واشنگٹن :دیمتری سیواستوپولو اور آئم ولیمز
جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ریپبلکن کنونشن کے بعد صدارتی دوڑ کے آخری مرحلے کے لئے تیار ہیں، ان کی 2016 کی صدارتی مہم کے برعکس وہ اب چین کے ساتھ امریکی تجارتی خسارے کے حوالے سے خاموش ہیں۔
ڈونلڈٹرمپ نے کنونشن کے دوران سنکیانگ میں ایغور کے خلاف کورونا وائرس سے متعلق اپنی انسانی ذمہ داری سے لے کر انسانی حقوق کی پامالیوں تک ہر معاملے پر چین پر تنقید کی۔ تاہم نومبر کے صدارتی انتخابات قریب آتے ہی امریکی صدر نےتجارت کے حوالے سےواضح طور پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔
2016 کی صدارتی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے ساتھ تجارت پر زیادہ سختی اختیار کرنے کا وعدہ کیا تھا ، چین پر انہوں نے امریکہ کی’’عصمت دری‘‘کا الزام لگایا تھا۔ چین کے ساتھ تجارتی جنگ شروع کرنے کے بعد ، انہوںنے جنوری میں ایک محدود تجارتی معاہدہ کیا۔ لیکن یہ معاہدہ کافی کمزور نظر آرہا ہے اور تجارتی خسارہ میں اضافہ ثابت قدمی سے جاری ہے۔
2016 میں چین کے ساتھ مصنوعات میں امریکی تجارتی خسارہ 347 ارب ڈالر تھا جبکہ 2019 میں یہ معمولی طور پر کم ہوکر 345 ارب ڈالر ہوگیا۔
بروکنگس انسٹی ٹیوشن میں چین کے معاملات کے ماہر اور جوئے بائیڈن کی صدارتی مہم کے غیر رسمی مشیر ریان ہاس کاکہنا ہے کہ 2016 کی صدارتی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی ورکرز کے لئے بہتر تجارتی معاہدوں پر بات چیت کا وعدہ کیا تھا اور رائے دہندگان سے کہا کہ وہ خسارے کے حجم کوا سکور کارڈ کی طرح استعمال کریں ۔
ریان ہاس نے مزید کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تجارت کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے اور اب وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ میڈیا اس پر بحث کرے۔امریکیوںکو انہی شعبوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جن کے بارے میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ ان کی مشکلات حل کریں گے۔
وائٹ ہاؤس کے تجارتی مشیر پیٹر نیارو نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی برآمدات پر جو ٹیرف عائد کیا اس سے ہماری مصنوعات پر تجارتی خسارے کو نمایاں طور پر کم کرنے میں مدد ملی، اور یہ کہ وائٹ ہاؤس چین کی اقتصادی جارحیت کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھے گا۔
پیٹر نیارو نے کہا کہ 2018 میں خسارہ 418 ارب ڈالر کی بلندی پر پہنچ گیا تھا،لیکن جیسے ہی صدر ٹرف نے ٹیرف عائد کرنا شروع کیا تو پھر 2019 میں خسارہ 18 فیصد یا 74 ارب ڈالر کم ہوگیا۔انہوں نے مزید کہا کہ 2020 کے پہلے نصف حصے میں خسارہ گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 21 فیصد کم ہوا ،جو جزوی طور پر عالمی تجارت پر وبائی امراض کے اثرات کی وجہ سے تھا۔
انہوں نے ان حقائق پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا کہ2019کا خسارہ 2016 کے اعدادوشمار سے بمشکل ہی مختلف تھا۔
امریکی تجارتی نمائندے رابرٹ لائٹزر نے گذشتہ ہفتے اپنے چینی ہم منصب لیو ہی کے ساتھ فون کے بعد ایک تجارتی معاہدے کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد پر ایک پُر امید لہجے پر اتفاق کیا تھا۔
تاہم اس معاہدے میں خامیوں کے پہلو نمایاں ہورہے ہیں۔ آٹھ ماہ گزرنے کے بعد بھی چین معاہدے کے اہداف پورے نہیں کررہا ہے، جس نے کہا تھا کہ 2020ء سے دو سال کے دوران چین تجارتی جنگ کے ااغاز سے قبل 2017ء کے مقابلے میں امریکی مصنوعات اور خدمات میں 200 ارب ڈالر زیادہ کی خریداری کرے گا۔
پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی معاشیات کے مطابق پیش کردہ سال سے آج تک 7.100 ارب ڈالر کے ہدف کے مقابلے میں وعدوں کے تحت شامل چین کو امریکی مصنوعات کی برآمدات کی مالیت 5.48 ارب ڈالر ہے۔
پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ کے چاڈ باؤن نے کہا کہ مرحلہ ون معاہدے کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کے تحت امریکہ چین تجارتی تعلقات خراب ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وسیع تر ساختی امور سے نمٹنے کے لئے پیشرفت کا کوئی احساس نہیں ہے۔
