شیراز الرحمٰن
داراشکوہ برصغیر کی تاریخ میں فلسفی شہزادہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ شہرت شاعر، خطاط اور مصور کی تھی ۔وہ علماءکے ہجوم میں گھرا رہتا تھا۔اس نے کئی کتابیں لکھیں، مجمع الجرین، سفینتہ الاولیاء، جوگ شست، سکینہ اولیاء، حسنات العارفین ، مکالمات داراشکوہ۔ اسے فارسی، عربی، ترکی اور سنسکرت جیسی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔شاہجہاں اور ممتاز محل کا یہ چہیتا فرزند، والدین کی خصوصی محبت اور توجہ کے سبب بچپن سے ہی بھائیوں کے حسد کا ہدف بن گیا تھا۔
دادا جہانگیر کی زندگی میں وہ اپنی سوتیلی دادی ملکہ نور جہاں کے برتاؤ سے بھی پریشان اور افسردہ رہتا۔ وہ اکثر بزرگوں کے مزاروں پر حاضر ہو کر وہاں گھنٹوں گم سم بیٹھا رہتاتھا۔ بڑا بیٹا ہونے کے ناتے باپ کا لاڈلا تھا اور اس کی پرورش بڑے عیش و نعم میں ہوئی۔لڑکپن ہی سے شہزادہ فلسفیوں اور صوفیوں کی محفلوں میں جاتا، اسے فن سپہ گری سے زیادہ علم و فنون سے لگاؤ تھا ۔
شاہجہاں کو معلوم تھا کہ اس کی سلطنت میں اقتدار کے لئے چار بیٹوں کے درمیان جنگ روکنی تقریبا ناممکن ہے، تاہم وہ کسی بھی قیمت پر جنگ کو روکنا چاہتا تھا، جس کی وجہ سے شاہجہاں نے اپنی سلطنت کو چارحصوں میں تقسیم کر دیا۔
شاہ شجاع کو بنگال دیا گیا، اورنگ زیب کو دکن یعنی جنوب کا علاقہ، مرادبخش کو گجرات جب کہ دارا کے حصہ میں کابل اور ملتان آیا، سب نے اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں ، لیکن دارا بادشاہ کے پاس ہی رہا۔ چاروں نے خود کو مضبوط کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، شجاع ، مرادبخش اور اورنگ زیب، جہاں فوجی طاقت حاصل کر رہے تھے وہیں دارا کی کوشش تھی کہ کسی طرح شاہجہاں کو اعتماد میں لے کر تخت پر قبضہ کرلیا جائے۔
طویل وقت تک دارا اور باقی تین بھائیوں کے درمیان شہ اور مات کا کھیل چلتا رہا۔ دارا نے شاہجہاں کو اعتماد میں لے کر کئی ایسے فرمان جاری کروائے، جس سے تینوں بھائی دارا کےسے بدظن ہوگئے۔دار، وقت کے ساتھ ساتھ اتنا مضبوط ہو چکا تھا کہ اس نے شاہی دربار میں شاہجہاں کے قریب ہی اپنا تخت بنوا لیا تھا۔ وہ بادشاہ کی جانب سے احکامات جاری کرنے لگا تھا۔ دارا کو سب سے زیادہ خوف اورنگزیب سے تھا، اس نے ایک نہیں کئی مرتبہ اورنگزیب کے خلاف فرمان صادر کیا ، جس کی وجہ سے اورنگ زیب اور دارا کے درمیان دشمنی مزید گہری ہو گئی۔ اورنگ زیب ، مغل بادشاہوں میں سے وہ سب سے زیادہ مذہبی اور دینی روایات کے حوالے سے سخت تھا۔ اس کی شخصیت اگرچہ تضادات کا مجموعہ تھی۔ وہ نہایت سادہ زندگی بسر کرتا تھا، مغلوں کے روایتی عیش و عشرت کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا، نہ ہی وہ شراب وکباب سے د ل چسپی رکھتا تھا۔
