• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اداروں کے درمیان مکالمے ہی سے آگے کی جانب بڑھاجا سکتا ہے

اسلام آباد (تجزیہ / انصار عباسی) آگے کی جانب پیش رفت کا واحد راستہ اداروں کے درمیان ڈائیلاگ ہے ۔ وقت آگیا ہے کہ سربراہان کی سطح پر بین الادارہ جا تی ڈائیلاگ ہو ۔تاکہ سسٹم کو درپیش ممکنہ خطرے کو ٹالا جا سکے ۔

اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد اپوزیشن جماعتوں اور ریاستی اداروں میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے ۔

بدقسمتی سے آج کل نیب جو کچھ کر رہا ہے وہ آگ پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے ۔ جبکہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی جھگڑے اور نمبر بنانے کے عمل نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے ۔

آپس میں ان کی کشیدگی خطرناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے ۔لیکن اسے ایک دستیاب موقع میں ڈھالا جائے اور اس حقیقت میں منتقل کیا جا ئے ، جیسا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے اپنی تقرری کے موقع پر کہا تھا کہ وہ خود سے تنہا معاملات کو نہیں نمٹا سکتے چاہے وہ عدلیہ ، منتظمہ یا اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی کر نے والوں کو سسسٹم اور پاکستان کی خاطر پہلکر نا ہو گی ۔

رواں ماہ منعقد اپوزیشن کی اے پی سی کے بعد حالات واقعی تشویشناک ہو گئے ہیں ۔20

ویں آئینی ترمیم کے بعد طرفین کی جانب سے عمل اور ردعمل اس انتہا کو پہنچ گیا کہ سانق سیکرٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) خالد لودھی کو یہ کہنا پڑگیا کہ دفعی افواج ، عدلیہ ، میڈیا اور سیاسی جماعتیں سب ہی ،تنازع سورت اختیار کر گئے ہیں ۔

جنرل لودھی نے بالکل درست کہا کہ یہ ادارے باہم بر سر پیکار ہیں اور ایسی صورتحال میں پاکستان آگے کی جانب نہیں بڑھ سکتا ۔

انہوں نے معاملات حل کر نے کے لئے تمام ریاستی کراداروں کے درمیان مکالمے کی ضرورت پر زور دیا، جسٹس کھوسہ نے تجویز دی کہ صدر پاکستان کو صدر پاکستان کو اداروں کے درمیان سربراہان کی سطح پر مکالمہ تجویز کر نا چاہئے تاکہ ماضی کی غلطیوں کا جائزہ لے کر ان کے ازالے کی سعی کر نی چاہئے۔

نیا میثاق حکمرانی سامنے لایا جائے تاکہ مستقبل میں ایسی ہی غلطیوں کے اعاادے سے بچا جاسکے ۔جسٹس کھوسہ کی اس مجوزہ ایسی سربراہ ملاقات میں پارلیمانی قیادت ، اعلیٰ عدلیہ اور منتظمہ کو بھی مدعو کیا جا سکتا ہے ۔

منتظمہ میں فوجی قیادت اور انٹلی جنس ادارے بھی شامل ہیں ۔ قومی حکمرانی میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو صدر پاکستان کی سرپرستی میں ایک میز پر لا نے کے بعد ماضی کے داغ دھونے کی سعی کر نی چاہئے۔

تلخ معاملا ت کے حل پر توجہ دینے کے ساتھ طے شدہ آئینی حدود میں رہتے ہو ئے ۔جہاں جہان قابل عمل پالیسی فریم ورک تیار کر نا چاہئے ۔جہاں جہاں عدلیہ ، منتظمہ اور اور دستور ساز اداروں سے غلطیاں سر زد ہوئیں ان پر کھلے ذہن اور قلب کے ساتھ غور کر کے ازالہ کیاجائے ۔

جسٹس کھوسہکی تجویز کے مطابق جہاں کہیں بھی حد سے تجاوز ہوا ،مداخلت بے جا ہوئی ایسے معاملا ت کو باہمی اتفاق رائے سے حل کیا جائے ۔بدقسمتی سے سلگتی صورتحال کو ٹھنڈا کر نے کے لئے اب کوئی نہیں ہئے ۔۔اے پی سی کے بعد نیب اپوزیشن لیڈروں کو گرفتار کر کے جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے ۔

اس کے ردعمل میں اپوزیشن لیڈرز خصوصاَمریم نواز اور مالان فضل الرحمان زیادہ بولنے لگے اور خطرناک ہو گئے ہیں ۔اگر حالات کو ان ہی ڈگر پر چلتے رہنے دیا جائے تو پھر کوئی بھی بحران کو حل نہیں کر دکے گا۔

مکالمہ ہی آگے بڑھنے کا واحد ذریعہ ہے ۔مکالمہ کرانے کی صدر عارف علوی ہی بہتر پوزیشن میں ہیں ۔وزیر اعظم عمران خان کو ان کی حمایت کرنی چاہئے ۔ کیونکہ اس سے حکومت ہی سب سے زیادہ فائدے میں رہے گی ۔

تازہ ترین