اس ماہ کے آغاز میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ چین اپنے وعدوں سے بڑھ کرعمل کیا تھا ،ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن کے سینئر مشیر ٹونی بلنکن کی جانب اشارہ کرتے ہوئےان پر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا۔
ٹونی بلنکن نے کہا کہ چینی حکومت نے ہر موڑ پر صدر ٹرمپ کو مات دی ہے،اپنے سخت لہجے کو عملی کارروائی سے ہم آہنگ کرنے کی بجائے صدر ٹرمپ بار بار پیچھے ہٹ گئے۔
انتظامیہ کے کچھ عہدیدار چاہتے ہیں کہ ڈونلڈٹرمپ ٹیکنالوجی اور جاسوسی سے لے کر چین کی طرف سے ہانگ کانگ پر ایک قومی سلامتی کا ڈریکولاقانون نافذ کرنے تک ہر چیز پرایک بڑی پیمانے کی مہم کے حصہ کے طور پر تجارت پر چین کو نشانہ بنائیں۔
ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ میں تجارت کے سابق اعلیٰ عہدیدار ، وینڈی کٹلر نے کہا کہ رابرٹ لائٹیزروائٹ ہاؤس میں اس معاہدے کو چیلنج کرنے والے ہر جارحانہ منفی رویے والےاور کیا ہمیں اس معاہدے میں رہنا چاہئے بالخصوص نومبر کے آخر تک، یہ سوال کرنے والے ہر شخص کو پیچھے دھکیل دیناچاہتے ہیں۔
جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ غیرتجارتی معاملات پر چین کے حوالے سے زیادہ تحکمانہ بن گئے ہیں،وہ افزوں انداز میں دعویٰ کررہے ہیں کہ جو بائیڈن اتنے کمزور صدر ہوں گے کہ چین ہمارے ملک کا مالک ہوگا۔ابھی تک انہوں نے تحریری ثبوت چھوڑے ہیں، جس سے ان کی دلیل کو نقصان پہنچ سکتا ہے، جس میںوبائی مرض کے ابتدائی دنوں میں کووڈ 19 سے نمٹنے کے لے چینی صدر شی جنگ پنگ کی تعریف بھی شامل ہے ۔
امریکی انتظامیہ انسٹی ٹیوٹ میں فارن پالیسی اسٹیڈیز کی سربراہ بش انتظامیہ کی سابق عہدیدار کوری شاکے نے کہا کہ اگر میں جو بائیڈن کی مہم کا حصہ ہوتا تو چینی صدر شی جنگ پنگ کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے تمام بیانات کے ساتھ ان کے دعوؤں کو غلط ثابت کروں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان الزامات پر اصرار کرنا کافی مشکل ہوگا کہ جو بائیڈن بے مثال برے ہوں گے، کیونکہ چین کے برے رویے پر مشتمل مضبوط اور مستقل پالیسی کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ خود سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
چین کے معاملات کیلئے وائٹ ہاؤس کے سابق مشیر پول ہینلے نے کہا کہ انتظامیہ میں موجود چین کے معاملات پر عقابی نظر رکھنے والے وبائی مرض نے جب سے امریکا کو متاثر کیا ہے ڈونلڈ ٹرمپ کے پیدا کردہ اجازت دینے والے ماحول کا فائدہ اٹھارہے ہیں۔
کارنیگی سنگھوا سینٹر برائے گلوبل پالیسی کے سربراہ پال ہینل نے کہا کہ انہوں نے چین کے ساتھ موجود مسائل کو نمایاں کیا۔انہوں نے مسائل حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ میں یہ نہیں بتاسکتا کہ ان کےمقاصد کیا ہیں۔ یہ ایک رویے سے بڑھ کر اور پالیسی سے کم ہے۔یہ جذبات سے کچھ زیادہ ہے۔امریکی قومی سلامتی کے لئے اس طرح کی پالیسی اختیار کرنا بہتر نہیں ہے۔
انتظامیہ کچھ کامیابیوں کو اجاگر کرنے میں تیزی لائی ہے، جس میں برطانیہ اور دیگر اتحادیوں کو ہواوے کا سازوسامان استعمال نہ کرنے پر رضامند کرنا شامل ہے، چینی ٹیلی کام کمپنی جس کے بارے میں امریکا کا کہنا ہے کہ چین کو جاسوسی میں اس سے مدد ملتی ہے۔
امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی مفاد پرست جارحیت کا پردہ فاش کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے مضحکہ خیز غیرمنصفانہ تجارت کے معاہدے ختم کردیے ہیں۔
اس وقت تک ڈونلڈ ٹرمپ کو امید ہے کہ چین پر حملے کرنا اور ان کی ٹیم میں ہاکس کو مزید چھوٹ کی اجازت دینے سے نومبر میں جو بائیڈن کو شکست دینے میں معاون ہوگا۔کچھ آثار پائے جاتے ہیں کہ امریکی عوام کو مزید قائل کرنے کی ضرورت ہوسکتی ہے۔حالیہ ایک گیلپ سروے سے پتا چلا ہے کہ 57 فیسد جواب دہندگان نے ڈونلڈ ٹرمپ کے چین کے ساتھ تعلقات کے نمٹنے کے طریقہ کار کو ناپسند کیا۔