موسیقی بھی ناپسند تھی،جبکہ داراشکوہ کو روحانیت سے گہری دلچسپی تھی، اس نے اسلامی تصوف کے ساتھ دیگر مذاہب کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ اس کی محفل میں ہندو جوگی شامل رہتے، وہ ہندو رسومات میں نہ صرف دل جمعی سے شامل ہوتا بلکہ کسی حد تک بعض نظریات پر یقین بھی رکھتا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک بار اپنے مشیروں کے کہنے پر وہ نمازِجمعہ پڑھنے مسجد چلا گیا تو ایک چھوٹی سی مورتی اپنے کرتے کی جیب میں ڈال کر لے گیا۔ان ہی بے وقوفیوں اور بےاعتدالیوں کی وجہ سے مخالف اسے ملحد کہتے۔
داراشکوہ جوگیوں،گلوکاروں، موسیقاروں اور نشہ کرنے والے فقیروں کی صحبت میں رہتا، وہ خود کو صوفی کہتا تھا۔ اُس نےتصوف پر ایک کتاب بھی لکھی، مگر اس نے صوفیوں، درویشوں سے کچھ حاصل نہیں کیا۔ ایک سچے صوفی کا تاج و تخت سے کیا تعلق؟ تاریخ میں کئی بادشاہ ایسے گزرے ،جنہوں نے اپنے تاج کو ٹھوکر مار کر روحانیت اختیار کی، آج تک دنیا انہیں یاد رکھے ہوئے ہے۔ ایسا ایک بھی درویش نہیں ملے گا، جس نے بادشاہت کی خواہش کی ہو، اس کے لیے جنگیں لڑی ہوں۔
داراشکوہ کی شخصیت بھی تضادات کاشکار تھی۔ شاہ جہاں کا وہ محبوب بیٹا تھا، اس نے اسے ولی عہد مقرر کیا، حالانکہ بادشاہ اچھی طرح جانتا تھا کہ شہزادہ اس منصب کا اہل نہیں۔ داراشکوہ کو اندازہ تھا کہ اس کا بھائی اورنگ زیب اس کا حقیقی حریف ثابت ہوگا۔ اس نے باپ کو کہہ کر ہمیشہ اورنگ زیب کو دارالحکومت سے سیکڑوں میل دور ،مہمات پر بھیجے رکھا کہ کہیں دلی میں رہ کر وہ بااثر سرداروں سے تعلقات نہ قائم کر لے۔ روایت ہے کہ ایک بار ہاتھیوں کے مظاہرے کے موقع پر ایک پاگل ہاتھی نے اورنگ زیب پر حملہ کر دیا۔
نوجوان شہزادے نے دلیری سے تلوار سونت کر ہاتھی کا مقابلہ کیا۔ قریب کھڑے لوگوں نے مداخلت کر کے ہاتھی کا دھیان بٹانے کی کوشش کی، شہزادہ مراد نے بھی اورنگ زیب کو بچانے کی کوشش کی۔ داراشکوہ بادشاہ کے قریب کھڑا تھا، وہ اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں، بےاعتنائی سے اورنگ زیب کو اپنی بقا کی جنگ لڑتے دیکھتا رہا۔ شاید اس امیدپر کہ پاگل ہاتھی اس کے ممکنہ بڑے حریف کا خاتمہ کر دے۔
لیکن ایسا ہوا نہیں۔ اورنگ زیب کو بھی اپنے بھائی کی اس نفرت اور خودغرضانہ سوچ کا اندازہ تھا۔ ایک بار شہزادہ داراشکوہ نے ضیافت دی، بادشاہ اور دیگر شہزادے شامل ہوئے، دعوت محل کے ایک تہہ خانے میں ہوئی۔ کہتے ہیں کہ اورنگ زیب نے نیچے جانے سے گریز کیا اور تہہ خانہ کے دروازے کے قریب ایک سیڑھی پر بیٹھا رہا، بعد میں بادشاہ نے اسے ڈانٹا کہ دسترخوان پر کیوں نہیں آیا۔
