• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس کی زمیں بے حدود، اس کا اُفق بے ثغور(قسط نمبر 5)

آج صبح سے خوشی سنبھالی نہیں جارہی تھی۔ ہر شے سہانی، دل فریب لگ رہی تھی۔ ہمارے ہاتھ الحمرا کے ٹکٹ نہیں، گویا ہفت اقلیم کی بادشاہت آگئی تھی۔ ناشتے میں لُطف، بات چیت میں شگفتگی تھی۔ چہرے بات، بے بات ہنسی کی پھوار میں بھیگنے لگتے۔ بے شک، ہمارا قیام ایک دن اور بڑھ گیا تھا۔ مسٹر سیلوا ڈور اور نکولس دونوں بڑے مہربان ہوگئے تھے۔ ہمارے کمرے کسی اور کے نام سے کل کے لیے بُک تھے، مگر انہوں نے ہمیں ڈسٹرب نہیں کیا۔ 

مہرالنساء نے ٹیکسی لینے کا کہا۔’’ارے نہیں بھئی، آج تو مزے لوٹنے ہیں۔ ’’ہوپ آن ہوپ آف‘‘ پر چڑھنا ہے۔ جگہ جگہ اُترنا،وہاں کچھ وقت گزارنا اور پھر چڑھنا ہے۔ آج موج میلہ کرنا ہے۔ خُوب صُورت اور دل فریب جگہوں کو آنکھوں میں بسانا ہے۔ اپنی چاہت کی کہانی سنانی ہے۔‘‘سیما میری ایسی حرکتوں سے بہت عاجز رہتی تھی۔’’چلو یار،اگر ٹرین نہیں ملی توجہاں دیکھیں گے، ٹیکسی پکڑ لیں گے۔‘‘اب آہنی سنگلوں سے جُڑے تین ڈبّوں والی ٹرین کہاں سے ملے گی؟ ٹکٹ کہاں سے لینا ہے؟ کچھ معلوم نہ تھا۔ 

ایک، دو سے پوچھا، جواب ملا۔’’ چلتی جائیے نیو اسکوائرتک۔‘‘ پس، گلی جہاں ختم اور بڑی شاہ راہ شروع ہوتی تھی، وہیں کونے میں اسٹال لگائے ایک خاتون ٹکٹ کاٹ رہی تھی۔ ’’آٹھ یورو۔‘‘ اُس نے کہا۔ اور جب ہم سکّے نکال کے گننے لگے، تو اُس نے ہمیں غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا، ’’آپ لوگ ساٹھ سے اوپر کی ہیں؟‘‘ مَیں ہنسی ’’ہم تو ستّر سے بھی اوپر کے ہیں۔‘‘ ’’تو چار یورو دیجیے۔‘‘’’لو بھئی، چار یورو کی بچت، ہے ناں خوشی کی بات۔‘‘ ہم نے چہکتے ہوئے کہا۔

بتائے گئے بس اسٹاپ پر کھڑے ہوئے ابھی پانچ منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے کہ ہماری شاہی سواری گھنٹیاں بجاتی، مست خرامی سے ہمارے پاس آکھڑی ہوئی۔ٹرین میں بیٹھتے ہی ہم نے ندیدوں کی طرح دائیں بائیں دیکھتے ہوئے آنکھوں کو اُن خُوب صُورت مناظر کو جذب کرنے کا حکم سُنایا۔ ’’واہ بھئی واہ، مزے آگئے۔‘‘ ٹھنڈی ٹھار ہوائوں کا ریلا چہرے سے ٹکرایا۔ پلازا نیوا کی تعمیردراصل غرناطہ کے سقوط کے بعد ہوئی تھی۔ اِس کا موجود ہ پھیلائو کوئی انیسویں صدی میں ہوا۔ دریائے دارو( Darro)کے پُل نے توجّہ کھینچی۔ بہت سے پُرانے پُل بھی دیکھنے کو ملے۔ بہرحال، تنگ گلیوں، سڑکوں، بلند و بالا جگہوں سے گزرتی بازاروں سے ہوتی اور کہیں خاموش سنّاٹے میں ڈوبے دائیں، بائیں بلند و بالا درختوں کے سایوں میں اونچی نیچی پہاڑیوں سے گزرتی ہماری ٹم ٹم کرتی ٹرین اُس معشوق دل رُبا کے سامنے جا رُکی۔ 

