• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”ضرورت ہے ایک ایسے نوجوان کی جو لاغر نہ ہو، اس کی زندگی کا مقصد محض اینڈرائڈ فون کا نیا ماڈل لینا نہ ہو،اس نے پچھلے چھ ماہ میں کم از کم ایک نئی کتاب کا مطالعہ کیا ہو ،وہ انگریزی یا اردو میں املا اور صرف و نحو کی غلطیوں سے پاک ایک صفحے کی درخواست لکھ سکتا ہو ،اس نے ایف ایس سی میں کیمیا یا بی اے کی انگریزی میں چالیس فیصد سے زیادہ نمبر حاصل کئے ہوں ،وہ کسی کے فراق میں شیو بڑھا کے مجنوں نہ بن بیٹھا ہو ،اس نے جس مضمون میں ڈگری لی ہو اس کی الف بے سے واقف ہو ،انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا کو روزانہ ایک گھنٹے سے زیادہ وقت نہ دیتا ہو،بلھے شاہ کے تین اور غالب کے کم از کم پانچ ایسے اشعار یاد ہوں جو میٹرک کے نصا ب میں شامل نہ ہوں ،کسی حکیم سے علاج نہ کروا رہا ہو،تھرڈ ڈویژن میں ایم اے کرنے کے بعد خود کو پی آئی اے کا سربراہ بننے کا اہل نہ سمجھتا ہو، پاکستان کو برا بھلا کہہ کر بیرون ملک سیٹل نہ ہو گیا ہو اور سیاست دانوں سے متعلق بات کرتے ہوئے اس کے منہ سے جھاگ نہ اڑتی ہو…!“اگر ایسا کوئی نوجوان کرہ ارض پر پایا جاتا ہے تو اسے چاہئے کہ فوراً اپنی نظر اتارنے کے لئے ایک پاؤ چھچھڑے خرید کر اپنے اوپر سے ”وار“ کے راوی میں پھینک دے ،مچھلیاں خوش ہو جائیں گی ،نظر اتر جائے گی اور راوی بھی چین ہی چین لکھے گا۔
اگر اس قسم کا کوئی اشتہاریونیورسٹی کے زمانے میں ہماری نظر سے گزرتا تو یہ فدوی بیان کی گئی شرائط میں سے بمشکل دو تین پر ہی پورا اترتالیکن یونیورسٹی کو خیرباد کہے چونکہ مدت ہو چکی ہے لہٰذا اب میں چھاتی چوڑی کر کے نوجوانوں پر تنقید کر سکتا ہوں ۔آج کل یہ نوجوان ملک میں تبدیلی کا ایک خوشنما استعارہ ہیں ،ہر درد مند پاکستانی کی طرح یہ نوجوان بھی سسٹم سے بیزار ہیں،کرپشن پر کڑھتے ہیں اورسیاست دانوں کو تمام برائیوں کی جڑ سمجھتے ہیں۔ انہیں ایک ایسا خود کار نظام چاہئے جس میں انہیں ڈگری حاصل کرتے ہی نوکری مل جائے ،تنخواہ منہ مانگی ہو ،کام من پسند ہواور تنخواہ گھر بیٹھے مل جائے۔ان نوجوانوں کے نزدیک سسٹم صرف جاگیر دار ،سرمایہ دار اور با اثر طبقے کے افراد کے لئے کام کرتا ہے اور اسی لئے ہنر مند، ایماندار، محنتی اور عام طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں ۔ان نوجوانوں کو اگر مناسب مواقع اور موافق حالات میسر آجائیں تو یہ ملک کی کایا پلٹ دیں گے۔ ان نوجوانوں میں جذبہ ہے جنون ہے، جوش ہے، انرجی ہے ،یہ نوجوان پاکستان کو بدلنا چاہتے ہیں لیکن فی الحال چونکہ گرمی زیادہ ہے اس لئے ڈی وی ڈی پر ”مٹرو کی بجلی کا منڈولا “ لگا کر دیکھ لیتے ہیں، انقلاب بعد سردیوں میں آئیں گے ۔
مجھے ان نوجوانوں سے دلی ہمدردی ہے کیونکہ تمام پاکستانیوں کی طرح یہ نوجوان بھی ”ایماندار“ ہیں اور اپنی ایمانداری کے ثبوت کے طور پر یہ ہر اس شخص پر جھوٹا الزام لگاتے ہیں جو اس نظام کی تمام تر قباحتوں کے باوجود اپنے زور بازو پر کامیابی کے جھنڈے گاڑتا ہے ۔ان نوجوانوں میں بہت انرجی ہے ،بجا ارشاد مگر انرجی تو گھوڑے میں بھی ہوتی ہے،خالی خولی انرجی کسی کام کی نہیں جب تک اسے دماغ کے ساتھ ملا کر استعمال نہ کیا جائے۔جو نوجوان 2005ء میں پندرہ برس کا تھااب وہ 23سال کا ہے ، نوجوانوں کی یہ کھپ مشرف دور میں پل بڑھ کر جوان ہوئی ہے ،انہوں نے ٹی وی چینلز کا عروج دیکھا ہے ،پراپرٹی ڈیلروں کو زمینوں کے سودوں میں راتوں رات کروڑ پتی بنتے دیکھا ہے ،مارننگ شوز کی موج مستی دیکھی ہے ،ایک نوزائیدہ جمہوری حکومت کو روتے پیٹتے پانچ سال مکمل کرتے دیکھا ہے ۔