• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرمینیا آذربائیجان تصادم امن کیلئے مہلک

خیال تازہ … شہزادعلی
آرمینیا اورآذربائیجان کی افواج کے مابین شدت سے جاری جنگ کی خبروں پر دنیا بھر میں تشویش ابھر رہی ہے، دنیا کے امن کے لیے یہ تصادم مہلک اور خطرناک تصورکیا جارہا ہے جس وجہ سے نوگورنو کارا باخ کے حدود اربعہ کو لوگ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جہاں پر گھمسان کا رن پڑا ہے بعض یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ مادا گیز کا قصبہ کون سا ہے جس کے متعلق آذربائیجان کا کہنا ہے کہ وہاں ان کا جھنڈا لگا دیا گیا ہے بعض یہ سوالات پوچھ رہے ہیں کہ آخر اس تنازع کا پس منظر کیا ہے؟ عالمی برادری کا ردعمل کیا ہے؟ پاکستان کا کس طرف رحجان ہے؟ برطانوی دفتر خارجہ کیا کہتا ہے؟ بعض ذرائع ابلاغ کے مطابق نوگورنو کاراباخ سوویت یونین کا ایک خود مختار علاقہ تھا۔ آرمینی اکثریت والے اس علاقے نے 1988 میں آزادی کا اعلان کر دیا تھا اور 1990 کے عرصے میں آرمینیا سے تعلق رکھنے والے علیحدگی پسندوں نے نوگورنو کاراباخ کے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان اس باعث عرصہ 6 سال تک جنگ جاری رہی جو 1994 میں ختم ہوئی، مغربی میڈیا کے مطابق انٹرنیشنل کمیونٹی نے ان علاقوں کے درمیان امن قائم کرنے کی کافی بار کوششیں کی ہیں مگر تنازع کا حل تلاش نہیں کیا جا سکا، اب تک 30 ہزار کے قریب لوگ اس جنگ میں ہلاکت کے منہ میں چلے گئے، آذربائیجان کے صدر الہام علیوف کا مطالبہ ہے کہ آرمینیائی فوج کا نوگورنو کاراباخ کے علاقے سے انخلاء کرے اس سے خطہ میں حالات معمول پر لائے جاسکتے ہیں جب کہ دوسری جانب نوگورنو کاراباخ کے حکومتی اہلکار عالمی برادری سے اس علاقے کی خودمختاری تسلیم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، پاکستان نےاس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے، دی ٹائمز لندن نے "پرانے دشمن، نئے ہتھیار" کے عنوان سے واضح کیا ہے کہ آرمینیا آذربائیجان کے مابین تصادم وسیع خطرہ کیوں ہے؟ تازہ کشیدہ صورتحال کی عکاسی کی ہے کہ آرمینیائی فوج کے ذریعہ فائر کیے جانے والے توپ خانوں نے آذربائیجان کے دوسرے شہر گانجا کے وسطی بازار کو گذشتہ روز نشانہ بنایا جب آذری ڈرونز نے ناگورنو کاراباخ کے دارالحکومت اسٹی پنکرٹ پر حملہ کیا جس سے متعدد شہری علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ ان دونوں سابق سوویت جمہوریہ کے مابین طویل عرصے سے لڑائی جاری ہے لیکن اب یہ لڑائی زیادہ مہلک ہے اور اسلحے پہلے کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ استعمال ہوئے ہیں، خطرات بھی زیادہ ہیں کیونکہ اس جنگ سے زیادہ بڑی طاقتوں روس، فرانس اور ترکی کے کھینچنے کا خطرہ لاحق ہے۔