تو گویا ہم اب ایک ایسی دنیا میں داخل ہونے جارہے تھے، جو ہسپانوی تاریخ کا دل ہے۔ جو مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی کہانی ہے۔ جس کے در و دیوار میں محلّاتی سازشوں کی کہانیاں دفن ہیں اور جسے دیکھنے کے لیے ہم کیا، پوری دنیا پاگل ہوئی جاتی ہے۔ عین دو بجے ہم اُس ہجوم کا حصّہ بن گئے، جو جانے کن کن دنیائوں سے اِسے دیکھنے آیا تھا۔ اسی سیلِ رواں میں شامل آگے بڑھے۔ پہلے گیٹ پر اسکینر مشین سے ٹکٹ چیک کیے گئے۔ کشادہ سڑک پر دو رویہ بلندوبالا چنار اور شاہ بلوط جھومتے تھے۔ آسمان نیلا اور سورج چمکتا تھا۔ فرش پتھریلا سا تھا۔ 

اس کی زمیں بے حدود، اس کا اُفق بے ثغور(قسط نمبر 5)
دریائے دارو کا ایک منظر

اب کہنے کو تو اِس ارضی جنّت سے وہ نکالے گئے، جنہوں نے صدیوں یہاں راج کیا۔ اِسے بنایا، سنوارا، سجایا، چار چاند لگائے۔ یہ چار چاند گو آج گہنا ضرور گئے ہیں، پر ڈیڑھ صدی قبل کے حکمرانوں اور لوگوں نے جان لیا کہ موروں کی اِن یادگاروں کی حفاظت ضروری ہے کہ یہ کمائی کا بہترین ذریعہ بھی ہیں۔قلعے کی دیوار اور برج ساتھ ساتھ چلتے تھے۔ آگے بڑھے، تو دو رویہ سرو کے درختوں کی قطاریں اِستادہ تھیں۔ تراش خراش کر انہیں ایسا جمالیاتی حُسن دیا گیا تھا کہ بے اختیار رُک کر دیکھنے پر مجبور ہوگئے۔ درمیان میں موگھے بنے تھے۔آگے پھر ایک گیٹ اور دربان سے ٹکرائو۔ٹکٹ کی چیکنگ بڑے محتاط انداز میں ہوئی ۔یہاں ایک میدان سا تھا، جہاں سے تین سمتوں میں راستے نکلتے تھے ۔الحمرا میں تین چیزیں دیکھنے والی ہیں۔ 

محلّات، قلعے اور باغات۔ ہمارے پاس چوں کہ ٹکٹ صرف محلّات کا تھا، تو مجاز اُسی کو دیکھنے کے تھے۔ یہاں سے بائیں جانب مڑ کر ذرا آگے بڑھے، تو دو عمارتوں نے متوجّہ کیا۔ دونوں بڑی شان دار تھیں۔ ایک مستطیل نما، جو بڑے بڑے بلاکوں سےتعمیر کی گئی تھی۔ شہنشاہ چارلوس پنجم کا محل جس کی تعمیر میں الحمرا کے کچھ حصّے گرا کر شامل کیے گئے تھے۔ اِسے دیکھنے کے ہم مجاز نہ تھے کہ ہمارے پاس اس کا ٹکٹ نہیں تھا، مگر تصویریں بنوانے پر تو کوئی پابندی نہیں تھی۔ کارلوس پنجم کے محل کے مرکزی دروازے کے سامنے بیٹھ کرپوز بنائے اور یہ امر یقینی بنایا کہ ثبوت پکّا ہو۔ وہیں آسٹریا کے ایک ہنس مکھ جوڑے سے ملاقات ہوئی، جنہوں نے ہمیں محل کے اندر کی ساری ویڈیو فلم دکھادی۔ جاتے جاتے محل سے متعلق کچھ باتیں بھی بتاتے گئے کہ کارلوس، فرنینڈڈ کا پوتا تھا، جس نے الحمرا محل کے کچھ حصّے مسمارکرکے یہ محل تعمیر کیا۔

