اسلام آباد ( رپورٹ :رانا مسعود حسین) سپریم کورٹ کے جج ،مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے ٹیکس کے معاملات سے متعلق حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروادی گئی ہے۔ جس کے مطابق ٹیکس حکام نے ان پر 35ملین روپے کا جرمانہ عائد کیا ہے ۔
ذرائع کے مطابق بدھ کے روز چیئرمین ایف بی آر جاویدغنی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین /چیف جسٹس آف پاکستان کے آفس میں 260صفحات پر مشتمل رپورٹ جمع کروادی ہے ،جس میں ایف بی آر کے کمشنر ذوالفقار احمد کا اس حوالے سے 164صفحات کا حکمنامہ بھی شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے مسز عیسیٰ کو 25جون سے لیکر 21اگست کے دوران ان کی اور انکے دو بچوں کی لندن کی تین جائیدادوں کی تفصیلات کے حصول کے لئے چار نوٹسز بھجوائے تھے۔
ذرائع کے مطابق مسز عیسیٰ نے لندن کی تین جائیدادوں کی مجموعی ویلیو 24ملین روپے قرار دی ہے ،جنکی موجودہ ویلیو 105ملین روپے ہے ،ذرائع کے مطابق ایف بی آر حکام نے ان کے بچوں پر کسی قسم کا بھی کوئی جرمانہ عاید نہیں کیاہے۔
ذرائع کا کہناہے کہ اس رپورٹ پر سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین /چیف جسٹس کے احکامات کی روشنی میں ٹیکس حکام آئندہ کے کورس آف ایکشن کا تعین کریں گیاور جرمانہ کے معاملات کو آگے بڑھائیں گے،تاہم سرینا عیسیٰ نے اس سب کچھ کی تردید کی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ رپورٹ کے مطابق مسز عیسیٰ نے اب اپنا موقف تبدیل کرلیا ہے کہ انہوں نے دونوں جائیدادوں کی 2013میں خریداری پر تمام رقم ادا کردی ہے ،ذرائع کے مطابق مسز عیسیٰ کو بھجوائے گئے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ آپ کی جانب سے 10اگست 2020کو دیے گئے بیان کے مطابق آپ کی کل سرمایہ کاری 104.7ملین روپے تھی ،اور ایف بی آر حکام نے ان سے لندن کی تین جائیدادوں کی قیمت 104,680,020کے ان کی سرمایہ کاری کی گئی رقم 2,404,30کے ساتھ جسٹیفائی کرنے کو کہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے اپنے حتمی نوٹس میں مسز عیسیٰ کو کہا ہے کہ آپ لندن جائیدادوں کی اپنی اصل سرمایہ کاری کی پرسنٹیج سے متعلق سوالات کے جوا ب دینے میں ناکام رہی ہیں ،اس لئے ہمیں آپکی جانب سے 2004اور2013میں دیے گئے ڈیکلریشن پرا نحصار کرنا پڑ رہا ہے۔
تاہم مسز عیسیٰ نے میڈیا کو جاری کئے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایف بی آر کے کمشنر ذوالفقار احمد کا یہ حکم نامہ ایک خیالی افسانہ ہے اور میں اس کے خلاف اپیل دائر کروں گی ،ایک ایسا افسانہ جس میں نہ صرف میری زرعی اراضی کی آمدن کو نظر نداز کیا گیاہے بلکہ مجھے 1982سے کراچی امریکن سکول سے ملنے والی تنخواہوں کو بھی شامل نہیں کیا گیاہے ،اس افسانے میں میری کلفٹن کراچی کی دو جائیدادوں کی فروخت اور ان سے ملنے والے منافع کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق رپورٹ کے ساتھ اس شوکاز نوٹس کو بھی لف کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق مسز سرینا کے پاس کل 9.4ملین روپے تھے جنکا ان کے 30جون 2013کے ڈیکلریشن میں ذکر موجود ہے ،انہوںنے 3آف شور جائیدادیں چھپائی ہیں،اور اپنی 30جون 2013کی ویلتھ سٹیٹمنٹ میں انہیں ظاہر نہیں کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ایف بی آر کی ٹیم نے مسز سرینا کے سٹنڈرڈ چارٹرڈ بنک کے اکائونٹ جوکہ 26مئی 2003کو کھولا گیاتھا کا بھی فرانزک تجزیہ کیاہے ،جس میں 2003تا2013تک کل 0.698ملین روپے کی ٹرانزیکشن ہوئی تھی ،ٹیم نے نتیجہ اخذ کیاہے کہ 2017اور2018کے دوران مسز عیسیٰ کے کل اثاثہ جات 119.915ملین روپے کے تھے۔
رپورٹ کے مطابق مسز عیسیٰ نے ایف بی آر حکام کو بتایا ہے کہ انہیں نہیں معلوم کہ ٹیکس حکام نے 9.4ملین کا فگر کہاں سے لیا ہے ؟کیونکہ انہوں نے اس سلسلے میں مجھے کوئی معلومات نہیں دی ہیں اور نہ ہی بتایا ہے کہ انہوںنے کس بنیاد پر 104,680,020کی رقم کا تعین کاہے ،رپورٹ کے ساتھ مسز عیسیٰ کے 3جوابات بھی شامل ہیں۔
جن کے مطابق انکوائری افسران چاہتے تھے کہ میں اپنی زندگی کی نئے سرے سے ابتداء کرتے ہوئے ایک ایک روپے کا حساب دوں جس کا آغاز 38 سال قبل کراچی کے سکول سے کیا تھا ،مسز عیسیٰ نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ میں درخواست کرتی ہوں کہ ایف بی آر حکام نے جن دستاویزات پرانحصار کیا ہے وہ مجھے بھی فراہم کی جائیں۔
مسز سیرینا نے مزید لکھا ہے کہ فنانس ایکٹ 2018میں پہلی بار دفعہ 116اے شامل کی گئی تھی ،جس کے ذریعے غیر ملکی آمدن اور اثاثوں کی سٹٹمنٹ طلب کی جاتی ہے ،اور میں نے اس کے تقاضے پورے کرتے ہوئے 2018اور 2019میں اپنی غیر ملکی آمدن اور اثاثوں کی تفصیلات جمع کروائی ہیں اور انہیں ایف بی آر نے قبول بھی کیا ہے۔
مسز عیسیٰ کے مطابق ایف بی آر حکام نے جان بوجھ کر اس حقیقت کو نظر انداز کیا ہے کہ میں نے اپنی زرعی اراضی پر متعلقہ صوبائی قانون کے مطابق ٹیکس ادا کیا ہے ،اس لئے میری سابق زرعی انکم کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ میرا معاملہ ایف بی آر کے کمشنر اسلام آباد کے دائرہ اختیا ر میں آتا ہی نہیں ہے ،اور میری درخواست کے بغیر اور مجھے آگاہ کئے بغیر ہی اس کا دائرہ کر تبدیل کردیا گیا ہے ،میں آج بھی اپنی اراضی سے کافی رقم وصول کررہی ہوں اور اسی میں سے کچھ رقم سیونگ سرٹیفکیٹس میں بھی لگا رکھی ہے جوکہ حکومت کے جاری کردہ ہیں اور ان پر ملنے والے منافع میں سے حکومت انکم ٹیکس بھی کاٹتی ہے ۔