کسی بھی معاشرے کی تعمیر وترقّی میں تعلیم بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل، 25-اے کے تحت ہر(پانچ سے سولہ برس کے) پاکستانی بچّے کو مفت تعلیم فراہم کرنا حکومتِ پاکستان کی ذمّے داری ہے۔ یہ تو ہوئی آئین کی بات ، اب اگر صوبے کی بات کی جائے، تو 2017 ءمیں صوبۂ خیبر پختون خوا نے ابتدائی و ثانوی مفت تعلیم مہیا کرنے کے حوالے سے قانون سازی بھی کی تھی۔ صوبائی دارلحکومت ،پشاور سے صرف ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر واقع ضلع کوہاٹ کی یونین کاؤنسل ،سوڈل4ویلیج کاؤنسلز کا مجموعہ اور صوبائی اسمبلی کے حلقے پی- کے81کاحصّہ ہے۔یہاں کی آبادی22 ہزار نفوس پر مشتمل ہے، لیکن علاقے کی تین ویلیج کاؤنسلزتا حال گرلزہائی اسکولز سے محروم ہیں۔
حالاں کہ شویکی میں ہائی اسکول موجودہے،مگر وہ دیگرکاؤنسلز سے 10 سے 22 کلو میٹر دُور ہے، لہٰذا تین ویلیج کاؤنسلزکی بچّیاں ہائی اسکول جانے، میٹرک کرنے سے صرف اس لیے محروم رہ جاتی ہیں کہ ہائی اسکول اُن کے علاقے سے 12 کلو میٹر دُور ہے۔ گاڑی کےکرایوں کی مَد میں 2000 فی طالبہ ادا کرنے کی ان کے والدین کی استطاعت نہیںاور پیدل جانابھی ممکن نہیں کہ سیکیوریٹی کے مسائل آڑے آجاتے ہیں۔ اسی وجہ سے بچیاں آٹھویں کلاس کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہی رہتی ہیں، تو عام طور پر والدین کم عُمری ہی میں اُن کی شادیاں کر دیتے ہیں، جس سےایک طرف تو بیش تر لڑکیوں کا مزید تعلیم حاصل کرنے کا شوق ،ارمان بن کر د ل ہی میںرہ جاتاہے۔اس حوالے سے یونین کاؤنسل کے سابق ناظم ،عزیز ا لرحمان کا کہنا ہےکہ ’’یو سی سوڈل ایک پس ماندہ علاقہ ہے، جہاں لڑکیوں کے تین مِڈل اسکولز ہیں۔
دوسری جانب، تین ویلیج کاؤنسلز کی آبادی ساڑھے گیارہ ہزار ہے، جہاں لڑکوں کے تین چار ہائی اسکولز ہیں، لیکن لڑکیوں کے لیے ایک بھی ہائی اسکول موجود نہیں۔سوڈل میںقائم ایک گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول کو 2013ء میں مِڈل کا درجہ دیا گیا تھا۔ تاہم، چھے سال کا عرصہ گزرنے کے بعدبھی اسے ہائی اسکول کا درجہ نہیں مل سکا۔ واضح رہے کہ مذکورہ اسکول8 کنال اراضی پر مشتمل ہے، جس میں مزید کمرے بنانے کی بہت گنجائش ہے۔ اگر تعلیمی فنڈز سےکچھ رقم لے کر یہاںمزید کمرے تعمیر کر دئیے جائیںاور اسے ہائی اسکول کا درجہ دے دیا جائے، تو تین دیہات کی بچیاں میٹرک تک بآسانی تعلیم حاصل کرسکیں گی۔
مَیں اس حوالےسے متعد ّد مرتبہ محکمۂ تعلیم اور علاقے کے رُکنِ صوبائی اسمبلی سے درخواست کر چُکا ہوں۔ تاہم، کوئی پرسانِ حال نہیںہے ۔‘‘اس حوالے سےعلاقہ مکین اور حال ہی میں مِڈل پاس کرنے والی ایک طالبہ کے والد، نسیم شاہ نے کہا کہ ’’ہمارے علاقے کی بچیّوں کو پڑھائی لکھائی کا بہت شوق ہے اور ہم بھی لڑکیوں کی تعلیم کے حامی ہیں، تاکہ وہ آنے والی نسلیں سنوار سکیں۔ لیکن مزید تعلیم کے لیے انہیں مِیلوں دُور نہیں بھیج سکتے۔ اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمارے علاقے میں موجود مِڈل اسکول کو ہائی اسکول کا درجہ دیا جائے، تاکہ ہماری بچّیاں کم از کم ہائی اسکول تک تو بآسانی تعلیم حاصل کر سکیں۔‘‘
اسی مسئلے سے متعلق علاقے کے رہائشی اور قریشی ویلفیئر آرگنائزیشن کے سربراہ، جمال حُسین کا کہنا ہے کہ ’’بے شک ہمارے علاقے کے لوگ غریب ہیں، مگر لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بچّیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔پاکستانی لڑکیاں بہت ذہین اور با صلاحیت ہیں، انہیں موقع ملے تو وہ دنیا بَھر میں اپنی صلاحیتوںکا لوہا منوا سکتی ہیں۔ لیکن اگر ہم لڑکیوں کی تعلیم پر توجّہ نہیں دیں گے، تو آنے والی نسلیں بھی جہالت کی تاریکی ہی میں گُم رہیں گی۔ ‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’ہمیں بہت زیادہ نہیں، بس اتنا ہی فنڈ چاہیے کہ اسکول میں دو کمرے بن جائیں۔ علاوہ ازیں، اساتذہ بھی فراہم کیے جائیں، جو ان بچیّوں کو ہائی اسکول میں زیورِ تعلیم سے آراستہ کرسکیں۔ اس طرح ہر سال یہاں کی متعدّد بچّیاں کم از کم میٹرک تک تو تعلیم حاصل کرہی لیں گی۔ ‘‘اسی علاقے سے منتخب خیبر پختون خوا اسمبلی کےرکن ،میجر (ر) شاہ داد نے کہا کہ’’ ہم لڑکیوں کی تعلیم کے حامی ہیں۔