تصویروں نے ذرا متاثر نہیں کیا تھا، لگتا تھا کہ جیسے کوئی رومن اکھاڑہ ہو۔ اِس کی بدنمائی کا مزید احساس ہمیں منظور الٰہی شیخ اور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی کتابیں پڑھنے سے بھی ہوا۔ واشنگٹن ارونگ نے تو اس پر ٹھپّہ ہی لگادیا کہ عربوں کے لیے اس کے دل میں بڑا تعصّب اور کھوٹ تھا۔ ظاہر ہے، جب نیّت صاف نہ ہو، تو کام میں حُسن نہیں آتا۔ یہی اِس محل کے ساتھ ہوا۔ ایڑی چوٹی کا زور تو لگا۔ جو کام نہیں کرنا چاہیے تھا، وہ بھی کیا، مگر ’’وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔‘‘ تاہم، یہ بات بڑی مصدّقہ تھی کہ الحمرا اور غرناطہ پر قابض ہوجانے کے بعد بھی عیسائی بادشاہ ایک عرصے تک خوف کی سی کیفیت میں رہے۔ اُنہیں لگتا تھا، جیسے مور کہیں چُھپے بیٹھے ہیں۔ رات کو سوگئے تو بس دندناتے ہوئے ایک دن اچانک ہلّہ بول دیں گے۔ ایک مدّت تک وہ یہاں سوئے نہیں۔ واشنگٹن ارونگ کی ’’The Tales of Alhamra‘‘ میں ان کے یہ توہمّات زیادہ کھل کر بیان کیے گئے ہیں۔

دھوپ اپنے جوبن پرتھی اور خستہ حال سے درودیوار کا مختصر سا سلسلہ سامنے کی جانب ایک کشادہ میدان کے پس منظر میں استادہ تھا۔کولڈ ڈرنکس کی شاپ سے پتا چلا کہ محلّات کا سلسلہ ہمارے عقب میں ہے اور سامنے چھوٹے سے سیکوریٹی گیٹ کے باہر کھڑے لوگوں کا تانتا دراصل پرانا قلعہ دیکھنے کے لیے لگاہے۔ دو بجے کا وقت تھا۔ لمبی لائن لگ چکی تھی۔ ہائے لائن میں لگنا کتنا مشکل تھا۔ بیریئر اسٹینڈز کے سامنے کھڑے سیکیوریٹی گارڈز کی تھوڑی سی منّت کرنے پر لائن توڑ کر وہاں بیٹھنے کی اجازت مل گئی۔ کیا منظر تھا، نیچے ڈھلوانی پہاڑیوں پر سفید گھر چمکتی دھوپ میں جگمگارہے تھے۔ جس دیوار پر بیٹھے تھے، اس کی گہرائی خوف زدہ کرتی تھی۔ گہرائی اور کائی زدہ خستگی کم و بیش ایک جیسی ہی تھی۔ 

ایک اُدھیڑ عمر مرد بیریئر اسٹینڈ ایک طرف کھسکاتے ہوئے ہمارے پاس آکر بیٹھ گیا۔ پتا چلا کہ انور محمودنامی یہ پاکستانی نژاد، برطانوی شہری ہے۔بڑا جلا بُھنا تھا، گزشتہ سال الحمرا دیکھنے آیا تھا۔ ٹکٹ بھی پاس تھا۔ جمعے کی نماز پڑھنے مرکزی مسجد چلا گیا، واپسی میں بس پندرہ منٹ لیٹ ہوگیا، تو نگرانوں نے داخل ہونے نہیں دیا۔ بس نامراد لوٹ گیا۔ سو،اِس سال پھر آیاتھا۔ اِس الَم ناک داستان نے ہمیں ایک بار پھر اللہ کے حضور شُکریہ ادا کرنے کی ترغیب دی۔ احسان ہی تھا ناں اُس کا کہ یہاں بیٹھے تھے۔پھر یکے بعد دیگرے بہت سے گورے گوریاں بھی وہاں آکے بیٹھ گئے۔ دھوپ کی تیزی نے سوئیٹرز، جیکٹس بھی اُتروانا شروع کردی تھیں۔ 