مشرقی بحیرہ روم میں خودمختاری کے دعوؤں کے آس پاس تنازع کو مزید بھڑکانے کے خدشات ہیں، 27 ستمبر کو آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین جھڑپیں شروع ہوئیں، 220 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں درجنوں عام شہری ہیں دونوں ممالک میں مارشل لاء کا اعلان کیا گیا ہے دونوں اطراف نے سرحدوں پر توپ خانے فائر کیے ہیں، ڈرون حملوں میں ٹینک تباہ کردیئے گئے ہیں اور آرمینیا نے ترکی پر اپنے ایک لڑاکا طیارے کو گولی مار کرنے کے لئے ایف 16 استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے اس الزام کی تردید کی گئی ہے، ایک ملین سے زیادہ بے گھر ہوچکے ہیں بلقان اور مشرق وسطیٰ میں گرم جنگوں کے نتیجے میں سوویت وسطیٰ کے بعد عدم استحکام غالب آگیا، اقوام متحدہ کے مطابق نوگورنوکاراباخ اور آس پاس کے سات علاقے آذربائیجان کے مقبوضہ علاقے ہیں جو اس کے ایک پانچویں حصے کے برابر ہیں پھر بھی آرمینیا جو اب خود مختار نوگورنو کاراباخ حکومت کے ذریعہ اس خطے کو کنٹرول کرتا ہے نے اپنی آبادیاتی آبادی کو تبدیل کرنے کے لئے متعدد کوششیں کیں نوجوان جوڑوں کے لئے بڑے پیمانے پر شادیوں کی میزبانی کی اور اس کے بعد پیدا ہونے والے ہر بچے کے لئے اہم سہولیات پیش کی پانچ سال بعد اس نے اس خطے کو شام کے آرمینی باشندوں کو دوبارہ آباد کرنے کے لئے استعمال کیا جو حلب میں جنگ سے فرار ہوگئے تھے، دی ٹائمز نے ترتیب وار بتایا ہے کہ 1921جوزف اسٹالن جب سوویت یونین کے لئے قومیتوں کی کمشنر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے نوگورنو کاراباخ کو آرمینیا سے سوویت آذربائیجان کے کنٹرول میں منتقل کردیا 1988، کاراباخ آرمینیوں کا مطالبہ ہے کہ کاراباخ کو سوویت آذربائیجان سے سوویت آرمینیا میں منتقل کردیا جائے ناگورنو-کاراباخ تنازع شروع ہوا ستمبر 1989، آذربائیجان نے 23 ستمبر 1989 کو خودمختاری کا اعلان کیا اور 30 ​​اگست 1991 کو سوویت یونین کے تحلیل ہوتے ہی آزادی حاصل کی۔ ستمبر 1991، 21 ستمبر 1991 کو ایک ریفرنڈم میں جمہوریہ آرمینیا کی آزادی کی تصدیق ہوگئی۔ اسے 26 دسمبر 1991 کو تسلیم کیا گیا جب سوویت یونین کا وجود ختم ہو گیا 1994 نوگورنو-کاراباخ جنگ کا اختتام جنگ بندی کے ساتھ ہوا 2016، چار روزہ جنگ یکم اپریل کو آرمسکی دفاعی فوج کے ساتھ ایک طرف آرمینیائی فوج کی حمایت اور دوسری طرف آزربائیجانی مسلح افواج کے ساتھ شروع ہوگی۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اندازہ لگایا ہے کہ فوجیوں اور عام شہریوں سمیت مجموعی طور پر 350 افراد ہلاک ہوئے ستمبر 2020، سنہ تک کا حاطہ کرتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ 1994 میں جنگ بندی کے بعد سے شدید ترین لڑائی بھڑک اٹھی ، ترکی نے آذربائیجان اور روس نے آرمینیا کی حمایت کی جب کہ دونوں اطراف میں 220 سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ ان دو ملکوں کے درمیان کئی سالوں سے باقاعدہ جھڑپیں ہوتی رہی ہیں لیکن اتنی سنجیدہ لڑائی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی، اس تنازع میں ترکی کا نام بھی لیا جا رہا ہے ترکی اور آذربائیجان کے تعلقات کار خوشگوار بتائے جاتے ہیں ۔ دونوں ممالک اپنی تقریبا ایک جیسی شناخت، زبانوں اور انوٹولیہ کے ذریعے ء پ گیس لانے والے منافع بخش پائپ لائنوں پر مبنی دیرینہ تعلقات سے لطف اندوز ہوتے چلے آ رہے ہیں ۔اسرائیل کے متعلق بتایا گیا ہے کہ یہ آذربائیجان کو ہتھیاروں کا ایک بڑا سپلائر ہے جس پر ارمینیا کو ملک کے سفیر کو طلب کرنے پر مجبور کیا گیا ہے جبکہ آرمینیا کے مطابق جس کی ترکی کے ساتھ اپنی تاریخ اذیت کا شکار ہے آرمینیا کا کہنا ہے کہ انقرہ کی مداخلت اور صدر ایردوان اس بحران کا فیصلہ کن عنصر ہے اور جس باعث اس کو آسانی سے حل نہیں کیا جاسکتا، آرمینیا کے نزدیک موجودہ فوجی کشیدگی ترکی سے متاثر ہے اور یہ کہ اس متعلق تنازعات کا خاتمہ پوری طرح آذربائیجان اور ترکی پر ہے۔ اس کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ آرمینیا کے پاس کوئی اسٹریٹجک اہداف نہیں ہیں جو وہ فوجی طاقت کے ذریعہ حل کرنا چاہتے ہیں۔ مسٹر ایردوان کا اصرار ہے کہ تنازعہ میں ثالثی میں فرانس کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہئے جبکہ مسٹر میکرون نے ترکی پر "لاپروا اور خطرناک رویے" کا الزام عائد کیا ہے۔ روس آرمینیا کا قریبی دوست ہے اور ترکی کی سرحد کے قریب جیمری میں ایک فوجی اڈے کو برقرار رکھتا ہے،اگرچہ ماسکو عوامی طور پر اپنے آپ کو ایک امن ساز کی حیثیت سے پوزیشن لے رہا ہے لیکن آذری میڈیا میں شائع ہونے والی ویڈیوز میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ روسی ہتھیاروں کو ایران کے توسط سے ایک اور اتحادی آرمینیا میں بھیج دیا گیا ہے۔ ترکی نے حالیہ برسوں میں روس اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کیا ہے جو جزوی طور پر مسٹر اردگان کی مغرب سے بڑھتی ہوئی عداوت اور شام میں خرابی کاٹنے کی خواہش پر مبنی ہے ، جہاں یہ تینوں گذشتہ چار سالوں سے مذاکرات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ تاہم اس بار ، وہ اپنے آپ کو باہمی دہلیز پر کسی تنازع کے مخالف فریقوں پر پائے جاتے ہیں جس میں کوئی واضح فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی واضح اور آسان راستہ اس سے نکلنے کا ہے، ایک تھنک ٹینک، گریٹر مڈل ایسٹ کے منیجنگ ڈائریکٹر علی حاجیزاد نے تبصرہ کیا ہے کہ یہ ناگورنو کاراباخ کی تمام تنازعات کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا تصادم ہے ، اس سے پہلے کہ اس کا مقابلہ ہمیشہ چھوٹے ہتھیاروں کے ذریعے کیا جاتا تھا، اب وہ جدید ترین ہتھیار استعمال کر رہے ہیں، آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ایک ہفتہ قبل شروع کی گئی لڑائی میں ذرائع ابلاغ کے مطابق دونوں اطراف سے ٹینکوں، ہیلی کاپٹرز اور بھاری ہتھیاروں سے ایک دوسرے کے خلاف حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور بین الاقوامی برادری کی جنگ بندی کی اپیلوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ، آذربائیجان آرمینیائی فوج کے نوگورنو کاراباخ کے علاقے سے انخلا ہی کو جنگ ختم کرنے کا واحد راستہ قرار دے رہا ہے اور نوگورنو کاراباخ کے حکومتی اہلکاراس خطے کی آزادی کو تسلیم کرنے کو علاقے میں امن کے قیام کا واحد راستہ قرار دے رہے ہیں، خطے کی جغرافیائی، معاشی صورتحال کچھ یوں ہے: آذربائیجان بحیرۂ کیسپیئن کے کنارے پر مغربی ایشیا اور مشرقی یورپ کے درمیان واقع ہے _ یہ تیل کی دولت سے مالا مال خطہ ہے، آرمینیا اس مغرب میں واقع ہے، خطےکا گہرائی سے لیا گیا جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان تنازع کا محور ناگورنو قرہباخ نامی علاقہ ہی ہے جسے آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اس کا انتظام آرمینیائی نسل کے لوگوں کے پاس ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اس علاقے کو