• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی لابی نہ ہونے کے برابر، ساجد تارڑ


کراچی ( ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں میزبان سلیم صافی نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اہم عالمی رہنماؤں کی تقریروں کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر اس وقت انارکی جیسی صورتحال ہے۔

روایتی حریفوں نے ایک دوسرے کیخلاف آستینیں چڑھالی ہیں یا چڑھانے کی کوشش کررہے ہیں، مسلم وائسز فار ٹرمپ الیکشن 2020کے چیئرمین ساجد تارڑ نے کہا کہ واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی لابی نہ ہونے کے برابر ہے امریکا میں جمہوریت ریفارم ہورہی ہے جس کا نام ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق جیو کے پروگرام جرگہ میں تجزیہ کرتے ہوئے مسلم وائسز فار ٹرمپ الیکشن 2020کے چیئرمین ساجد تارڑ نےکہا کہ روایتی سیاستدان سیاست میں آکر پیسہ بناتے ہیں لیکن ٹرمپ پیسہ بنا کر سیاست میں آئے ہیں، جمہوریت کاروبار نہیں عوام کی خدمت کا نام ہے۔

سیاست میں تین کروڑ لگا کر چھ کروڑ بنانے کی سوچ جمہوریت کیخلاف ہے، امریکا میں میڈیا کی 90فیصد کوریج ڈونلڈ ٹرمپ مخالف ہوتی ہے، کچھ میڈیا آؤٹ لیٹس کاکام ہی ٹرمپ کی ہر چیز کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ اس میڈیا کوریج کا جواب اپنی ٹوئٹس سے دیتے ہیں۔ساجد تارڑ کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اسٹیبلشمنٹ مخالف ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ نے ان کے ساتھ کام نہیں کیا، واشنگٹن ڈی سی میں ابھی بھی 48فیصد لوگ اوباما کے تقرر کردہ لوگ ہیں جو ٹرمپ کو مینڈیٹ ڈیلیور کرنے نہیں دے رہے، ایف بی آئی نے ٹرمپ کیخلاف روس سے تعلقات کے الزام میں پیسہ برباد کیا، پوری دنیا میں قوم پرست سیاست کا احیاء روایتی سیاست کیخلاف ردعمل ہے۔ ساجد تارڑ نے کہا کہ عمران خان اس طرح مینڈیٹ ڈیلیور نہیں کرپائے جس طرح ٹرمپ نے اپنا مینڈیٹ ڈیلیور کیا۔

2016ء میں بھی پولز ڈونلڈ ٹرمپ کے ہارنے کی پیش گوئی کررہے تھے، ٹرمپ کے مقابل جوبائیڈان روایتی سیاستدان ہیں ان سے لوگ اکتاچکے ہیں، صدر ٹرمپ اسلام مخالف نہیں ہیں، مشرق وسطیٰ کا امن ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے سب سے اہم ہے، ٹرمپ دوسری مدت صدارت میں مسئلہ فلسطین کا حل دے کر جائیں گے، اسرائیل کی غیرمشروط حمایت امریکی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔ 

ساجد تارڑ کا کہنا تھا کہ امریکا میں اسرائیلی اور انڈین لابی بہت مضبوطی سے کام کررہی ہیں، واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی لابی نہ ہونے کے برابر ہے، امریکا میں پاکستان لابی کے لحاظ سے انڈیا سے پچاس سال پیچھے ہے۔

انڈیا کی متوازن خارجہ پالیسی دیکھیں کہ امریکا کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے ساتھ فرانس سے بھی طیارے لے لیے، امریکا کیلئے انڈیا ایک پارٹنر کے طور پر سامنے آیا ہے دوسرا ملک ہمیشہ پیکیج لینے آتا ہے، کشمیر پر مسلم امہ آپ کے ساتھ نہیں کھڑی تو امریکا کو کس طرح الزام دیا جاسکتا ہے۔

امریکی صدر کی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کا مطلب ہے کہ وہ کشمیر کو متنازع معاملہ سمجھتا ہے۔ساجد تارڑ نے کہا کہ اس وقت پانچ چھ کانگریس مین انڈین نژاد ہیں، صومالین اورایتھوپین کانگریس مین مل جاتے ہیں ایک پاکستانی کانگریس مین نہیں ہیں، مائیکروسافٹ، گوگل اور ویزا ماسٹر کارڈ سمیت کئی بڑی امریکی کمپنیوں کے سی ای او انڈین نژاد ہیں۔

صدارتی امیدوار بابی جندال اور نکی ہیلی دونوں انڈین نسل کے ہیں، امریکی سپریم کورٹ میں خاتون جج نہیں ہوتیں تو وہاں انڈین سپریم کورٹ کا جج آرہا تھا، اس کے باوجود امریکی صدر نے انڈین سرزمین پر پاکستان کا نام لیا۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی کشمیر کو justify نہیں کرتی آپ امریکا کو کیسے الزام دے سکتے ہیں۔ 

ساجدتارڑ کا کہنا تھا کہ پاکستان سی پیک کے ساتھ امریکا سے تعلقات بھی قائم رکھتا سکتا تھا، افسوسناک طور پر امریکا پاکستانی خارجہ پالیسی کا حصہ نہیں رہا ہے۔

تازہ ترین