• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمّد ریاض علیمی

ہمارے ایک دوست، جو بہت ہی خُوب لکھتے ہیں، ایک روز اُن کی شان دار تحریر پڑھ کر ہمارا بھی دِل چاہا کہ کیوں ناں کچھ لکھا جائے۔ بہت سوچ بچار کے بعد ایک موضوع سوجھا اور قلم تھام کر لکھنا شروع کیا، مگر ایک دوسطر کے بعد کچھ لکھا ہی نہ گیا۔ایک گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا، قلم ہاتھ میں ویسے کا ویسا ہی رہا۔پھر اس خیال سے دِل کو تسلی دینے کی کوشش کہ جب اسکول کے زمانے میں کبھی لکھنے کی کوشش نہیں کی، تو آج کیسے یکایک لکھنا آجائے گا؟ بغیر کوشش اور محنت کےکچھ نہیں ہوتا۔اور واقعی ہمارے تعلیمی نظام کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ نہ تو لکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور نہ ہی کروائی جاتی ہے۔ 

ہمارے یہاں جب سے نصاب رَٹنے اور نقل کا کلچر عام ہوا ہے، میٹرک پاس طلبہ خود سے ایک درخواست یا خط بھی نہیں لکھ پاتے۔ اس نظام کی خرابی ہی کی وجہ سےزیادہ تر طلبہ کی ذہنی صلاحیتیں ماند پڑجاتی ہیں۔ان کی تگ و دو محض کتاب اور کاپی میں موجود سوال و جواب یاد کرنے تک محدود رہتی ہے۔

پھر جب پانی سَر سے گزر جاتا ہے، تو احساس ہوتا ہے کہ ہم سند یافتہ تو ہیں، مگر تعلیم یافتہ نہیں۔درحقیقت ہمارے پاس سوائے ڈگری کے کاغذ کے کچھ نہیں۔ لیکن کچھ نوجوان ایسے بھی ہیں، جوتحریری میدان میں کچھ کرنا تو چاہتے ہیں، مگر ابتدائی طور پر رہنمائی نہیں مل پاتی کہ کیا لکھیں اور کیسے لکھیں۔ تحریر کا آغاز اور اختتام کس طرح کریں۔توسب سے پہلے تو خواب و خیال کی باتیں ذہن سے نکال دیں کہ آپ یک دَم ہی بہترین لکھاری بن جائیں گے، چار دانگِ عالم آپ کا ڈنکا بج جائے گا، لوگ اش اش کر اُٹھیں گے یا پھر کوئی انقلاب آجائے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔

بڑے بڑے لکھاریوں نے بھی خود کو منوانے کے لیے مسلسل پریکٹس کی، یونہی بیٹھے بٹھائے لکھاری نہیں بن گئے۔ لکھنے کا تعلق ذہن سے ہوتا ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جو ہمارے ذہن میں موجود ہوتا ہے،وہی قلم کی نوک پر آجاتا ہے۔انسان کے ذہن میں ہر وقت خیالات آتے، جاتے رہتے ہیں۔کبھی کوئی ایک بات آجاتی ہے، تو کبھی دھیان کسی اور طرف نکل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب لکھنے بیٹھتے ہیں، تو سمجھ نہیں آتا کہ شروع کہاں سے کریں۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ سب سے پہلے اس بات کا تعین کیا جائے کہ کس موضوع پر لکھنا ہے۔

