چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد نے اپنے رفقائے کار جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الحسن کے ہمراہ 28ستمبر تا 2اکتوبر کوئٹہ میں جو پانچ روزہ انتہائی مصروف سماعتی ہفتہ گزارا‘ اس دوران جمعرات کے روز بلوچستان بار کونسل، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور کوئٹہ بار کے ارکان سے مشترکہ خطاب بھی کیا جس میں انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان میں عدلیہ نہ صرف آزاد ہے بلکہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کررہی ہے۔ سیاسی مسائل پر ہاتھ ڈال بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی۔ کچھ چیزیں کورٹ میں بیٹھ کر حل ہو سکتی ہیں‘ امن وامان کا مسئلہ صرف بلوچستان کا نہیں بلکہ ملک بھر میں ایک جیسی صورتحال ہے تاہم اس جن کو قابو میں لانے کیلئے کوششیں کررہے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ بلوچستان کو ملین کے حساب سے پیسے ملتے ہیں لیکن لگتے نہیں۔ لاپتا افراد سے متعلق کیس کے حوالے سے چیف جسٹس نے امید ظاہر کی کہ اس کی سماعت کا بہتر نتیجہ نکلے گا بصورت دیگر ہم اپنے طرز پر کام کریں گے۔ بدھ کے روز وکلاء سے اپنے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ عوام کے حقوق کی محافظ ہے۔ مقدمات نمٹنے میں تاخیر ضرور ہے تاہم ہماری کوشش ہے کہ یہ سلسلہ ختم ہو جائے جس کیلئے مجھے وکلاء کا تعاون چاہئے۔ اس حوالے سے انہوں نے وڈیو لنک کا خاص طور سے ذکر کیا جس کی بدولت بہت سے کیس نمٹائے جا چکے ہیں اور باقی بھی جلد سنے جائیں گے۔ لاپتا افراد کے حوالے سے فاضل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتوں کی کوششوں سے بہت سے افراد بازیاب ہوئے ہیں۔ اب بھی کئی لاپتا ہیں تاہم اس مسئلے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اور اس کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر اُن افراد کا کوئی جرم ہے تو اُنہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ اِس دورے کے دوران بلوچستان ہائیکورٹ سے متعلق اُمور بھی نمٹائے گئے۔ عدلیہ کے علاوہ صوبے کے عوامی مسائل اور اُن کے حل سے متعلق بھی چیف جسٹس کا متذکرہ دورہ نہایت اہمیت کا حامل رہا۔ اُنہوں نے صوبے کو درپیش پانی کے مسئلے میں گہری دلچسپی لی۔ اُنہیں بتایا گیا کہ اُس سے نمٹنے کیلئے سات سو چھوٹے ڈیم بنائے جا چکے ہیں‘ اس کے علاوہ ایک سو ڈیموں کا ایک اور منصوبہ زیرتعمیر ہے جن میں سے 40مکمل ہو چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے اُمید ظاہر کی کہ پانچ بڑے ڈیمز کی تعمیر سے صوبے میں پانی کے مسئلے میں کمی آئے گی۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے گوادر میں آر او پلانٹس کو فعال کرنے کے احکامات بھی دیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ پاکستان کی ترقی چاہتے ہیں۔ اِن لوگوں کو بھی دوسرے صوبوں کی طرح اہمیت دی جائے۔ چیف جسٹس کا متذکرہ دورہ جہاں عدالتی نقطۂ نظر سے مطلوبہ اہمیت کا حامل ہے‘ وہیں اس کی بدولت شاہرات اور پانی کے اہم ترین مسائل کے حل پر پیشرفت ہوئی۔ گو کہ ماضی قریب و بعید میں صوبے کی ترقی و خوشحالی کیلئے کمیٹیاں بھی بنیں۔ حکام نے دورے بھی کئے لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ یہ وہ صوبہ ہے جس کے عوام کی اکثریت خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ صحت‘ تعلیم‘ پینے کا پانی‘ شاہرات‘ شہری سہولتوں کی عدم فراہمی اور بیروزگاری اس کے بنیادی اسباب ہیں۔ دوسری طرف دہشت گرد عناصر صوبے کا امن تہہ و بالا کرنے کے درپے ہیں، جن کی بیخ کنی ہی خوشحالی کی طرف پہلا قدم ہوگا۔ رقبے کے لحاظ سے ملک کا یہ سب سے بڑا صوبہ نہ صرف معدنی دولت سے مالامال ہے بلکہ 700کلومیٹر سے زیادہ طویل سمندری پٹی‘ ایران و افغانستان سے جڑی سرحدیں بین الاقوامی تجارت اور سیاحت کیلئے نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ صوبے کے لوگوں کی ترقی وخوشحالی کیلئے ضروری ہوگا کہ بلوچستان ڈویلپمنٹ پروگرام کو بلاتعطل آگے بڑھایا جائے۔