اسلام آباد(رپورٹ:…رانا مسعود حسین) پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ جنگ جیو کے سربراہ اور معروف صحافی میر شکیل الرحمان نے جائیداد کے تبادلہ کے 34سال پرانے معاملے میں لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے ، ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست خارج کرنے کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے ہائیکورٹ کا 8جولائی 2020کا فیصلہ کالعدم قرار دینے اور انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کرنے کی استدعا کی ہے۔
درخواست گزار میر شکیل الرحمان نے جمعرات کو آ ئین کے آرٹیکل 185تھری کے تحت دائر کی گئی ’’پٹیشن فار لیوو ٹو اپیل‘‘ میں چیئرمین نیب ،ڈی جی نیب لاہور اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر /تفتیشی افسر نیب لاہور عا بد حسین کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ انہیں3مارچ 2020کو نیب کی ڈپٹی ڈائریکٹر (کوآرڈینیشن) کمپلینٹ ویری فکیشن سیل ، بینش نعمان کے دستخطوں سے نیب لاہور آفس میں طلبی کا نوٹس موصول ہواجس کے متن سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ یہ34سال پرانے معاملہ سے متعلق ایک شکایت کی تصدیق کے لئے جاری کیا گیا ہے۔
نوٹس میں درخواست گزار کو ایچ بلاک جوہر ٹائون فیز ٹو لاہور میں 54 پلاٹوں سے متعلق استثنیٰ کے حوالے سے ریکارڈ سمیت ذاتی طور پر پیش ہونے کی ہدایت کی گئی تھی ، اس حقیقت کے باوجود کہ شکایت کی تصدیق کے عمل کے دوران نہیں بلکہ نیب آ رڈیننس 1999کی دفعہ 19کے تحت طلبی کے نوٹس کے ذریعے ہی کسی شخص کو انکوائری یا تفتیش کے دوران ہی طلب کیا جاسکتا ہے۔
درخواست گزار طلبی کے نوٹس کے احترام میں نیب لاہور کے ٹھوکر نیاز بیگ کے آفس میں 5مارچ کو پیش ہوا ،جہاں نیب کے چند افسران نے ایل ڈی اے کی جانب سے درخواست گزار کو 1986میں180کنال 18مرلے ایکوائر کی گئی اراضی کے بدلے میں 54کنال 4مرلے کی اراضی پر درخواست گزار کے پیش روئوں کے حق میں دیئے گئے استثنی سے متعلق پوچھ گچھ کی ،چونکہ یہ 34سال پرانا معاملہ تھا اس لئے درخواست گزار اپنے ساتھ کچھ نوٹس جو اس نے اپنی یادداشت سے تیار کئے تھے اور کچھ دستاویزات جو اس وقت دستیاب تھیں، ساتھ لیکر گیا،اور وہ نوٹس اور دستاویزات تفتیشی افسران کے ساتھ شیئر کیں۔
تاہم نیب افسران کے رویے سے عیاں تھا کہ انہیں درخواست گزار کے موقف یا دستاویزات کیساتھ کوئی دلچسپی نہیں ،اور انہوں نے واضح الفاظ میں کسی بھی قسم کا سوالنامہ دینے سے انکار کردیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی درخواست گزار کی جانب سے طلبی کے نوٹس کے جواب میں تیار کیا گیا تحریری جواب اپنے پاس رکھ لیا،جس پر درخواست گزار نے ان کی موجودگی میں ہی دستخط کئے تھے۔
11مارچ کو درخواست گزار کو ڈپٹی ڈائریکٹرکمپلینٹ ویری فکیشن سیل نرمل حسنی کی جانب سے 12مارچ سہ پہر 3بجے کیلئے نیب آفس میں طلبی کا ایک اورنوٹس موصول ہوا ،درخواست گزار کے مطابق طلبی کا یہ نوٹس بھی شکایت کی تصدیق کے عمل کے لئے ہی موصو ل ہوا ،جس کی نیب کے قانون میں کوئی گنجائش ہی نہیں۔
اس نوٹس میں درخواست گزار کو بھجوائے جانے والے پچھلے طلبی کے نوٹس اور درخواست گزار کی جانب سے نیب کے آفس میں پیش ہونے اور اپنا تحریری جواب داخل کروانے کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا ،تاہم اس کیساتھ ایک سوالنامہ لف تھا اور درخواست گزار کو ان سوالوں کے مفصل جوابات داخل کرنے کی ہدایت تھی۔