مَیں متحدہ مجلسِ عمل کے پلیٹ فارم سے ایم پی اے منتخب ہوا ہوں۔ 2018-2019 ء میں ہمیں کوئی بجٹ نہیں ملا اور نہ ہی 2019-2020 ءمیں ترقیاتی کام ہوسکے ۔ ایم پی اے فنڈمیں مجھےساڑھے تین کروڑ روپے تو دئیے گئے، لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے واپس لے لیے گئے۔وہ پیسے بھی یہ کہہ کر دئیے گئےتھے کہ نیا کچھ نہیں بنا سکتے، بس مرمّت وغیرہ ہی کر سکتے ہیں، توہم علاقے میں نئے اسکول یا کمرے کیسے بنائیں ، جب حکومت ہی ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرتی۔ جب کہ سوئی گیس اور تیل کی مَد میں بھی ہمارا حق ماراجا رہاہے ۔
کرک کے بعد میرے حلقے سے مُلک بَھر میں گیس فراہم کی جارہی ہے، لیکن ہمارے ہی علاقے میں نہ تو گیس کنیکشنز ہیں اور نہ ہی ہمیںرائلٹی دی جاتی ہےکہ اس سے حاصل ہونے والی رقم ہی ترقیاتی کاموں میں استعما ل کی جا سکے۔فیصلہ کیا گیا تھا کہ گیس اور تیل سے حاصل ہونے والی آ مدنی کا دس فی صد علاقے میں لگایا جائے گا، لیکن عملاً ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ اب یا توحکومت ہمارے بقایاجات ادا کرے یا پھر خود ترقیاتی کام کروائے، جن میں اسکولزمیں سہولتوں کی فراہمی اور اَپ گریڈیشن بھی شامل ہو۔‘‘
اگر بجٹ 21-2020 ء پر ایک نظر ڈالی جائےتو خیبر پختون خوا میں 923 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا۔صوبائی وزیرِخزانہ ،تیمور سلیم جھگڑا کے مطابق سالانہ بجٹ میں صحت کے شعبے کے لیے 124ارب روپے اورسالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے مجموعی طور پر317ارب روپے مختص کیے گئے، جن میں سے104 ارب صوبائی ، 44 ارب اضلاع ترقیاتی پروگرام اورتعلیم کے لیے 30 ارب 20 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
صوبے میں تعلیم کی صورتِ حال پر بات کرتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے کام کرنے والی ایک تنظیم،بلو وینز کے پروگرام کوآرڈینیٹر،قمر نسیم کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان میں 22.8 ملین بچّے اسکول نہیں جاتے، جن کی ایک بڑی تعداد لڑکیوں پر مشتمل ہے ۔جب کہ خیبرپختون خوا میں لاکھوں بچّے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے، جن کی مختلف وجوہ میں ایک وجہ اسکولز، اساتذہ کا نہ ہونا اور اسکولز میں سہولتوں کا فقدان ہے۔سو اس حوالے سے حکومت کو ٹھوس اقدامات کرنے پڑیں گے۔‘‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’ خیبر پختون خوا کےمفت لازمی تعلیم کے قانون 2017ءکے نفاذ کے قواعد و ضوابط کو فوری طور پر تشکیل دیا جائے، تاکہ قانون پر جلد از جلدعمل درآمد ہو سکےاور تمام لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم حا صل کرنے کے مواقع میسّر آسکیں۔‘‘اس ضمن میں رکنِ صوبائی اسمبلی، شگفتہ ملک نے کہا کہ ’’ اگر پاکستان تعلیمی بحران سے نمٹنا چاہتاہے، تو کُل بجٹ کا کم از کم 6 فی صد تعلیم پر خرچ کرناہوگا۔ لڑکیوں کی ثانوی تعلیم کی تکمیل کی راہ میں کئی دشواریاں حائل ہیں،ان کی ثانوی تعلیم پر بجٹ کا بڑا حصّہ خرچ ہونا چاہیے۔مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو آئین میں دی گئی بنیادی حقوق کی ضمانتوں اور وضع کردہ قوانین کے مطابق تعلیمی سہولتوں کو بہتر بنانا ہوگا اور اس حوالے سے عوامی جواب دہی کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔‘‘