نظارہ دل موہ لینے والا تھا۔ دفعتاً ایک نوعمر جوڑا ہنستا کھیلتا، چہلیں کرتا آیا اور قریب آتے ہی لڑکی نے ’’السلامُ علیکم‘‘ کہہ کرحیران کردیا۔ یہ جوڑا بھی لندن سے آیا تھا۔ نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ ہنی مون پر نکلے ہوئے تھے۔ مَیں نے ایک بار پھر ماحول کا جائزہ لیا اور یادوں میں کھوگئی۔ ’’غرناطہ کی تاریخ کا تو سنسنی اور ہیجان خیزی میں جواب نہیں۔ قدم قدم پر سانس روکتی ہے۔ سازشوں اور سازشی کرداروں، دھوکے، فریب اور پیارو محبت کی جھوٹی سچّی کہانیوں سے لبالب بھری ہوئی۔ 

یہ غرناطہ، صدیوں پرانا شہرکوئی پانچ ہزار سے بھی قبل کے زمانے کا ہے، جہاں آئبیرین دور کےپرانے کھنڈرات بھی کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔ اِسے تب غرناطہ ال جہد کہا جاتا تھا۔اسی سے بعدازاں Granada بنا، جس کا ہسپانوی زبان میں مطلب ’’انار‘‘ ہے اور حقیقتاً یہ انار ہی کی طرح ہے۔اپنے کلچر اور ثقافت کی مٹھاس اور تاریخ کی تُرشی لیے ہوئے۔ تاریخ اگر غرناطہ کے محمد بن الاحمر کو اس کی تمام تر دلیری اور شجاعت کی داد دیتی ہے، تو وہیں اُسے سقوط اشبیلیہ کا کچھ ذمّے دار بھی ٹھہراتی ہے۔ کون تھا یہ محمد بن الاحمر؟ 

قرطبہ کے ایک علاقے کا قلعہ دار، مگر ذہین، باشعور، بہادر اور جی دار۔ وہ جان گیا تھا کہ شکست اور تباہی قرطبہ کے مسلمانوں کا مقدر ہوچکی ہے۔ اندر ہی اندر ایک مضبوط فوج کی تیاری اور پھر غرناطہ پر قبضہ اس کی ترجیح بنا۔ اُسی نے بنی نصر خاندان کی بنیاد رکھی تھی۔قرطبہ کا زوال لگ بھگ کوئی 1236ء میں ہوا اور اشبیلیہ کا پورے بارہ سال بعد ۔ تواب جائے پناہ کہاں تھی اِن بدقسمت مسلمانوں کے لیے۔لے دے کے غرناطہ رہ گیا تھا، تو اُسی کی جانب بھاگے۔ اُندلیسہ کے اِسی بچے کُچھے ٹکڑے کو محمد بن الاحمر نے اپنی جائے عافیت جان کر اپنی ساری توانائیاں اس کی تعمیر و ترقی میں لگادیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ قرون ِوسطیٰ کے یورپ کا امیر ترین اور خُوب صُورت شہر بن گیا۔