درخواست گزار کے مطابق انہیں روز اول سے ہی اندازہ تھا کہ 34سال قبل اراضی کا معاملہ جس میں ایل ڈی اے یا کسی اور مجاز اتھارٹی یا سابق مالکان اراضی کو کوئی مسئلہ ہی نہیں، کو نیب کی جانب سے اٹھانا خلاف قانون ہے اورانہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ انہوں نے اس معاملے میں کوئی غلط کام نہیں کیا ہے لیکن اس کے باوجود نیب کے نوٹس پر اپنی پوزیشن واضح کرنے کیلئے نیب آفس میں پیش ہوئے، خواجہ حارث احمد ایڈوکیٹ ، امجد پرویز ایڈوکیٹ اور فیصل صدیقی ایڈوکیٹ درخواست کی پیروی کریں گے۔
درخواست گزار کے مطابق کسی بھی کیس کے حقائق کو اس طریقے سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے جس طرح درخواست گزار کیخلاف 34سالہ پرانے معاملہ میں چیئرمین نیب نے بدنیتی سے اسلام آباد میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے اور نیب لاہور کے اہلکاروں نے لاہورمیں درخواست گزار کو گرفتار کرکے بدنیتی ظاہر کی۔
درخواست گزار کے مطابق 12مارچ کو بھی یہ معاملہ شکایت کی تصدیق کی حد تک چل رہا تھا اور انہیں سوالنامہ کے جوابات داخل کرنے کیلئے طلبی کا نوٹس جاری کیا گیا تھا ، سوئم اسی روز ہی انکوائری کے احکاات بھی جاری کردیے گئے تھے۔
گرفتاری کے گرائونڈز کے مطابق بھی اس روز تک کسی قسم کا کوئی ثبوت اکٹھا نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی کسی گواہ کا کوئی بیان قلمبند کیا گیا تھا، 12مارچ کی دوپہر تک سارامعاملہ شکایت کی تصدیق کی حد تک ہی تھا جبکہ اسی روز ہی انکوائری کی اجازت بھی دے دی گئی تھی۔
درخواست گزار کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ نے ریکارڈ ، حقائق اور مسول علیان کی بدنیتی اور جھوٹے مقاصد کا جائزہ لئے بغیر ہی ان کی رٹ پٹیشن اور ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست خارج کردی ،جو مسول علیان کے رویے سے عیاں تھے ،درخواست گزار نے سوال اٹھایا ہےکہ جرم ثابت ہونے تک ملزم کو معصوم تصور کیا جاتا ہے، اور ان کی گرفتاری اور مسلسل قیداس نظریہ کی نفی اور بغیر ٹرائل کے ہی ملزم کو سزا دینے کے مترادف ہے۔
کیا یہ اقدام آئین کے آرٹیکل 9،10اے ،14،15اور 25سے متصادم نہیں ؟کیا یہ ایک ملزم کے ساتھ آئین کے آ رٹیکل 4کے تحت مساوی سلوک کرنے کے اصول کی خلاف ورزی نہیں ؟کیا 4کنال12مرلے اراضی کی موجودہ مارکیٹ ویلیو143,530,000 کی ایل ڈی اے کو عدم ادائیگی کی بنا پر قانونی ضابطے پورے کئے بغیر درخواست گزار کیخلاف نیب آ رڈیننس کی کسی بھی دفعہ کے تحت ریفرنس قائم کیا جاسکتا ہے ؟
حالاں کہ ایل ڈی کی اس وقت کی ڈیمانڈ کے مطابق درخواست گزار زمین کی رقم کی مکمل ادائیگی کرچکا تھا جبکہ نیب بدنیتی کیساتھ اراضی کی قیمت موجودہ مارکیٹ کے حساب سے لگارہا ہے ، درخواست گزار نے مذکورہ زمین 1986میں حاصل کی تھی ، یہ بھی سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیادرخواست گزار کی گرفتاری اور قید میں رکھنے کا عمل روز اول سے ہی غیر قانونی اور آئین کے آرٹیکل 9،10اے ،14،15اور 25سے متصادم نہیں ؟
درخواست گزار نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا ایل ڈی اے کو عدم ادائیگی کی پاداش میں لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے ان کی ضمانت کی درخواست کو مسترد کرنا اور نیب کی جانب سے انہیں کسی مجاز عدالت کے فیصلے کے بغیر ہی مسلسل قید میں رکھنا آئین کے آرٹیکل 10اے کے تحت’’ ڈیو پراسس‘‘ کے اصول کی پامالی نہیں ؟
