بینک ڈیفالٹ کے ملزم کی بریت کے خلاف نیب اپیل پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی محمد امین نے ریمارکس دیے کہ احتساب کے عمل میں پسند ناپسند نہیں ہونا چاہیے، احتساب کا عمل صرف قانون کے مطابق ہی ہونا چاہیے۔
جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیئے کہ سلیکٹڈ احتساب عدالتوں کیلئے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔
بینک ڈیفالٹ کے ملزم ارشد علی کی بریت کے خلاف نیب اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کہ ریمارکس دیئے کہ بینک سے قرض لینا نیب کا کیس کیسے ہوگیا؟، جس وقت قرضے دیے گئے کیا ریاست سو رہی تھی؟، قرضے لینے والوں میں سارے بڑے آدمی شامل ہیں کوئی کہاں بیٹھا ہے کوئی کہاں۔
کیس کی سماعت جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نیب نے عدالت کو بتایا کہ قرض بورڈ آف ڈائریکٹر کی منظوری کے بغیر جاری کیا گیا، اصل قصور وار ذوالفقار نامی شخص تھا جو فوت ہوگیا۔
جسٹس قاضی امین نے کہا ہزاروں لاکھوں لوگ بینکس کے ڈیفالٹرز ہیں کیا نیب نے سب کے خلاف کاروائی کی؟ نیب نے کتنے بینک نادہندگان کے خلاف ریفرنسز بنائے؟ یہ کیس نیب کے دائرے میں نہیں آتا۔
جسٹس مشیرعالم نے ریمارکس دیے کہ منظور نظر لوگوں کو نیب چھوڑ دیتا ہے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نیب نے عدالت کو بتایا کہ ملزم نے پلی بارگین کے تحت 56 لاکھ روپے واپس بھی کیے ہیں اور ایک دوسرے مقدمے میں جیل میں ہے۔
جسٹس قاضی امین نےا سپیشل پراسیکیوٹر نیب کو ہدایت کی کہ وہ کیس واپس لینے کیلئے نیب سے ہدایات لے لیں، عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