• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیامِ پاکستان کے بعد جس طرح لاہور کی فلمی صنعت نے اُردو اور پنجابی فلموں کی پروڈکشن کا کام شروع کر دیا تھا۔ اسی طرح مشرقی پاکستان ڈھاکا میں بنگلہ زبان کی فلموں کا کام ہونے لگا تھا،جس تیزی سے لاہور اور بعدازاں کراچی کی فلم انڈسٹریز ترقی کی جانب گامزن تھیں، اسی انداز میں ڈھاکا کی فلم انڈسٹری بنگلہ زبان کی فلموں کے تناظر میں ارتقائی عمل سے گزر رہی تھی۔ تاہم فلم ساز نعمان تاثیر نے فیض احمد فیض، اے جے کاردار کی مشاورت سے مشرقی پاکستان کی سرزمین پر پہلی اردو فلم بنانے کا فیصلہ کیا، جس کے لیے تمام فن کاروں کا انتخاب بھی ڈھاکا ہی سے کیا گیا۔ماسوائے فلم کی ہیروئن تریپوتی مترا کے جوکہ بھارتی فلم انڈسٹری سے تعلق رکھتی تھیں۔ فلم کا نام’’جاگو ہوا سویرا‘‘ تھا۔ 

فلم کی کہانی بنگال کے ماہی گیروں کی آشفتہ حال زندگی کا احاطہ کرتی تھی۔ یہ کہانی بنگالی ناول نگار مانک بند ھو درمیانے کے ناول سے اخذ کی گئی تھی، جس کو فلمی قالب میں ڈھالا گیا، جب کہ مکالمات اور اسکرین پلے عظیم شاعر اور دان شور فیض احمد فیض نے تحریر کیے، نغمات بھی ان ہی کے زور نخیل کا نتیجہ تھے۔ فلم کے فن کاروں میں درپن نے ایک غریب ماہی گیر کا کردار کمال فن کے ساتھ ادا کیا تھا، جب کہ ان کے چھوٹے بھائی وسیم کا رول موسیقار ہدایت کار خان عطاء الرحمٰن نے ادا کیا۔ فلم کی کاسٹ میں بہ طور اداکار وہ انیس کے نام سے شامل ہوئے۔ بھارتی آرٹ سنیما کی فن کارہ پر ترپھلوتی مترا، ان کی ہیروئن تھیں ۔عام نقوش اور سانولی رنگت کی حامل فن کارہ جسے کسی طور بھی خُوب صورت نہیں کہا جاسکتا تھا، لیکن اس نے اپنی خُوب صورت اور زندگی کے حقیقی رنگوں سے آراستہ پرفارمنس سے خوب متاثر کیا۔ قاضی خالق نے ’’گنجو‘‘ نامی ماہی گیر کا رول عمدگی سے نبھایا، جب کہ لطیف نے منشی لال میاں کے کردار سے خوب انصاف کیا۔ 

فلم میں مکالمے انتہائی کم اور مختصر تھے۔ زیادہ تر کام فن کاروں کی حرکات و سکنات فیس ایکسپریشنز سے لیا گیا۔ فلم کا ٹیمپو نہایت سِلو تھا،کیوں کہ فلم کو مکمل آرٹ فلم کی تھیوری پر بنایا گیا تھا۔ والٹر لیزلے کی فوٹو گرافی بہت ہی معیاری اور دل کش تھی۔ فلم میں تین نغمات تھے، جو پس پردہ فلمائے گئے۔ ٹیکنیکلی طور پر ’’جاگو ہوا سویرا‘‘ ایک انٹرنیشنل معیاری کی حامل مکمل آرٹ فلم تھی اور پچاس کی دہائی میں اتنی اعلیٰ فلم بنانا پاکستان جیسے محدود وسائل والے ملک کے لیے غیر معمولی بات تھی۔یہ فلم پاکستان کی جانب سے آسکر ایوراڈ کے لیے منتخب کرکے بھیجی ضرور گئی تھی، لیکن اسے نامزدگی نہ مل سکی۔ تاہم پہلے ماسکو فلم فیسٹیول میں اس فلم نے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ 1959ء میں ریلیز ہونے والی یہ فلم باکس آفس پر کام یابی سے محروم رہی۔ 

