• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ شخص بہت غور سے، انہماک سے، حیران ہوتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کی تقریر سن رہا تھا۔ اس طرح کی کئی تقریریں عمران خان پہلے بھی کر چکے تھے مگر تعجب کی بات ہے کہ اس شخص نے پہلے کبھی عمران خان کی دس ہزار مرتبہ کی ہوئی تقریر نہیں سنی تھی۔ عمران خان اپنی تقریرمیں پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی باتیں کررہا تھا۔ وہ شخص غیر معمولی ذہنی کیفیت سے عمران خان کی تقریر سن رہاتھا۔ وہ تقریر سن رہا تھا اور تقریر کے ماحصل کے بارے میں سوچتا جارہا تھا۔ پاکستان جب ریاستِ مدینہ کے طرز پر چلنے لگے گا تب پاکستان کیسا لگے گا؟ تب ریاست مدینہ کی طرز پر چلنے والے پاکستان کا سربراہ عمران خان کلین شوClean shaveنہیں ہوگا۔ وہ تین سو کنال کی اراضی کے بجائے عام آدمیوں کی طرح تین مرلے کے گھر میں رہائش پذیر ہوگا۔ چونکہ ریاستِ مدینہ کے والی کی طرح عمران خان کا پکا اعتبار اور اعتقاد موت کے متعین دن پر ہوگا، وہ اپنے لا تعداد باڈی گارڈز کو فارغ کردےگا۔ وہ جان چکا ہوگا کہ موت کا مقرر وقت، دن اور تاریخ کوئی نہیں بدل سکتا۔ دنیا بھر کی سیکورٹی ہونی کو انہونی نہیں کر سکتی۔ عمران خان کے منہ سے پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے کی باتیں سن کر وہ شخص سوچ رہا تھا کہ اب عمران خان ڈرائنگ روم کی طرح سجے سجائے آفس میں نہیں بیٹھے گا۔ اس کا آفس ریاستِ مدینہ کے حکمران کے آفس کی طرح سادگی کی مثال ہوگا۔ خود چٹائی پر بیٹھے گا اور آنے والے لوگ بیرون ملک کے سفیر ، وزیر، مشیر، اور عمالدار بھی چٹائی پر بیٹھیں گے۔ عام آدمی کو حق ہوگا کہ وہ عمران خان سے پوچھے کہ اس کے پاس ایک سے زیادہ پشاوری چپل کیوں ہیں؟

پاکستان کو ریاستِ مدینہ جیسا ملک بنانے کے بارے میں تقریر سنتے ہوئے محو گفتار شخص کی باچھیں کھل گئیں۔ ریاست مدینہ جیسے پاکستان میں کوئی شخص بیروزگار اور بھوکا نہیں ہوگا۔ حکومت مجھے ملازمت دے گی۔ یہ ریاست پاکستان کی ذمہ داری ہوگی۔ ملازمت نہ ملنے کی صورت میں حکومت میری اور میرے کنبے کی کفالت کرے گی۔ ہم بےگھر نہیں ہونگے۔ تمام پاکستانیوں کی طرح میرے کنبے کے سر پربھی چھت ہوگی۔ کھلتے کھلتے اس شخص کی باچھیں کنپٹی سے جالگیں اور وہ چکراکر گر پڑا ۔ وہ ہوش سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

