اردو ادب کی بعض شخصیات ایسی ہیں ، جنہوں نے فلم کے بعض اہم شعبوں بالخصوص گیت نگاری، کہانی اور مکالمہ نویسی میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ملکی و غیر ملکی ادبی حلقوں میں امجد اسلام امجد کی شہرت و مقبولیت ہمشہ رہی ہے۔ گزشتہ صدی کی دہائی ساٹھ ستر اور اسی میں پاکستان ٹیلی ویژن کے حوالے سے تو ان کا نام انتہائی معتبر اور مستند رہا ہے اور حکومتی سطح پر بھی ان کی علمی، ادبی خدمتا کو ہمیشہ سراہا جاتا رہا ہے اور آج بھی وہ شعر و سخن سے وابستہ ہیں۔ان کا تحریر کردہ ڈراما سیریل ’’وارث‘‘، ’’دہلیز‘‘، ’’سمندر‘‘ اور ’’وقت‘‘ نے انہیں عظیم المرتبت ڈرامہ نگار ثابت کیا۔ ہنس مکھ، خوش طبع، خوش خیال اور خوش بیان امجد اسلام امجد عمدہ لکھتے ہیں۔
امجداسلام امجد کی پاکستانی فلم کے لیے بھی قابل تحسین خدمات ہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں سب سے پہلے بہ طور گیت نگار سامنے آئے اور پہلا گیت ہدایت کار ریاض ملک کی فلم ’’خاندان‘‘ کے لیے لکھا، جو 28؍ مارچ 1980ء کو ریلیز ہوئی۔ کراچی میں اس کا مین سنیما ’’گوڈین‘‘ تھا اور پورے 25؍ ہفتے زیر نمائش رہ کر سلور جوبلی منائی۔ امجد اسلام امجد کے لکھے گیت کے بول یہ ہیں ’’کہتی ہے یہ شام دیوانے ہوجائیں‘‘ اسے مہناز نے موسیقار خلیل احمد کی موسیقی میں بڑے رچائو سے گایا۔ ’’خاندان‘‘ کی کہانی ’’ابرار امجدی‘‘ نے لکھی اور کاسٹ میں راحت کاظمی، نجمہ، عشرت چوہدری، بدرمنیر، مسعود اختر، تمنا، ننھا، کمال ایرانی، منور سعید شامل ہیں۔ ’’خاندان‘‘ کے بعد امجد اسلام امجد نے فلم ’’جعلی ویزا‘‘ کے لیے یہ دو گیت لکھے، جن کی دھنیں خلیل احمد نے ترتیب دیں اور ملکہ ترنم نورجہاں نے اپنی آواز سے سجایا۔’’چاندنی بن گئی ہے دھواں‘‘’’حسن کا کچھ تو احترام کرو‘‘۔ فلم ساز بیگم ثروت جہاں، ہدایت کر عبدالرحمن وطنی اور کہانی نویس ساحر قدوائی کی ’’جعلی ویزا‘‘ تین جون 1983ء کو ریلیز ہوئی۔
کراچی میں ’’ریوالی‘‘ اس کا مین سنیما تھا اور مجموعی طور پر اس فلم نے 18؍ ہفتے مکمل کیے اور ناکامی سے دوچار ہوئی۔ کاسٹ میں سنگیتا، غلام محی الدین، نیلو، محمد قوی خان،روحی بانو، آغا طالش، ادیب، خالد سلیم موٹا، مینا دائود و دیگر شامل ہیں ’’جعلی ویزا‘‘ کا پہلےنام ’’گولڈن چانس‘‘ رکھا گیا تھا، لیکن مرکزی فلم سنسر بورڈ سرٹیفکیٹ کے تحت اسے ’’جعلی ویزا‘‘ کا نام دیا گیا۔ امجد اسلام امجد کے ایک دل کش کورس گیت سے مزین اگلی فلم ’’پلکوں کی چھائوں میں‘‘ ہے جو 27؍ اگست 1985ء عیدالاضحی پر نمائش پذیر ہوئی، کراچی میں اس کا مین سنیما ’’گوڈین‘‘ تھا۔ یہ فلم اس شہر میں مجموعی طور پر 38؍ ہفتے زیر نمائش رہ کر شان دار سلور جوبلی سے ہم کنار ہوئی، فلم ساز عطا بزدار اور خورشید اعجاز، ہدایت کار نذرالاسلام، کہانی نویس بشیر نیاز اور موسیقار خلیل احمد کی تفریح و رومانی فلم میں امجد اسلام امجد کا یہ کورس گیت ہے، جسے شوکت علی، اے نیر، مہناز اور نیرہ نور نے گایا۔ ’’بجھنے نہ دیں گے میرے یار ہم روشنی پیار کی‘‘۔ اس فلم کی کاسٹ میں فیصل الرحمن، بابرا شریف، ایاز نائیک، ثمینہ خالد، جمیل فخری، زمرد، بہروز سبزواری، ارسہ غزل، سیماں بیگم و دیگر شامل ہیں۔ ’’پلکوں کی چھائوں میں‘‘ کے بعد امجد اسلام امجد کی بہ طور گیت نگار اگلی فلم ’’نجات‘‘ ہے، جو 18؍ ستمبر 1987ء کو ریلیز ہوئی، اس فلم میں ان کے تحریر کردہ یہ چار گیت شامل ہیں، جن کی دھنیں کمال احمد نے بنائیں۔
’’تو میری آنکھیں تو میرا سپنا‘‘ (ناہید اختر)
’’میں تارا تارا جاگوں تیرے نام‘‘ (ناہید اختر)
’’امبر کی آنکھ میں بادل کا کاجل ہے ‘‘ (اے نیر، ناہید اختر)’’اس دنیا میں پیارے ہم سب یار‘‘ (مسعود رانا، ناہید اختر)۔ ’’نجات‘‘ کا کراچی میں مین سنیما ’’بمبینو‘‘ تھا، محض 21؍ ہفتے مجموعی طور پر اس نے مکمل کیے اور ناکامی سے دوچار ہوئی۔ اس فلم کی کاسٹ میں اظہار قاضی، سبیتا، غلام محی الدین، صاعقہ، نصراللہ بٹ، آغا طالش، افضال احمد وغیرہ شامل ہیں۔ فلم کے پروڈیوسر طارق مسعود قریشی، ہدایت کار حسن عسکری اور مصنف و مکالمہ نگار امجد اسلام امجد ہیں۔ ’’نجات‘‘ ہی غالباً امجد اسلام امجد کی بہ طور فلمی گیت نگار اب تک کی آخری فلم ہے۔ 22؍ مئی 1981ء کو پرویز ملکی کی زیر ہدایات بننے والی اصلاحی فلم ’’قربانی‘‘ ریلیز ہوئی، اس فلم نے مختلف شعبوں میں گیارہ نگار ایوارڈز حاصل کیے، جن میں امجد اسلام امجد کا بہترین مکالمہ نگار ایوارڈ بھی شامل ہے۔
کراچی کے سابقہ مرکزی سنیما ’’پلازہ‘‘ پر مسلسل 26؍ ہفتے اور مجموعی طور پر 102؍ ہفتے خاص و عام کی نگاہوں کا مرکزی بنی رہنے والی یہ ’’قربانی‘‘ ڈائمنڈ جوبلی سے سرفراز ہوئی۔ مسرور انور کی کہانی کے لیے امجد اسلام امجد کے رقم کردہ مکالمے ’’قربانی‘‘ کی جان ٹھہرے۔ مسرور انور کے تحریر کردہ گیتوں کی دھنیں ایم اشرف نے لاجواب بنائیں ’’قربانی‘‘ میں ندیم، شبنم، حنیف، نمو، اورنگزیب، خیام سرحدی، نجمہ محبوب، دیبا اور ننھے اداکار ماسٹر خرم کی کردار نگاری قابل دید و تحسین رہی۔ 29؍ مئی 1987ء کو عیدالفطر پر ہدایت کار اقبال کاشمیری کی دل چسپ تفریحی فلم ’’چوروں کی بارات‘‘ منظر عام پر آئی ، کراچی کے مرکزی سنیما ’’نشیمن‘‘ کے پردہ سیمیں پر ’’چوروں کی بارات‘‘ کا فقیدالمثال استقبال ہوا۔