درخواست گزار نے بیان کیا ہے کہ وہ نیند نہ آنے کی بیماری ، سانس کا اکھڑنا، گردوں میں غدود ہونا، مثانے میں گلٹیاں بننا اور ذہنی اضطراب جیسے امراض کا شکار ہیں، ان کی تازہ ترین میڈیکل رپورٹوں کے مطابق ان کے گردوں میں بھی تکلیف ہے اور پیشاب میں خون آتا ہے ،جبکہ جوڈیشل قید کے دوران ان کے چیک اپ کے بعد ڈاکٹروں نے انہیں ٹیومر/کینسر ہونے کے خدشے کا بھی اظہار کیا ہے۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ انہیں مسلسل قید میں رکھا ہوا ہے جبکہ اسی دوران ان کا ایک بھائی اور ایک بہن بھی کینسر کی وجہ سے وفات پاگئے ہیں، انہوں نے مزید بیان کیا ہے کہ انکے والدین سمیت خاندان کے 9ممبران میں سے 6کو کینسر تھا، اس لئے انہیں گھر میں رہ کر ڈاکٹروں کی مسلسل نگرانی کی ضرورت ہے ،اور بہتر ماحول میں ڈاکٹروں سے علاج معالجہ کروانے کیلئے ان کی رہائی نہایت ضروری ہے، ان کی مسلسل قید سے ان کے ا مراض میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے ،جوکہ ان کی بیماریوں کو مزیدمہلک کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ وہ پچھلے 6ماہ سے مسلسل قید میں ہیں،جس سے انکی بیماریوں میں شدت پیداہو رہی ہے ،اور ان کی صحت کی حالت دن بدن بگڑ رہی ہے ،اور وہ اپنی 94سالہ والدہ کی خدمت کرنے سے بھی محروم ہیں،جو حال ہی میں اپنے دو بچے (بیٹا اور بیٹی )کھو چکی ہیں،ان کی ضمانت بعد از گرفتاری کا مقدمہ انتہائی مشکلات (ہارڈ شپ) کے زمرہ میں آتا ہے ،اور ان کی ضمانت پر رہائی نہایت ضروری ہے۔
درخواست گزار نے فاضل عدالت سے ’’ پٹیشن فار لیوو ٹو اپیل‘‘ کو اپیل میں تبدیل کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے انکی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست خارج کرنے کے 8جولائی 2020کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے اور انہیں ضمانت دیتے ہوئے رہا کرنے کا حکم جاری کرنے کی استدعا کی ہے۔
درخواست میں یہ بھی کہاگیاکہ ہم میر شکیل الرحمٰن کے اہلخانہ اور روزنامہ جنگ و دی نیوز کے مالکان میں سے ایک ہیں ، ان دو روزناموں میں شائع ہونے والی خبریں گزشتہ 4مہینوں میں ممتاز شخصیات کو شدید ناراض کر چکی ہیں، حکومت شکیل الرحمٰن کے اہل خانہ کی ملکیت میں آنے والے اخبارات کی آزادی صحافت کو روکنے کے لئے طرح طرح کے دباؤ کے حربے استعمال کرچکی ہے،یہ واضح ہے کہ نیب کا یہ نوٹس بھی ناجائز دباؤ ڈالنے اور میر شکیل الرحمن کو ڈرانے کی ناکام کارروائی ہے۔
درخواست میں کہاگیا کہ میر شکیل الرحمان کی گرفتاری نہ صرف جنگ اور جیو بلکہ دیگر میڈیا اداروں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش ہے جس میں نیب کسی حد تک کامیاب رہا ہے،نیب کی اس کارروائی کا مقصد عوام تک حقائق کو پہنچانے سے روکنا بھی ہے۔
یاد رہے کہ جسٹس سردار احمد نعیم اور جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل لاہور ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ نے 8جولائی 2020 کو درخواست گزار میر شکیل الرحمان کیخلاف جائیداد کے تبادلہ کے 34سال پرانے معاملہ میں دائر کئے گئے نیب کے ریفرنس میں انکی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست خارج کی تھی۔