اسلام آباد (رپورٹ :رانا مسعودحسین ) عدالت عظمیٰ نے جنگ،جیو میڈیا گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمان کے خلاف 34سال پرانے جائیداد کے ایک معاملہ کے حوالے سے قائم کئے گئے نیب کے ریفرنس میں ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست خارج ہونے کے لاہور ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ کے فیصلے کیخلاف میر شکیل الرحمان کی جانب سے دائر کی گئی اپیل کو نئے بنچ کے سامنے سماعت کیلئے مقرر کردیا ہے۔
جمعہ کے روز جاری کی گئی سپریم کورٹ کی کاز لسٹ کے مطابق جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل تین رکنی بنچ 8اکتوبر کوکیس کی سماعت کرے گا ،اس حوالے سے پراسیکیوٹر جنرل نیب سمیت متعلقہ فریقین کو نوٹسز جاری کردیے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل 30ستمبر کو جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تھی اور جسٹس عمر عطا بندیال نے ذاتی وجوہات کی بناء پر اس کیس کی سماعت کے معذرت کرتے ہوئے کیس کسی اور تین رکنی بنچ کو بھجوانے کے انتظامی حکم کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوادیا تھا۔
دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل خواجہ حارث احمد نے درخواست گزار میر شکیل الرحمان اور ان کی اہلیہ کی جانب سے اس سے قبل دائر کی گئی دو اپیلوں کو بھی اسی کیس کے ساتھ یکجا کرنے کی استدعا کی تھی ،جسے فاضل عدالت نے منظور کرتے ہوئے متعلقہ آفس کو دونوں اپیلوں کو اس کیس کیساتھ یکجا کرنے کی ہدایت کی تھی۔
یاد رہے کہ جسٹس احمد نعیم اور جسٹس فاروق حیدرپر مشتمل لاہور ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ نے 8جولائی کومیر شکیل الرحمان کی درخواست ضمانت بعداز گرفتاری خارج کی تھی ،جس پرانہوں نے 11 ستمبر کو سپریم کورٹ میں یہ اپیل دائر کرتے ہوئے فاضل عدالت سے لاہور ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں ضمانت پر جیل سے رہا کرنے کا حکم جاری کرنے کی استدعا کی ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ نیب حکام کی جانب سے میر شکیل الرحمان کو گرفتارکرکے قید میں ڈالے ہوئے آج 204دن ہوگئے ہیں، ا پیل گزار میر شکیل الرحمان کی جانب سے خواجہ حارث احمد ایڈووکیٹ کے ذریعے دائر کی گئی اپیل میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ اس مقدمہ میں اپیل گزار کے علاوہ تین اور افراد کو بھی نیب کے ریفرنس میں نامزد کیا گیا ہے جن میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ میاں پنجاب نواز شریف ، اس وقت کے ڈی جی ایل ڈی اے ہمایوں فیض رسول اور ڈائریکٹر لینڈ ڈیویلپمنٹ شامل ہیں۔
نواز شریف تو ملک سے باہر ہیں لیکن دیگر دونوں ملزمان کو وارنٹ تک جاری نہیں کئے گئے ہیں جبکہ اپیل گزار کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ہے ،کیا یہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہے ،اپیل گزار تو کوئی عوامی نمائندہ بھی نہیں ہے۔