اورنگ زیب نے صاف گوئی سے جواب دیا کہ، مجھے خدشہ تھا کہ کہیں، داراشکوہ نے تہہ خانے کی باہر سے کنڈی لگادی تو ہم سب ایک ہی جگہ پر پھنس کر ختم ہوجائیں گے۔ آخر کار دارا شکوہ اور اورنگ زیب کے مابین سامو گڑھ پر جنگ کی نوبت آ پہنچی۔ یہ مقام آگرہ شہر سے دس میل دور ہے۔آج کل فتح آباد کہلاتا ہے۔ اورنگ زیب نے اپنے بھائی،مراد بخش سے اتحاد کر لیا تھا۔ دونوں کی افواج میں چالیس ہزار سپاہی شامل تھے۔دارا کی فوج ساٹھ ہزار سپاہ پر مشتمل تھی۔
اس دوران شاہجہاں نے ایک کے بعد ایک کئی فرمان دارا کو بھیجے، سب میں ایک ہی پیغام تھا کہ وہ جلدبازی نہ کرے اور اپنے بیٹے،سلیمان شکوہ کا انتظار کرے جو کمک لے کر آ رہاہے۔ والد کی فکر سے بے پرواہدارا نے ایک ہی جواب لکھا’’میں اورنگ زیب اور مراد بخش کو ہاتھ پاؤں باندھ کر آپ کے سامنے جلد پیش کروں گا، ویسے بھی کافی دیر ہو چکی ہے۔‘‘ دارا نے بہرحال اورنگ زیب کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی منصوبہ بندی کی تھی۔وہ جنگ کے دوران انتہائی فعال نظر آیااور چاروں سمت گھوم کر اپنے سرداروں اور سپاہیوں کا جوش بڑھا رہا تھا۔
وہ اپنے خوبصورت ہاتھی پر سوار تھا دشمنوں کی توپوں کی جانب بڑھ رہا تھا، اس کا ارادہ کسی بھی طرح اورنگ زیب کو قابو میں کرنے کا تھا۔جلد ہی دارا کے ارد گرد لاشوں کا انبار لگ گیا۔اس کی فوج پر بار بار حملہ ہو رہا تھا ، لیکن وہ تب بھی بے خوف حکم دے رہا تھا۔ حملے میں شدت دیکھ کر توپوں کو زنجیروں سے آزاد کر دیا گیا، لیکن اس کی وجہ سے مخالف فوج پہلی قطار توڑنے میں کامیاب ہوگئی ۔ توپیں ہٹتے ہی دونوں جانب کی فوجیں آپس میں بھڑ گئیں اور جنگ خوفناک ہوتی چلی گئی۔
دارا جنگ کی مہارت میں اورنگ زیب سے کمزور تھا،اس دوران اس کی فوج میں ہم آہنگی کا فقدان نظر آیا۔دارا نے اورنگ زیب کو پکڑنے کی کافی کوششیں کیں ، لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔اورنگ زیب زیادہ دور نہیں تھا۔
دارا جانتا تھا کہ جنگ اسی وقت جیتی جا سکتی ہے جب وہ اورنگ زیب کو پکڑ لے یا اسے مار ڈالے۔ لیکن دارا کی بدقسمتی کہ اسے پہلی بری خبر بائیں جانب سے آئی،جہاں کا مورچہ کمزور پڑ رہا تھا، تب اسے اپنے سرداروں سے پتہ چلا کہ بائیں جانب مامور فوج کے سالار، مارے جا چکے۔اس نے ایک ازبک سپہ سالار،خلیل اللہ خان کو دائیں جانب کے محاذ پر کھڑا کیا تھا،تقریباً بیس ہزار سپاہی اس کے ماتحت تھے۔اس فوج نے اب تک جنگ میں سرگرم حصہ نہیں لیا تھا ۔خلیل اللہ، دارا کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہا تھا کہ وقت آنے پر وہ حملہ کریں گے، مگر ایسا نہیںہوا۔وجہ یہ کہ وہ درپردہ شہزادہ اورنگ زیب سے جا ملا تھا۔