امجد اسلام امجد کی تحریرکردہ کہانی اور مکالموں سے لیس یہ فلم کراچی سرکٹ میں 58؍ ہفتے زیر نمائش پذیر اور گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کرگئی۔ اس فلم کو کُل 7؍ نگار ایوارڈز ملے ، جن میں امجد اسلام امجد نے بہترین کہانی نویس اور بہترین مکالمہ نویس کے دو ایوارڈز حاصل کیے، اس فلم کی کاسٹ میں ندیم، نیلی، شیوا، ششماشاہی، جہاں زیب، عابد کشمیری، نغمہ بیگم، گرج بابو، منور سعید، عرفان کھوسٹ، دلدار پرویز بھٹی وغیرہ شامل ہیں۔ اس فلم کے موسیقار وجاہت عطرے نے حبیب جالب کے نغمات کی عمدہ دھنیں بنائیں۔
امجد اسلام امجد کے مقبول ڈراما سیریل ’’وقت‘‘ سے ماخوذ فلم ’’نجات ‘‘ 18؍ ستمبر 1987ء کو نمائش کے لیے پیش کی گئی، اس کی کہانی اور مکالمے امجد اسلام امجد نے رقم کیے ہیں۔ 29؍ ستمبر 1995ءکو امجد اسلام امجد پھر دو شعبوں (کہانی و مکالمے) میں اپنی مہارت کے ساتھ آئے، ہدیات کار اقبال کاشمیری کی گولڈن جوبلی ہٹ فلم ’’جو ڈر گیا وہ مر گیا‘‘ میں ۔ یہ فلم کراچی کے سابقہ خُوب صورت معیاری سنیما گھر نشاط سمیت مضافات کے چودہ سنیما گھروں کی زینت بنی اور مجموعی طور پر 66؍ ہفتے زیر نمائش رہی۔
13؍ اگست 2004ء کو ہدایت کار شہزاد رفیق کی فلم ’’سلاخیں‘‘ ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے مکالمے امجد اسلام امجد نے تحریر کیے ۔ کراچی میں یہ فلم بھی ’’نشاط‘‘ پر لگی اور اس نے سلور جوبلی منائی۔ مذکورہ بالا اردو فلموں کے علاوہ امجد اسلام امجد نے ایک پنجابی فلم ’’حق مہر‘‘ کی بھی کہانی ناصر ادیب کے ہمراہ مشترکہ طور پر لکھی ہے۔ یہ فلم آٹھ نومبر 1985ء کو ریلیز ہوئی اور اس کے ہدایت کر افتخار خان ہے۔ امجد اسلام امجد نے بالی وڈ فلم ’’پاپ‘‘ کے لیے بھی گیت نگاری کی۔
اس فلم کے لیے استاد راحت فتح علی خان نے ان کا یہ گیت نہایت دل کشی کے ساتھ گایا ہے۔’’لاگی تم سے من کی لگن‘‘۔ ’’پاپ‘‘ کے علاوہ بالی وڈ فلم ’’صدیاں‘‘ میں بھی امجد اسلام امجد کا تحریر کردہ اک دو گانا عدنان سمیع خان اور سنیدھی چوہان نے گایا ہے۔
وہ علمی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں سرکاری سطح پر تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز حاصل کرچکے ہیں اور اب تک 40؍ سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں، جن میں نثر، شاعری سمیت دیگر موضوعات پر مبنی کتابیں بھی ہیں۔