اپیل گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ کیا لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے ان کی اپیل کو خارج کرکے مسول علیہ نیب کے درپردہ خفیہ مقاصد ،مروجہ قوانین اور حقائق کو نظر انداز نہیں کیا ہے؟ کیا ان کی گرفتاری اور مسلسل قید میں رکھنا ایک ملزم کا جرم ثابت ہونے سے قبل اسے معصوم تصور کرنے اورجرم ثابت ہونے سے قبل ہی اس کا ٹرائل کرنے کے مترادف نہیں ہے ؟ اور کیاقانون کے مطابق برابری کے اصول سے متصادم نہیں ہے ؟
اگر کوئی بے ضابطگی بنتی بھی ہو تو بھی اسے ایل ڈی اے کے قانون کے مطابق نمٹا جاسکتا ہے ،ایل ڈی اے کے اپنے قوانین موجود ہیں جبکہ نیب آرڈیننس کی دفعہ 5آر کے تحت اپیل گزار کو ایک ماہ قبل نوٹس جاری کرنے کا تقاضہ بھی پورا نہیں کیا گیا ہے ،ان حالات میں کیا ا پیل گزار کی گرفتاری اور مسلسل قید میں رکھنا روز اول سے ہی غیر قانونی اور آئین کے آرٹیکل ہائے 9,10a,14,15 25سے متصادم نہیں ہے۔
درخواست گزار نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا ایک زیر تفتیش مقدمہ میں ان کی گرفتاری اور انہیں مسلسل قید میں رکھنا ،جرم ثابت ہونے تک ملزم کو معصوم تصور کیے جانے ، کے نظریہ کی نفی اور بغیر ٹرائل کے ہی ملزم کو سزا دینے کے مترادف نہیں ہے؟کیا یہ ایک ملزم کے ساتھ آئین کے آ رٹیکل 4کے تحت مساوی سلوک کرنے کے اصول کی خلاف ورزی نہیں ؟
آیا کہ 4کنال 12مرلے اراضی کی موجودہ مارکیٹ ویلیو14کروڑ 35لاکھ 30ہزار روپے کی ایل ڈی اے کو عدم ادائیگی کی بنا پر قانونی ضابطے پورے کئے بغیر درخواست گزار کے خلاف نیب آ رڈیننس کی کسی بھی دفعہ کے تحت ریفرنس قائم کیا جاسکتا ہے ؟ کیادرخواست گزار کی گرفتاری اور قید میں رکھنے کا عمل روز اول سے ہی غیر قانونی اور آئین کی متعدد شقوں سے متصادم نہیں ہے؟
درخواست گزار نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا ایل ڈی اے کو عدم ادائیگی کی پاداش میں لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے ان کی ضمانت کی درخواست کو مسترد کرنا اور نیب کی جانب سے انہیں کسی مجاز عدالت سے سزا ملے بغیر ہی مسلسل قید میں رکھنا آئین کے آرٹیکل 10اے کے تحت ڈیو پراسس کے اصول کی پامالی نہیں ہے ؟
یاد رہے کہ 11ستمبر 2020کو درخواست گزار میر شکیل الرحمان نے اپنے وکیل خواجہ حارث احمد کے ذریعے آ ئین کے آرٹیکل 185تھری کے تحت پٹیشن فار لیوو ٹو اپیل دائر کی تھی ،جس میں چیئرمین نیب ،ڈی جی نیب لاہور اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر /تفتیشی افسر نیب لاہور عا بد حسین کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیاہے کہ انہیں28فروری 2020کو نیب کی ڈپٹی ڈائریکٹر(کوآرڈینیشن)کمپلینٹ ویری فکیشن سیل ، بینش نعمان کے دستخطوں سے نیب لاہور آفس میںطلبی کا نوٹس موصول ہواجس کے متن سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ یہ34سال پرانے معاملہ سے متعلق ایک شکایت کی تصدیق کے عمل کے دوران جاری کیا گیا ہے۔
نوٹس میں درخواست گزار کو ایچ بلاک جوہر ٹائون فیز ٹو لاہور میں 54 پلاٹوں سے متعلق استثنیٰ کے حوالے سے ریکارڈ سمیت ذاتی طور پر پیش ہونے کی ہدایت کی گئی تھی ، اس حقیقت کے باوجود کہ شکایت کی تصدیق کے عمل کے دوران نہیں بلکہ نیب آ رڈیننس 1999کی دفعہ 19کے تحت طلبی کے نوٹس کے ذریعے ہی کسی شخص کو انکوائری یا تفتیش کے دوران ہی طلب کیا جاسکتا ہے۔