خلیل اللہ نے کہا، سرکار آپ اب بھی اس بڑے ہاتھی پر کیوں سوار ہیں؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ خطرے میں پڑ سکتے ہیں؟ خدا نہ کرے اتنے سارے تیروں میں سے کوئی تیر یا بارود کا گولہ آپ پر گرا تو کیا ہوگا؟ سرکار جلدی سے گھوڑے پر سوار ہوں اور محصور مراد بخش کو فرار ہونے سے قبل گرفتار کرلیں۔‘‘
داراس کی باتوں میں آ گیا ۔وہ فوری طور پر جوتی پہنے بغیر ہی ننگے پاؤں ایک گھوڑے پر جا بیٹھا۔پندرہ منٹ بعد اس نے خلیل اللہ خان کے بارے میں معلوم کیا تو اسے بتایا گیا کہ وہ تو جا چکا۔اب دارا کو احساس ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔اس دوران ہاتھی پر دارا شکوہ کو نہ دیکھ کر شاہی فوج میں یہ افواہ پھیل گئی کہ وہ مارا گیا ہے۔اس افواہ نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔چند منٹ میں شاہی فوج کا ہر سپاہی اورنگزیب کے خوف سے بھاگنے لگا۔ اورنگ زیب اب بھی اپنے ہاتھی پر سوار تھا۔
اگلے چند لمحوں میں جنگ کا پورا منظر نامہ ہی بدل گیا۔ اورنگ زیب ہندوستان کا بادشاہ بن چکا تھا۔ دارا کو وہاں سے بھاگنا پڑا۔ بعد میں اسے پکڑ کے قتل کردیا گیا۔یوں بظاہر ایک عالم فاضل اور صوفی مزاج شہزادہ اپنے ٖغرور اور بدمزاجی کی وجہ سے نہ صرف تخت وتاج حاصل کرنے میں ناکام رہا بلکہ اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔
جب اورنگ زیب دلی کے تخت پر قابض ہوگیا، فرار کی کوشش کرتے وقت داراشکوہ کو گرفتار کر کے دربار میں پیش کیا گیا۔ اورنگ زیب نے پوچھا، فرض کرو آج ہمارے کردار بدل جائیں، تم تخت پر ہو اور میں تمھارے سامنے یوں پیش کیا جاؤں تو کیا کرو گے۔ داراشکوہ نے نخوت سے جواب دیا، تمہارے چار ٹکڑے کرا کر شہر کے چاروں برجوں پر لٹکا دوں گا۔
اورنگ زیب نے شاید پہلے ہیسے فیصلہ کر رکھا ہوگا، مگر اس جواب نے داراشکوہ کی موت پر مہر ثبت کر دی۔داراشکوہ اس لیے ہارا کہ وہ اپنے حریف اورنگ زیب جیسا بہادر، ہوشیار اور ماہر فن حرب نہیں تھا۔ اورنگ زیب نے جو وقت عسکری مہارت حاصل کرنے، جسمانی مشقوں اور اپنی ذہنی صلاحیت بڑھانے میں صرف کیا، داراشکوہ اس وقت جوگیوں،گلوکاروں، موسیقاروں اور نشہ کرنے والے فقیروں کی صحبت میں رہا۔
اقتدار کی جنگ میں زیادہ اہل، زیادہ سخت جان اور ماہر کے حصے میں جیت آتی ہے۔ زندگی کی جنگ کٹھن ہوتی ہے جب کہ، اقتدار کی جنگ اس سے کہیں زیادہ مشکل اور خطرناک ہوتی ہے۔ داراشکوہ اس لیے ہارا ،ہ وہ اپنے حریف اورنگ زیب جیسا بہادر، ہوشیار اور ماہر فن حرب نہیں تھا۔