انہوں نے مارشل لا ء کے کوڑے نہیں دیکھے ،انہیں کچھ پتہ نہیں کہ سیاسی جدو جہد کس چڑیا کا نام ہے،ان کے نزدیک فوجی ڈکٹیٹر کو اس بنیاد پر خوش آمدید کہنا کہ وہ کرپشن کا خاتمہ کرے گاصریحاً جائز ہے ،کسی جلوس میں لاٹھیاں کھانا تو دور کی بات انہیں یہ بات خواب لگتی ہے کہ اس ملک میں نوجوا نوں نے اپنے قائد کی محبت میں خود سوزیاں بھی کی تھیں۔ان کے نزدیک سیاسی شعور کی معراج یہ ہے کہ اپنے مخالفین کی سوشل میڈیا پر کردار کشی کی جائے اور سیاست دان جس ٹی وی مباحثے میں نظر آئے اسے مطعون کیا جائے ۔ان مباحثوں میں جو نوجوان جتنا زیادہ غصے میں بپھر کر جذباتی انداز میں کوئی بے سروپا سوال کرے گا،اسے اتنی ہی زیادہ تالیاں ملیں گی۔ ان کی سیاسی بصیرت کا عالم یہ ہے کہ اگر ان سے پوچھا جائے کہ امریکہ کی جنگ سے باہر نکلنے کا کیا مطلب ہے تو جواب آئے گا ڈرون کو مار گرایا جائے ،امریکہ دم دبا کر بھاگ جائے گا۔
ان نوجوانوں کو یہ بھی گلہ ہے کہ ”پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں “ کے مصداق بازار میں ان کی قابلیت کا کوئی مول ہی نہیں لگتا! یہ بات کسی ایسے لطیفے سے کم نہیں جس کے مونچھوں کے بال سفید ہو چکے ہوں ۔اگر آپ کسی سرمایہ دار سے پوچھیں تو وہ الٹا آپ کو اپنا رونا سنائے گا کہ قابل ،محنتی اور دیانتدار نوجوان نہیں ملتے ۔کیا آپ نے کبھی ایسا نوجوان دیکھا ہے جو ٹیلنٹڈ بھی ہو اورمحنتی بھی اور اس کے باوجود بیکار ہو؟ محض ڈگری ہاتھ میں لئے پھرنا قابلیت یا ذہانت کا کوئی معیار نہیں۔ہنرمندی ،ذہانت اور دیانت کے سرٹیفکیٹ کوئی ادارہ جاری نہیں کرتا ،اگر آپ میں یہ گُن ہیں تو لوگ آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے ،یہاں تو ویسے ہی قحط الرجال ہے ۔دنیا بھر میں سرکار اپنے لوگوں کو پانچ فیصد سے زیادہ نوکریاں نہیں دے سکتی ،یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی پہلی ترجیح اپنا کاروبار ،کنسلٹنسی یا پھر پرائیویٹ نوکری ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں جو نوجوان زراعت میں ایم ایس سی کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ اسے کسی سرکاری ادارے میں آٹھ سے تین کی نوکری مل جائے، دن میں چار فائلیں پر دستخط کرے، ہفتے میں دو دن چھٹی کرے اور تیس سال بعد ریٹائر ہو ۔ ایسا نوجوان اپنے ضلع میں زراعت کے شعبے میں کوئی مشاورتی کمپنی کیوں نہیں کھولتا ،لوگوں کو پیداوار بڑھانے کے جدید طریقے بتا کر پیسہ کیوں نہیں کماتا؟ کیونکہ وہ محنت نہیں کرنا چاہتا۔یہ نوجوان سرکاری افسرا ن کوتو گالیاں دیتے ہیں مگر سرکار کی نوکری پیسے دے کر حاصل کرنے کو حلال سمجھتے ہیں ،غالباً کرپشن کی یہ قسم جائز ہے !
یہ نوجوان ہی ہیں جو اس ملک کے میڈیکل کالجوں میںsubsidizedفیس دے کر ڈاکٹربنتے ہیں ،اس کے بعد امریکہ کا ویزہ لگوا کر وہاں میڈیکل لائسنسنگ کا امتحان پاس کرکے پریکٹس کرتے ہیں اور لاکھوں ڈالر کمانے کے بعد پاکستان کے سسٹم کو گالیاں دیتے ہیں اورپھر اپنے ضمیر کی خلش مٹانے کے لئے ایک تنظیم بناڈالتے ہیں اور تقریریں کرتے ہیں کہ جب تک پاکستان میں کوئی مسیحا آسمان سے نازل ہو کر سسٹم ٹھیک نہیں کرے گا ،ہم کیسے واپس آ سکتے ہیں!یہ پاکستان ہی ہے جہاں کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کی ماہانہ فیس تین ہزار روپے ہے ۔یہی نوجوان اگر امریکہ میں ہوتے تو ڈاکٹر بننے کے لئے جو قرض اٹھانا پڑتا اسے چکانے کے لئے انہیں بیس برس لگ جاتے کیونکہ وہاں بائیولوجیکل ماں باپ میٹرک کے بعد کان سے پکڑ گھر سے نکال دیتے ہیں کہ بیٹا اپنا کماؤ اور اپنا کھاؤ۔
نوجوان ہوں یا ادھیڑعمر،ہم سب کو اس ملک میں اپنا جائز حق چاہئے مگر اپنا کوئی بھی فرض ادا کئے بغیر۔کیا ہوا اگر ہم سال بھر میں تیس لاکھ بچے پیدا کرتے ہیں ،ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمیں Scandinavian ممالک جیسی سہولتیں فراہم کرے ۔آفٹر آل ہم نوجوان ہیں اور ”چینج“ چاہتے ہیں!
تازہ ترین