اس فلم کا میوزک بھارتی موسیقار تمربرن نے مرتب کیا تھا۔ اس وقت کے بنگالی سنیما کے نامور ہدایت کار احتشام نے 1962ء میں ڈھاکا میں اردو سنیما کی بنیاد پر ڈالنے کا اقدام کرتے ہوئے ’’چندا‘‘ تخلیق کی، جس میں ’’چندا‘‘ کا ٹائٹل رول سلطانہ زمان نے ادا کیا تھا، جب کہ شبنم اور رحمن فلم کے روایتی ہیرو ہیروئن تھے۔ ’’چندا‘‘ نے اپنی جملہ خوبیوں کی بدولت نہ صرف ڈھاکا بلکہ کراچی میں بھی شان دار کام یابی حاصل کی اور گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ یُوں احتشام نے مشرقی پاکستان میں اردو فلموں کے لیے ماحول سازی میں اہم کردار ادا کیا۔

متحدہ پاکستان کی پہلی کلر فلم بنانے کا بیڑا بھی مشرقی پاکستان ڈھاکا میں اٹھایا گیا اور بریلنٹ فلم میکر ظہیر ریحان نے 1963ء میں رنگین ٹیکنالوجی پر ’’سنگم‘‘ تخلیق کی، جان دار اسکرپٹ پر بنائی گئی ، یہ بہت اعلیٰ معیار کی حامل فلم تھی۔ جس کی ون لائن یُوں تھی کہ طلبا اور طالبات کا ایک گروہ تفریح کی غرض سے نکلتا ہے اور جنگلیوں کے جزیرے میں پھنس جاتا ہے۔ فلم کی موسیقی خان عطاء الرحمٰن نے مرتب کی تھی، جس کا ایک گیت ’’ہزار سال کا ایک بڈھا مر گیا‘‘۔ اپنے وقتوں میں بے حد مقبول ہوا تھا۔ فلم کی لیڈ کاسٹ میں روزی، ہارون، خیل، سمیتا دیوی، فرید علی اور انورہ بیگم شامل تھے۔ فلم کی نہایت دل کش اور اعلیٰ فوٹو گرافی کی تھی۔ 

افضل چوہدری نے ’’سنگم‘‘ باکس آفس پر بھی نمایاں کام یاب رہی۔ اسی کہانی کو کچھ ردوبدل کے ساتھ ظہیر ریحان کے معروف شاگرد نذر الاسلام نے ’’پلکوں کی چھائوں میں‘‘ بنائی، جو بلاشبہ بہت اعلیٰ معیارکی فلم تھی، لیکن افسوس کہ باکس آفس پر ناکام رہی۔ ہدایت کار ظہیر ریحان ہی نے سب سے پہلے سنیما اسکوپ فلم بنانے کا آغاز کیا اور 1964ء میں فلم ’’بہانہ‘‘ بنائی۔ ’’بہانہ‘‘ باکس آفس پر نہ چل سکی، لیکن سنیما اسکوپ فلمیں بنانے والوں کے لیے مشرقی اور مغربی پاکستان میں راہ عمل متعین کردی۔

پہلی رنگین سنیما اسکوپ فلم بنانے کا تجربہ بھی مشرقی پاکستان میں کیا گیا اور خان عطاء الرحمٰن نے 1966ء میں فلم ’’مالا‘‘ تخلیق کی، جس کے لیڈ کردار عظیم اور سلطانہ زمان نے ادا کیے۔ احمد رشدی کی گائیکی سے سجا مالا کا گیت ’’جھوٹی ہے یہ ساری نگری‘‘ ایک سدابہار گیت ہے۔