درخواست گزار نیب کے طلبی کے نوٹس کے احترام میں 5مارچ کو نیب لاہور کے ٹھوکر نیاز بیگ کے آفس میں 5مارچ کو پیش ہوا ،جہاں نیب کے چند افسران نے ایل ڈی اے کی جانب سے درخواست گزار کو 1986میں180کنال 18مرلے ایکوائر کی گئی اراضی کے بدلے میں 54کنال 4مرلے کی اراضی پر درخواست گزار کے پیش روئوں کے حق میں دیئے گئے استثنیٰ سے متعلق پوچھ گچھ کی ،چونکہ یہ 34سال پرانا معاملہ تھا اس لئے درخواست گزار اپنے ساتھ کچھ نوٹس جو اس نے اپنی یاداشت سے تیار کئے تھے اور کچھ دستاویزات جوکہ اس وقت دستیاب تھیں ساتھ لیکر گیا،اور وہ نوٹس اور دستاویزات تفتیشی افسران کے ساتھ شیئر کیں۔
تاہم نیب افسران کے رویے سے عیاں تھا کہ انہیں درخواست گزار کے موقف یا دستاویزات کیساتھ کوئی دلچسپی نہیں ،اور انہوں نے واضح الفاظ میں کسی بھی قسم کا سوالنامہ دینے سے انکار کردیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی درخواست گزار کی جانب سے طلبی کے نوٹس کے جواب میں تیار کیا گیا تحریری جواب وصول کیا،جس پر درخواست گزار نے ان کی موجودگی میں ہی دستخط کئے تھے۔
11مارچ کو درخواست گزار کو ڈپٹی ڈائریکٹرکمپلینٹ ویری فکیشن سیل نرمل حسنی کی جانب سے 12مارچ سہ پہر 3بجے کے لئے نیب آفس میں طلبی کا ایک اورنوٹس موصول ہوا ،درخواست گزار کے مطابق طلبی کا یہ نوٹس بھی شکایت کی تصدیق کے عمل کے دوران ہی موصول ہوا ،جس کی نیب کے قانون میں کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔
اس نوٹس میں درخواست گزار کو بھجوائے جانے والے پچھلے طلبی کے نوٹس اور درخواست گزار کی جانب سے نیب کے آفس میں پیش ہونے اور اپنا تحریری جواب داخل کروانے کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا ،تاہم اس کے ساتھ ایک سوالنامہ لف تھا اور درخواست گزار کو ان سوالوں کے مفصل جوابات داخل کرنے کی ہدایت تھی۔
درخواست گزار کے مطابق انہیں روز اول سے ہی اندازہ تھا کہ 34سال قبل اراضی کا معاملہ جس میں ایل ڈی اے یا کسی اور مجاز اتھارٹی یا سابق مالکان اراضی کو کوئی مسئلہ ہی نہیں ، کو نیب کی جانب سے اٹھانا خلاف قانون ہے اور مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ میں نے اس معاملے میں کوئی غلط کام نہیں کیا ہے لیکن اس کے باوجود نیب کے نوٹس پر اپنی پوزیشن واضح کرنے کیلئے نیب آفس میں پیش ہوا۔
درخواست گزار کے مطابق کسی بھی کیس کے حقائق کو اس طریقے سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے جس طرح درخواست گزار کے خلاف 34سال پرانے معاملہ میں چیئرمین نیب نے بدنیتی سے اسلام آباد میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کرکے اور نیب لاہور کے اہلکاروں نے لاہورمیں درخواست گزار کو گرفتار کرکے کیا ہے۔
