• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رواں سال جنوری کا مہینہ ملک میں آٹے کا جو بحران لیکر آیا، ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں نے دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹا تاہم حکومت نے مداخلت کرکے صورتحال پر قابو پایا جو 15لاکھ ٹن گندم کی درآمد پر منتج ہوئی۔ اس کے بعد نئی فصل اپنے ہدف سے کم پیدا ہونے پر حکومت کو مزید گندم درآمد کرنا پڑرہی ہے لیکن مخصوص مافیا کے اک بار پھر سرگرم ہونے کے خدشات سروں پر منڈلا رہے ہیں جس پر آہنی ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے منگل کے روز گندم اور چینی کی دستیابی اور قیمتوں کے حوالے سے جائزہ اجلاس میں طلب کو مد نظر رکھتے ہوئے گندم کی وافر مقدار میں رسد کو یقینی بنانے کی ایک بار پھر ہدایت کی ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ نجی شعبے کی جانب سے اب تک تقریباً چار لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی جا چکی ہے، مزید دس لاکھ ٹن اگلے ماہ پہنچ جائے گی اس کے علاوہ سرکاری سطح پر پندرہ لاکھ میٹرک ٹن درآمد کی جارہی ہے۔ ان انتظامات کی رو سے حکومت نے کسی بھی ممکنہ تشویشناک صورتحال کا ادراک کیا ہے یہاں یہ بات ملحوظ رہنی چاہئےکہ پاکستان گندم پیدا ہی نہیں برآمد کرنے والا ملک بھی ہے لیکن سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کو بتایا گیا ہے کہ 2019-20میں گندم اپنے ہدف سے 1411ملین ٹن کم پیدا ہوئی، اس صورتحال کے تناظر میں آئندہ دو ماہ میں نئی فصل کی بوائی شروع ہونے والی ہے امید واثق ہے کہ اس کی مناسب حکمت عملی طے کر لی جائے گی مزید برآں وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے بھی موجودہ صورتحال کے حوالے سے آٹے کی قیمتوں میں استحکام رکھنے کی سخت ہدایات دی ہیں اس ضمن میں ضروری ہوگا کہ بیکری کے بنے ہوئے سامان، روٹی کے وزن اور قیمتوں پر بھی کڑی نظر رکھی جائے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں0092300464799

تازہ ترین