ہوش میں آجانے کے بعد اسے کچھ یا دنہیں رہا، عمران خان اور نہ عمران خان کی پاکستان کو ریاست مدینہ جیسا ملک بنانے کی تقریر وہ بھی دوڈھائی برس کی مدت میں۔ اس نے خود کو ایک میدان میں پڑا ہوا پایا۔ وقت دیکھنے کے لئے اس نے کلائی ٹٹولی۔ اسے تعجب ہوا کہ کسی نے اس کی گھڑی نہیں چرائی تھی۔ کپڑے جھاڑ کر وہ اپنی جگہ سے اُٹھا۔ پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ اسے حیرت ہوئی۔ بٹوہ اسکی جیب میں پڑا ہوا تھا۔ دوسری جیب میں ہاتھ ڈال کر دیکھا۔ قیمتی موبائل فون اس کی جیب میں موجود تھا۔ اب گفتار کے مارے ہوئے شخص کو پریشانی لاحق ہونے لگی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنے ملک میں تھا، یا اڑ کر کہیں دور کسی دوسرے ملک میں جا پہنچا تھا! اس کی پریشانی جائز تھی۔ ایک بار نہیں، دوبار نہیں، تین بار نہیں بلکہ کئی بار وہ گن پوائنٹ اور خنجر کی نوک پر لٹ چکا تھا۔ گن پوائنٹ پر لوٹ مار کرنے والے اس کی کنپٹی پر ریوالور کی نالی رکھتے اور اسے بٹوے، گھڑی اور موبائل فون سے محروم کرنے کے بعد جھومتے گاتے چلے جاتے۔ ایک عرصہ سے وہ گلے میںسونے کی چین پہنتا تھا۔ ایک مرتبہ خنجر کی نوک پرلٹ چکا تھا۔ ایک مرتبہ خنجر کی نوک پر لوٹنے والے اس کے گلے سے سونے کی زنجیر اتار کر لے گئے تھے۔ ویرانے میں کھڑے ہوئے اسے حیرت کم اور پریشانی زیادہ ہورہی تھی۔ مجھے اب تک کسی نے لوٹا کیوں نہیں ہے؟ ہمیں اپنے ملک میں اپنوں کے ہاتھوں لٹنے کی عادت پڑی ہوئی ہے۔ اس شخص کی پریشانی جائز تھی۔ روزمرہ کےمعمولات میں اچانک تبدیلی کیسے آگئی تھی؟ تبدیلی اچانک نہیں آئی تھی چونکہ وہ ہوش وحواس کھونے کے بعد دوڈھائی برس بیہوش پڑ اتھا اس لیے وہ مدت کا تعین کرنے سے قاصر تھا۔ گن پوائنٹ پر لٹ جانے کی بات اسے کل کی بات لگ رہی تھی۔ اب اسے بھوک اور پیاس ستانے لگی تھی۔ اس نے شہر کا رخ کیا۔کئی اسباب تھے جن کی بنا پر اسے اپنا شہر کراچی پہچاننے میں دیر لگی۔ دکانیں کھلی ہوئی تھیں مگر دکاندار غائب تھے۔ دکان کے دروازے پر وقفہ نماز کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ پانی کی بوتل خریدنے کے لیے وہ ایک دکان میں داخل ہوا۔ دکان میں مالک موجود نہیں تھا ایک بورڈ پر لکھا ہوا تھا، ’’جو چیز آپ کو چاہئے، آپ لے لیں۔ قیمت میز پر رکھے ہوئے بکس میں ڈال دیں‘‘۔

حیران پریشان شخص نے اطراف پر نظر ڈالی۔ خوشحالی کابول بولا تھا۔ قریب سے گزرتے ہوئے شخص سے پریشان شخص نے پوچھا ’’بھائی یہ کونسا ملک ہے؟‘‘اجنبی نے پریشان شخص کی طرف مشکوک نظروں سے دیکھا اور کہا ’’یہ پاکستان کا شہر کراچی ہے‘‘۔

پریشان شخص نے پوچھا ’’پاکستان تو قرضوں میں ڈوبا ہوا مفلس ملک تھا۔ پھر یہ خوشحالی کہاں سے آئی؟‘‘۔’’اب پاکستان کسی کا مقروض نہیں۔ بلکہ کئی ممالک پاکستان کے مقروض ہیں‘‘۔ اجنبی نے کہا ’’پاکستان عالمی بینک اور آئی ایم ایف کا کنٹربیوٹر ہے‘‘۔

پریشان شخص نے پوچھا ’’یہ سب کیسے ہوا؟‘‘۔

’’یہ ایک فاسٹ بولر کی شارٹ پچ ڈلیوریز کا کمال ہے‘‘ اجنبی نے کہا ’’اپنی تقریروں میں لگاتار بائونسر Bouncerپر بائونسر پھینکتے ہوئے عمران خان نے آخرکار پاکستان کو ریاستِ مدینہ جیسا بنادیا ہے‘‘۔

تازہ ترین