درخواست گزار کے مطابق 12مارچ کو بھی یہ معاملہ شکایت کی تصدیق کی حد تک چل رہا تھا اور مجھے سوالنامہ کے جوابات داخل کرنے کیلئے طلبی کا نوٹس جاری کیا گیا تھا ، جبکہ اسی روز ہی چیئرمین نیب نے No.F.No.3-1(1) (7599)L/MW-I/NAB HQ/2020 dated 12th March, 2020 کے تحت ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم کو میرے خلاف انکوائری کرنے کا اختیار بھی تفویض کردیا ،جس پر انہوں نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عابد حسین کو میرے خلاف انکوائری شروع کرنے کا حکم جاری کردیا تاکہ مجاز حکام کو رپورٹ پیش کی جاسکے، اسی روز ہی چیئرمین نیب نے میری گرفتاری کے وارنٹس بھی جاری کردیے۔
گرفتاری کے گرائونڈز کے مطابق بھی اس روز تک کسی قسم کا کوئی ثبوت اکٹھا نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی کسی گواہ کا کوئی بیان قلمبند کیا گیا تھا، 12مارچ کی صبح تک سارامعاملہ شکایت کی تصدیق کی حد تک ہی تھا جبکہ اسی روز ہی انکوائری کی اجازت بھی دی گئی تھی۔
درخواست گزار کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ نے ریکارڈ ، حقائق اور مسول الیان کی بدنیتی اور مذموم مقاصد کا جائزہ لئے بغیر ہی ان کی رٹ پٹیشن اور ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست خارج کی ہے ،جوکہ مسول علیان کے رویے سے عیاں تھے۔
درخواست گزار نے بیان کیا ہے کہ وہ سنسناہٹ(کانوں کی بیماری)نیند کی بیماری ، سانس کی خرابی ، ہائپر وینٹیلیشن اور اضطراب جیسے امراض کا شکار ہیں،ان کی تازہ ترین میڈیکل رپورٹوں کے مطابق ان کے گردوں میں بھی تکلیف ہے اورپیشاب میں خون آتا ہے ،جبکہ جوڈیشل قید کے دوران ان کے چیک اپ کے بعد ڈاکٹروں نے انہیں ٹیومر/کینسر ہونے کے خدشے کا بھی اظہار کیا ہے۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ انہیں مسلسل قید میں رکھا ہوا ہے جبکہ اسی دوران ان کا ایک بھائی اور ایک بہن بھی کینسر کی وجہ سے وفات پاگئے ہیں،انہوں نے مزید بیان کا ہے کہ ان کے والدین سمیت خاندان کے 9ممبران میں سے 6کو کینسر تھا،اس لئے انہیں گھر میں رہ کر ڈاکٹروں کی مسلسل نگرانی کی ضرورت ہے ،اور ڈاکٹروں سے علاج معالجہ کروانے کیلئے ان کی رہائی نہایت ضروری ہے ،ان کی مسلسل قید سے ان کی بے چینی اور ضطراب کے امراض میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے ،جوکہ ان کی بیماریوں کو مزیدمہلک کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ وہ پچھلے 7ماہ سے مسلسل قید میں ہیں،جس سے انکی بیماریوں میں شدت پیداہو رہی ہے ،اور ان کی صحت کی حالت دن بدن بگڑ رہی ہے ،اور وہ اپنی 94سالہ والدہ کی خدمت کرنے سے بھی محروم ہیں،جو حال ہی میں اپنے دو بچے (بیٹا اور بیٹی )کھو چکی ہیں،ان کی ضمانت بعد از گرفتاری کا مقدمہ انتہائی مشکلات(Extreme Hardship) کے زمرہ میں آتا ہے ،اور ان کی ضمانت پر رہائی نہایت ضروری ہے۔
درخواست گزار نے فاضل عدالت سے ʼʼ پٹیشن فار لیوو ٹو اپیلʼʼ کو اپیل میں تبدیل کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے انکی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست خارج کرنے کے 8جولائی 2020کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے اور انہیں ضمانت دیتے ہوئے رہا کرنے کا حکم جاری کرنے کی استدعا کی ہے۔