حاصل کرنے کے لیے 80 اور 90 کی دہائی میں خونریز جنگیں لڑی جا چکی ہیں دونوں ممالک نے جنگ بندی پر اتفاق بھی کر یا تھا لیکن کسی پیس پراسیس پر اتفاق نہیں کرسکے، دونوں ممالک کی جغرافیائی پوزیشن دفاعی لحاظ سے خطے کے پڑوسی ممالک کے لیے بھی اہم ہے 1994 میں روس کی کوششوں کے نتیجے میں ہونے والی جنگ بندی جو ایک معاہدے کے نتیجے میں کی گئی تھی میں یہ طے ہواتھا کہ ناگورنو قرہباخ آذربائیجان کا ہی حصہ رہے گا لیکن اس کا حکومتی انتظام آرمینیائی نسل کے لوگوں کے پاس ہو گا غالباً اس طرح دونوں ممالک کو خوش رکھنے کی کوشش کی گئی جس کے بعد متعدد بار امن کے لئے مذاکرات کے راونڈز تاہم ابھی تک یہ کسی امن معاہدے تک پہچنے میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی اور گزشتہ تین دہائیوں کے دوران جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا لیکن اس مرتبہ جنگ زیادہ سطح پر پھیل رہی ہے اور کشیدگی عروج پر ہے جب کہ آزاد ذرائع سے تصدیق نہ ہونے کے باعث ان خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ دونوں اطراف میں اصل سویلین اور ملٹری جانوں کا نقصان رپورٹ کیے گئے واقعات سے بہت زیادہ ہے، برطانیہ کے دفتر خارجہ اور دولت مشترکہ کے دفتر (ایف سی او) نے آرمینیا اور آذربائیجان سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کو ختم کرنے اور بات چیت میں شریک ہونے کا مطالبہ کیا ہے ایف سی او کے ترجمان نے کہا ہے کہ آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین بین الاقوامی سرحد پر جنگ بندی کی حالیہ خلاف ورزیوں پر برطانیہ کو شدید تشویش ہے اور اس جانی نقصان پر بہت افسوس ہوا ہے، انہوں نے دونوں اطراف سے مطالبہ کیا ہے کہ جنگ بندی کا احترام کریں اور صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے بات چیت میں حصہ لیں اور مزید جانی نقصان سے بچیں۔ دونوں اطراف سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور بیان بازی سے باز رہیں کہ اس سے تناؤ میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے اور مذاکرات کے عمل کے لئے اپنی حمایت کا اعادہ کیا گیا ہےجب کہ برطانوی سکریٹری خارجہ اور کینیڈا کے وزیر خارجہ نے آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین ناگورنو کارابخ میں ہونے والی جھڑپوں کے جواب میں ایک مشترکہ بیان بھی جاری کیا ہے۔ سیکرٹری خارجہ ڈومینک راب اور کینیڈا کے وزیر خارجہ فرانسوا فلپ شیمپین نے کہا ہے کہ نوگورنو - کاراباخ تنازعہ والے علاقے میں لائن آف رابط کے ساتھ بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کی اطلاعات سے کینیڈا اور برطانیہ شدید تشویش میں مبتلا ہیں، بستیوں پر گولہ باری اور شہری ہلاکتوں کی اطلاعات گہری ہیں۔ ہم جنگوں کے فوری خاتمے ، جنگ بندی معاہدے کا احترام اور عام شہریوں کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک پرامن حل پر زور دیا ہے یہاں ہم سمجھتے ہیں کہ اقوام متحدہ کو اس حوالے اپنا کردار سرعت سے اور جاندار طور پر اداکرنے کی ضرورت ہے ورنہ قوی خدشات ہیں کہ یہ جنگ مزید وسعت اختیار نہ کر لے اور مختلف بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کی خاطر اس لڑائی کو مزید فروغ نہ دے سکیں ۔
تازہ ترین