقی موٹر ویز کیلئے کوئی اور آئی جی لگایا جائے گا۔ شاید پوری دنیا میں یہ واحد موٹروے ہے جس کا علیحدہ آئی جی ہے۔ ذرا غور کیجئے صرف ایک سڑک کا آئی جی۔ ہائے افسوس کہ وہ بھی محفوظ نہیں۔ وہاں بھی کئی کیسز ہو چکے ہیں۔ پنجاب میں عمران خان نے چھٹا آئی جی تبدیل کیا ہے مگر ابھی تک کچھ نہیں ہو سکا، کرپشن نہیں رک سکی کہ پورا نظام کرپٹ ہے، اس کا مکمل سافٹ ویئر بدلنے کی ضرورت ہے اس کے بغیر یہ سوچنا کہ صرف پولیس ٹھیک ہوجائے گی تو یہ ممکن نہیں۔

یہ شاید پچھلے برس کی بات ہے میں ایک آئی جی کے دفتر میں گیا جہاں ایس ایچ اوز کے ساتھ ان کی میٹنگ اسی وقت ختم ہوئی تھی، ابھی وہ میٹنگ روم میں موجود تھے، آئی جی صاحب چونکہ میرے دوست تھے انہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا۔ آئو آئو ،روز قانون کی علمبرداری قائم کرنے کے مشورے دیتے ہو، کرپشن ختم کرنے کے طریقے بتاتے ہو۔

ان پولیس افسران کے اس سوال کا جواب تو دو۔ سوال یہ تھا کہ تھانے سے جب کوئی مقدمہ عدالت جاتا ہے تو عدالت کے اہلکار اس وقت تک کیس نہیں لیتے جب تک ایک کیس کے ساتھ کم از کم پانچ ہزار روپے نہ دئیے جائیں۔ ایک تھانے سے اگر ایک مہینے میں صرف ایک سو کیس بھی عدالت میں جائیں تو اس تھانے کو پانچ لاکھ روپے رشوت دینا پڑتی ہے، یہ پانچ لاکھ کہاں سے آئیں۔ عدالتی اہلکاروں کو رشوت لینے سے کیسے روکیں۔ سوال اتنا خوفناک تھا کہ میں اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔

اس میں کوئی شک نہیں پنجاب کے بیشتر اضلاع میں امن ِعامہ کی صورتحال وہیں بہتر ہے جہاں کا ڈی پی او ایمان دار بھی ہے اور انتظامی معاملات میں بھی بھرپور استعداد رکھتا ہے۔

مثال کے طور میانوالی، جہاں عمران خان نے پورے پنجاب سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر حسن اسد علوی کو ڈی پی او لگایا ہے۔ اسلام آباد میں توامنِ عامہ کی وجہ صرف عامر ذوالفقار ہیں جو اسلام آباد کے آئی جی ہیں ۔اسی طرح ایک ڈی پی او سرفراز ورک ہیں، جہاں بھی تعینات کئے گئے ، جرائم پیشہ عناصر اپنے بلوں میں گھس گئے۔ ایک صادق علی ڈوگر بھی ڈی پی او ہوتے تھے ۔ وہ بھی جس ضلع میں لگتے تھےجرائم کم ہو جاتے تھے۔یعنی یہ نہیں کہ پولیس کے پاس اچھے افسران نہیں ۔

سی سی پی او لاہور عمر شیخ ، شاید جن کی وجہ سے آئی جی پنجاب تبدیل ہوئے ،ان کے متعلق ایک دوست کہہ رہا تھا کہ وہ بھی بڑے دبنگ افسر ہیں ،اب لاہور میں جرائم اور کرپشن دونوں میں زبردست کمی آئے گی مگر اس وقت وزیر اعلیٰ عثمان بزدار پھر امتحان میں ہیں ۔اگرچہ انہوں نے فوری طور پرنوٹس لیا، فرانزک کے ماہرین اور پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اورپولیس نے سیف سٹی کے کیمروں کی مدد سے ملزمان کی تلاش جاری ہے مگر اب معاملہ صرف مجرموں کے گرفتار کرنے تک محدود نہیں رہنا، انہیں نشان ِعبرت بھی بناناانتہائی ضروری ہے ۔

کوئی آٹھ ماہ پہلے 13سالہ بچی سے واہ کینٹ پولیس کی حدود میں اجتماعی زیادتی کی گئی تھی، اس کا کیا ہوا؟۔ کوئی گیارہ ماہ پہلے نارتھ کراچی میں خاتون سے اجتماعی زیادتی کے کیس میں ملوث دو پولیس اہلکاروں سمیت چھ ملزموں کو ایک روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔

پھر کیا ہوا؟۔کوئی ایک سال پہلے راولپنڈی کی ایک طالبہ سے اجتماعی زیادتی کے کیس میں دو پولیس اہلکاروں سمیت چار آدمیوں کا ریمانڈ لیا گیا تھا۔ اس کا کیا ہوا؟۔کچھ بھی نہیں ۔

بس ایک طویل خاموشی ۔ایسا لگتا ہے یہ ملک درندوں کی بستی بن چکا ہے۔ عمران خان جب چین کے دورے سے واپس آئے تھے تو کرپشن کے خاتمے کا چینی ماڈل ساتھ لائے تھے جس میں کرپشن پر موت کی سزا تھی اور انٹیلی جنس کا ایک بہت بڑا سسٹم تھا۔ فوری سزا تھی مگر رات کے رکھوالوں نے چند دنوں میں اُن کے سارے خواب چکنا چور کردئیے۔ تبدیلی دھری کی دھری رہ گئی۔ دسمبر تک شاید کسی تبدیلی کا امکان ہے۔

تازہ ترین