1967ء میں مشرقی پاکستان میں بننے والی پہلی بائیو گرافیکل مووی ’’نواب سراج الدولہ‘‘ تھی، جسے خان عطاء الرحمٰن نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ ہر چند کہ یہ بہت محدود وسائل کم بجٹ میں بنائی گئی تاریخی فلم تھی، لیکن مضبوط اسکرپٹ، جان دار ڈائریکشن اور فن کاروں کی شان دار کردار نگاری نے نواب سراج الدولہ کو ایک یادگار معیاری فلم بنا دیا۔ کہانی میں 1737ء سے لےکر 1757ء تک کا دور دکھایا گیا، جب نواب سراج الدولہ انگریزوں سے نبرد آزما تھا۔ جنگ پلاسی کو فلم میں مفصل انداز سے پیش کیا۔ انور حسین نے نواب کے کردار کو اس قدر خُوب صورتی اور معیاری انداز سے نبھایا کہ ناقدین ان کی فنی عظمت کے معترف ہوگئے۔ 

بالخصوص ان کی زندگی کی آخری رات کا منظر کہ صبح سویرے ہی انہیں پھانسی دے دی جائے گی، اس رات نواب کی بے چینی، بے بسی، بےقراری اور موت کی جانب لمحہ بہ لمحہ بڑھتی زندگی کی مایوسی کو انور حسین نے جس طرح ایکسپریس کیا، وہ ان کے بڑا فن کار ہونے کی دلیل تھی۔ خان عطاء الرحمٰن نے نہ صرف فلم کو بہترین ہدایت کارانہ ٹریٹمنٹ دیا، بلکہ بہ طور موسیقار بھی شان دار کارکردگی دکھائی اور بہ حیثیت اداکار فلم کی کہانی کا نہایت اہم کردار ’’رام لال‘‘ کی تمثیل بھی عمدگی سے نبھائی۔ نواب سر اج الدولہ نے باکس آفس پر شان دار کام یابی حاصل کی۔ اس فلم کا ری میک 1989ء میں بنگلہ دیش ہی میں بنایا گیا، جس میں نواب کا کردار پر بیر مترا نے ادا کیا۔ جب کہ اس ری میک کے ڈائریکٹر تھے پردیپ دیو۔

1970ء تک مشرقی پاکستان میں بنگلہ کے ساتھ ساتھ اُردو فلموں پر بھی کام ہوتا رہا۔ ’’چکوری‘‘، ’’چھوٹے صاحب‘‘، ’’درشن‘‘، ’’اناڑی‘‘، ’’ملن‘‘، ’’تلاش‘‘، جیسی رومانی میوزیکل باکس آفس ہٹ فلمیں دیکھنے کو ملیں، تو دوسری جانب ’’آخری اسٹیشن‘‘، ’’سوئے ندیا جاگے پانی‘‘، ’’تم میرے ہو‘‘، ’’پیاسا ‘‘، ’’کاجل‘‘، ’’کنگن‘‘ اور ’’ایندھن‘‘ جیسی آرٹ موویز بھی وہاں بنائی گئیں۔ ان کے علاوہ ’’ناچ گھر‘‘، ’’پریت نہ جانے ریت‘‘، ’’تنہا شادی‘‘، ’’بندھن‘‘، ’’میں بھی انسان ہوں‘‘، (ظفر شباب والی نہیں)، ’’مالن‘‘، ’’ساگر‘‘، ’’روپ بان‘‘، ’’ڈاک بابو‘‘، ’’بیگانہ‘‘، ’’بھیا‘‘، ’’کیسے کہوں’’، ’’پونم کی رات‘‘، ’’پروانہ‘‘،’’اس دھرتی پر‘‘، ’’الجھن‘‘، ’’جنگو‘‘، ’’چاند اور چاندنی‘‘، ’’داغ‘‘، ’’گوری‘‘، ’’قلی‘‘ ، ’’جنگلی پھول‘‘، شہید تیتومیر، جینا بھی مشکل‘‘، ’’میرے ارمان میرے سپنے‘‘، ’’ایک ظالم ایک حسینہ‘‘، ’’مینا‘‘، ’’چلو مان گئے‘‘، ’’پائل‘‘وغیرہ مشرقی پاکستان ساختہ اردو فلمیں تھیں۔ 1970ء کے الیکشن کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ مغربی پاکستان میں مشرقی پاکستان ساختہ ریلیز ہونے والی آخری اردو فلم ’’مہربان‘‘ تھی، جو 1971ء میں ریلیز ہوئی۔

تازہ ترین
تازہ ترین