پھر اگلے مرحلے میںمنتخب کردہ موضوع پر غور وفکر شروع کریں کہ اس کی کس جہت پر لکھنا ہے۔ اگر آپ ایسا کرنے میں کام یاب ہوگئے، تو سمجھ لیں کہ آپ کا آدھا کام تو ہو گیا۔ اس کے بعدمنتخب کردہ موضوع کے متعلق ذہن میں جو کچھ بھی آئے،فوراً ضبطِ تحریر میں لے آئیں۔ اس بات کی فکر نہ کریں کہ آپ کے لکھے جملے بے ربط ہیں یا الفاظ کا چناؤ اچھا نہیں۔ جو ذہن میں آرہا ہے، بس لکھتے جائیں کہ لکھنا، لکھنے ہی سے آتا ہے۔ جب آپ اپنے خیالات ضبطِ تحریر میں لے آئیں گے، توخودہی ان جملوں کو ربط میں لانے کا کام آسان ہوجائے گا،کیوںکہ جب لکھا ہوا نظروں کے سامنے ہو،تو پڑھتے ہوئے خود ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ کون سا جملہ پہلے آنا چاہیے اور کون سا بعد میں ۔ 

اگلے مرحلے میں نئے صفحے پر جملوں کو ترتیب وار لکھنا شروع کردیں۔ جملے ترتیب وار سامنے آنے کے بعد پھر اپنی تحریر کو سامنے رکھ کر نظرِ ثانی کریں اور غور کریں کہ کون سا جملہ اضافی اور غیر ضروری ہے۔ اسی طرح الفاظ پر بھی دھیان رکھیں کہ کس جگہ کون سے لفظ کا استعمال زیادہ مناسب ہے۔ ابتدا میں تھوڑی مشقّت توضرور ہوگی، لیکن مسلسل پریکٹس سے آپ ایک ہی مرتبہ میں اپنی تحریر کو ترتیب کے ساتھ لکھنے کے قابل ہوجائیں گے۔ شروع میں طویل تحریر لکھنے کی ہرگز کوشش نہ کریں، ورنہ آپ اُکتا جائیں گے۔مطالعےکے بغیر تحریر میں پختگی نہیں آسکتی، لہٰذا معیاری کتب پڑھیں۔ پھر کتابیں پڑھنے سے جملوں میں ربط پیدا کرنے کا بھی ڈھنگ پیدا ہوتا ہے۔

دورانِ تحریر انتہائی اہم نکتہ سرقہ بازی سے بچنا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی بیماری ہے، جس سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا خاصا مشکل ہوجاتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نوجوان سستی شہرت حاصل کرنے کی خاطر کسی اور کا مضمون اپنے نام سے شایع کروادیتے ہیں۔ یا کسی کے مضمون میں محض معمولی ہیر پھیر کرکے اپنا نام لکھ لیتے ہیں۔ یہ ایک علمی بددیانتی ہے۔اس سے اجتناب ضروری ہے۔ اگر آپ کسی مفکّر کی کوئی بات اپنے مضمون میں نقل بھی کریں، تو اس کا حوالہ لازماً دیں کہ اس امر کو مستحسن سمجھا جاتا ہے۔ تحریر کے میدان میں دوسرا مرحلہ تنقید برداشت کرنے کا ہے۔ 

اپنی تحریر پر تنقید، اپنی توہین نہیں، اصلاح کا ذریعہ سمجھیں۔ ضروری نہیں کہ آپ کی تحریر سب کو پسند آجائےکہ بعض افراد آپ کی تحریر زبان دانی کے اعتبار سے دیکھیں گے، تو بعض اس کی سلاست و روانی پر توجّہ دیں گے۔ اس کے متعلق تبصرے بھی کیے جائیں گے۔ الغرض، آپ کسی بھی میدان میں قدم رکھیں، تنقید سے نہیں بچ سکتے، لہٰذا جس سے بچ کر گزرنا ممکن ہی نہیں ، تو پھر اسے خودپر حاوی بھی نہ ہونے دیں۔ اگر واقعی آپ کے اندر کوئی خامی موجود ہے، تو اسے دُور کرنے کی کوشش کریں اور اگر تنقید حسد کی بنیاد پر بے جا ہے، تو اس پر کان دھرنے کی بجائے استقامت سے اپنا کام کرتے رہیں۔ ایک وقت آئے گا کہ آپ کا شمار بھی بہترین لکھاریوں میں ہونے لگے گا۔

تازہ ترین