مثل مشہورہے کہ ’’جنگل میں مور ناچا ، کس نے دیکھا‘‘ مگر صحرائے تھر میں یہ مثل صادق نہیں آتی۔ تھر کے دیہی علاقوں میں ہر صبح گلی گلی، جھونپڑوں کے آگے گوبر اور مٹی سے بنے صحنوں میں مور ناچتے ہیں، جنہیں مذکورہ گھروں کے علاوہ نہ صرف ارد گرد کے لوگ بلکہ یہاں سیر و تفریح کی غرض سے آنے والے سیاح بھی دیکھتے ہیں۔جب مورمحو رقص ہوتے ہیں تو اس سمے اس طرح رنگ بکھرتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی مصور نے صحرا کا سارا منظربدل دیا ہے۔
کہاجاتا ہے کہ مور ناچنے کے بعد گریہ زاری کرتا ہے اورمورنی اس کے آنسوئوں کو ریت پر گرنے سے قبل پی لیتی ہے ۔ مورنی کے اس والہانہ جذبے کو محبت کا انوکھا انداز کہا جا سکتا ہے۔کچھ مقامی لوگ سمجھتے ہیں مورکے آنسو پینے سے مادہ مور انڈے دیتی ہے مگر اس بات کو سائنسی طور پرتسلیم نہیں کیا گیا۔ مور بھی باقی پرندوں کی طرح افزائش نسل کے عمل سے گزرتا ہے۔تھر میں موروں کی افزائش بارشوں کے بعد ہوتی ہے۔عیسوی سال کے مطابق اگست اور ستمبر میں مورنیاں انڈے دیتی ہیں ۔ مورنی کی بہ نسبت مور زیادہ حسین ہوتا ہے۔
عام طور پر چار سے پانچ فٹ لمبا قد رکھنے والا یہ پرندہ نیلے اور چچ گرین کلرز کی پنکھ کے ساتھ خوبصورت لگتا ہے۔نر اور مادہ دونوں کے سر پر تاج جگمگاتا ہے۔لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ مادہ کی رنگت نر مورکے مقابلہ میں پھیکی سی لگتی ہے۔نر مور کا سر،سینہ اور گردن نیلے رنگ سے مزین ہوتا ہے، جب کہ دم کے پروں میں آنکھ نما ٹکلیاں بھی پائی جاتی ہیں ۔لمبی اورمخمل نما نازک دم ، پروں کے باوجود مور درخت اور جھاڑیوں کے درمیان انتہائی تیزی سے دوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
عام طور پر نر مور کے ساتھ تین سے چار مورنیاں ہوتی ہیں ۔جو کہ بریڈنگ کے وقت الگ ہوجاتی ہیں۔لوگ موروں کو پالتے بھی ہیں مگر ان کو پالنا بھی آزادانہ ہوتی ہے۔ یعنی انہیں قید نہیں کیا جاتا بلکہ صحرائے تھر کے علاقوں میں سحر کی کرنیں پھوٹنے کے ساتھ ہی یہ پرندے گھروں میں آ جاتے ہیں جہاں خواتین ،بچے اور بڑے انہیں دانہ ڈالتے ہیں ۔اکثر گھروں میں باورچی خانوں اور گھر کے آنگن میں لسی بنانے والی خواتین کے ارد گرد مور ٹہلتے نظر آتے ہیں،جوکہ وقت گزرنے کے ساتھ سورج کی تمازت محسوس کرکے درختوں کے جھنڈ میں جاتے ہیں۔
تھر کے باسیوں اور موروں کاایک طرح سے قلبی رشتہ ہے۔ وہاں آج بھی مور کوذبح کرنا یا گزند پہنچاناگناہ تصو ر کیا جاتا ہے۔تھر میں قحط سالی کے دوران جب ’’رانی کھیت ‘‘ کی بیماری میںمبتلا ہوکر مور مرتے ہیں توتھری باشندے اتنے افسردہ ہوجاتے ہیں جیسے ان کا کوئی قریبی عزیز دنیا سے رخصت ہوگیا ہو، خصوصاً بچےگریہ زاری کرتے ہوئے اپنی تھری ڈھاٹکی زبان میں یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ’’مھانجو موریو مرے گیو‘‘، ’’یعنی’’ میرا مور مر گیا‘‘۔ کسی بھی بڑے حادثہ ، زلزلہ یا قدرتی آفت کی صورت میں پیدا ہونے والی بھیانک گڑگڑاہٹ سن کر تمام مور چیخنا شروع کر دیتے ہیں،اسی طرح جیسے ہی بادل برسنے کو ہوتے ہیں تو بارش کی نوید سنانے کے لیے مو رخوشی سے چیختے ہیں، جس کے چند منٹوں بعد ابر رحمت برسنے لگتا ہے۔
موسم کے اعتبار سے سال میں ایک مرتبہ اس کے پنکھ جھڑ تے ہیں جو بعد میں نئے آجاتے ہیں ۔اس کے پروں کی مانگ زیادہ ہوتی ہے یہ گھروں میں سجائے جاتے ہیں۔ مور پنکھ سے مختلف قسم کے شو پیش بھی بننا شروع ہو گئے ہیں جن میں ہواجھلنے والا دستی پنکھا بھی شامل ہے۔
مور جہاں انتہائی حساس اور ڈرپوک ہے وہاں سانپوں کا ازلی دشمن بھی ہے ۔یہ جنگل میں زمین پر رینگتے ہوئے سانپ کو پکڑ کر نیچے گرا گرا کر مار دیتا ہے۔ یوں یہ موذی حشرات الارض کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ انسان دوست پرندہ بھی ہے۔ شعرائے کرام نے اس حسین و جمیل پرندے کا تذکرہ اپنی شاعری میں بھی کیا ہے، مثلاً،
؎ ـ کارونجھر دی کور مریں تی ماگہیں نہیں
ماتھی ٹہو کی مور ڈونگر لاگے ڈیپتو
یعنی اپنی زندگی کی آخری سانس تک اس کارونجھرپہاڑ کو مت چھوڑنا۔جس پر کھڑا مور جب ’’کوکتا‘‘ ہے تو پہاڑ روشنی کی مانند جل اٹھتاہے۔ تھر کی صبح کا منظر انتہائی سحر انگیز ہوتا ہے لیکن اس منظر سے محظوظ ہونے کے لیےتھر کے دیہات میں پہنچنا ہوگا،یہاں مختلف جگہوں پر درجنوں مور، پنکھ کھولے محورقص نظر آتے ہیں۔ تھر کے رتیلے ٹیلوں میں بسے گاؤں ، گوٹھوں اور قصبات کا فطری حسن ان موروں کے بغیر ادھورا ہے۔