غرناطہ کے معماروں اور ہنر مندوں کا چرچا اسپین ہی میں نہیں، پورے یورپ میں تھا۔ اُن کے محلّات،باغات،عمارتوں ،بازاروں کا کوئی جواب نہ تھا۔کیا سائنس، کیا ادب،کیا آرٹ، کیا موسیقی سبھوں کو شہر نے نئے رنگ، نئے انداز دئیے اوریورپ میں اپنا مقام بنایا۔یہی وہ لوگ تھے، جنہوں نے آرٹ کی فن کاریوں سے سجا الحمرا بنایا۔نام کے بارے بھی چند روایات ہیں۔یہاں کی مٹی سُرخ تھی، جس میں لوہے کے ذرّات شامل تھے۔ بنانے والے کے نام کے ساتھ بھی الاحمر کا سابقہ لگا ہوا تھا۔تو جب شہر، ملک اور ریاستیں اپنی معراج کو پہنچ جائیں، تو پھر زوال بھی امرِربّی ہے کہ کائناتی نظام کی بنیاد اسی حقیقت پر ہے کہ’’ ہر عروج کو زوال ہے۔‘‘ محلّاتی سازشیں شروع ہوگئیں۔ وراثت کے جھگڑوں، جتھہ بندیوں،امراء وزرا کے مفادات،معاشیات کی بربادی اور بغاوتوں نے عیسائی فوجوں کو دعوت دی۔ 

ایک گروہ امیر ابوالحسن اور اس کی رومن کیتھولک عیسائی بیوی ثریا کی حمایت میں سرگرم تھا۔ دوسرا گروہ ابو عبداللہ محمد، بیدل ابوالحسن کی دوسری مسلمان بیوی عائشہ کے بیٹے کی پشت پناہی کررہا تھا۔ عبداللہ کی بغاوت نے راہ ہم وار کردی۔ عیسائی فوجیں ایک کے بعد ایک قصبہ، گائوں فتح کرتی بالآخرالحمرا آپہنچیں۔ محاصرہ آٹھ ماہ جاری رہا۔ اب جھکنے اور بندوقیں رکھنے کے سوا کوئی چارہ تھا۔ یہ تو فاتح قوم کی مرضی ہے کہ وہ آپ کی درخواست منظور کرلے۔ تیس ہزار طلائی سکّوں کے عوض آپ، آپ کے اہل ِخانہ اور عزیزوں، دوستوں کوسلامتی سے جانے دے یا وہیں رہنے کی اجازت مرحمت فرمائے یا پھر کولھو میں پسوا دے۔ ایساہی ہوتا ہے۔مذہبی طور پر ایذارسانی کا سلسلہ تو جلد ہی شروع ہوگیا ۔ یہودیوں پر نزلہ فوراً گرا۔اُن کی دَربدری پورے اسپین سے جلد ہی ہوگئی۔ 

البتہ مسلمانوں پر قسطوں میں یہ عتاب نازل ہوا، مگر سترھویں صدی تک اُن کا بھی صفایا ہوگیا۔ البتہ وہ شہر، وہ ریاست ،جو تہذیب و ثقافت کا مرکز تھی، جس نے دنیا کو بہت کچھ دیا۔قابل،لائق اور ہنرمند افراد کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا، اُس نے غرناطہ کو تاریکیوں میں دھکیل دیا۔ایک طویل عرصے اِس کیفیت میں رہنے کے بعد شہر نے انگڑائی لی۔ اس کے صاحبان ِاقتدار نے محسوس کیا کہ ثقافتی و روحانی طور پر اسے زندہ کرنے کی ضرورت ہے کہ سیّاحوں کی اِن علاقوں میں کثرت سے آمد اور دل چسپی مُلک کے لیے بے حد سودمند ثابت ہوسکتی ہے۔ پھر اس کے توانا اسلامی تہذیبی وَرثے نے اسٹیج سیٹ کرنے کا اہتمام کردیا تھا، مگر شہر نے ایک اور آفت کا بھی سامنا کیا، جب نیشنلسٹس نے شہر پر قبضہ کرلیا اور خانہ جنگی شروع ہوگئی ،لگ بھگ 4000 ہزار افراد مارے گئے اور اُن ہی مرنے والوں میں اسپین کا شاعر(Garcia Lorca) گارشیالورکا بھی شامل تھا۔‘‘ (جاری ہے)

تازہ ترین