محمد نسیم
کورونا وائرس کے بعد دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں کھیلوں کی سر گرمیوں کی بحالی سے کھیل کے میدان ایک بار پھر آباد ہوگئے ہیں، حکومت نے ابتداء میں صرف تین کھیلوں کی اجازت دی تھی مگر دیگر کھیلوں کے منتظمین نے اپنی سر گرمیاں بھی شروع کردی، حکومت کی جانب سے واضح پالیسی کا اعلان نہ ہونا درست عمل نہیں تھا، جس کی وجہ سے غلط فہمیاں جنم لے رہی تھیں، اس بات سے قطع نظر کہ حکومت نے کھیلوں کی بحالی کے حوالے سے طریقہ کار بہتر انداز میں نہیں اپنایا۔
اب جبکہ ملک میں لگ بھکچھ ماہ کھیلوں کے مقابلے شرو ع ہوچکے ہیں، تام ایسوسی ایشنوں اور فیڈریشنوں کے لئے اپنے اہم ایونٹس کا انعقاد کڑا امتحان ہے، کورونا کے بعد اہم مسئلہ اسپانسر شپ کا حصول ہے، کیوں کہ کورونا کے بعد اسپانسرز نے بھی اپنے ہاتھ روک لئے ہیں، وہ بھی مالی بحران کا بہانہ بناکر آگے آنے سے گھبرا رہے ہیں ان حالات می کھیلوں کے منتظمین کے لئے اسپانسر شپ بڑا سنجیدہ مسئلہ نظر آرہا ہے اس لئے حکومت کو بھی اپنی اپنی صوبائی ایسوسی ایشنوں کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔
نجی اداروں کو بھی کھیل اور کھلاڑیوں کے مسائل کوسامنے رکھ کر مثبت انداز اختیار کرنا ہوگا، کسی بھی کھیل کی ترقی میں یہ بات ضروری ہے کہ کھلاڑیوں کو ملازمت فراہم کی جائے ، تاکہ وہ ذہنی طور پر مالی آ سودگی کے ساتھ اپنی پر فار منس کا اظہار کر سکیں، ساتھ ہی جیت پر ان کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے، مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں کھلاڑیوں کی نقد ایوارڈ کی صورت میں خدمات کےاعتراف کا سلسلہ نہ ہونے کے برابر ہے، حال ہی میں ساؤتھ ایشین گیمز میں میڈلز جیتنے والے قومی کھلاڑیوںکو پاکستان اسپورٹس بورڈ کی جانب سے نقد ایوارڈ دئیے گئے جو ایک اچھی روایت ہے جس کا ہر سطح پر خیر مقدم کیا جارہا ہے۔ حقیقت میں یہ اچھی ابتداء ہے جو مستقبل میں جاری رہنا چاہئے۔