آجکل سوشل میڈیا پر اسلام آباد میں متعین آذربائیجان کے سفیر کی ایک ٹویٹ کا بہت چرچا ہے ، معزز سفیر کی ٹویٹ کردہ تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ دارالحکومت باکو کے رہائشیوں نے اپنے گھروں کی بالکونیوں میں آذربائیجان، ترکی اور پاکستان کے قومی پرچم آویزاں کردئیے ہیں، آذر شہریوں کے اس اقدام کا مقصد پاکستان سے اظہارِتشکر ہے۔آذربائیجان اپنے خوبصورت دلکش اور قدرتی حسن سے مالامال مقامات کی وجہ سے عالمی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے، آذربائیجان میں بسنے والوںسے میری بہت سی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں،گزشتہ برس مجھے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان طور کے ہمراہ باکو میں منعقدہ عالمی امن کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا، اس حوالے سے میں ایک کالم بتاریخ 12مئی 2019ء میں تفصیلاََ اپنے دورہ ِ آذربائیجان کا سفرنامہ تحریر کرچکا ہوں ، مجھے یاد ہے کہ آذربائیجانی صدر الہام علیوف نے اپنے خیرمقدمی خطاب میں امن پسند انسانی معاشرے کی تشکیل یقینی بنانے کیلئے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔اپنے دورہ آذربائیجان کے دوران مجھے دارالحکومت باکو کے مختلف عوامی اور تاریخی مقامات کی سیاحت کا بھی موقع ملاتھا، مقامی باشندوں کا اعلیٰ اخلاق بے حد متاثرکن تھا،وہاں میں نے ایک چیز سب سے زیادہ محسوس کی کہ آذربائیجان کے لوگ امن پسند ہیں اور وہ پاکستانیوں سے خصوصی محبت و عقیدت رکھتے ہیں، وہاں عوامی سطح پر سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان کا افغانستان میں سویت جارحیت کے خاتمے کیلئے کلیدی کردار آذربائیجان کی آزادی کا باعث بنا۔ یہی وجہ ہے کہ سفارتی محاذ پر پاکستان کے آذربائیجان سےقریبی تعلقات ہیں ، پاکستان ترکی کے بعد دوسرا ملک ہے جس نے آذربائیجان کو بطور آزاد خودمختار ملک تسلیم کیا تھا، آ ذربائیجان، ترکی اور پاکستان ایک دوسرے کے قریبی دوست سمجھے جاتے ہیں ، پاکستان نگورنو کاراباخ کے ایشو پر آذربائیجان کے اصولی موقف کی تائید کرتا ہے اور آذربائیجان سے اظہارِ یکجہتی کی وجہ سے پاکستان کے آرمینا سے سفارتی تعلقات تاحال قائم نہیں ہوسکے ہیں۔گزشتہ چنددنوںسے آذربائیجان اور آرمینیاایک مرتبہ پھر خونریز جنگ کی صورت میں ایک دوسرے کے مد مقابل آگئے ہیں، تازہ میڈیا اطلاعات کے مطابق متنازع علاقے نگورنو کاراباخ میں جاری تصادم میں شدت آنے کے باعث جنگ شہروں تک وسیع ہوگئی ہے، شہروں پر گولہ باری کی وجہ سے عوام کے جانی و مالی نقصان کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں، آذربائیجان کے صدر الہام علییوف نے جنگ بندی کیلئے شرائط پیش کرتے ہوئے اصولی موقف اپنایا ہے کہ آرمینی فوج نگورنو کاراباخ کا مقبوضہ علاقہ خالی کرے جوکہ عالمی سطح پرآذربائیجان کا حصہ تسلیم کیاجاتا ہے۔ دوسری جانب آرمینیا نے ان شرائط کو مستردکرکے امن کی کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے، اطلاعات کے مطابق روس، امریکہ اور فرانس پر مشتمل مصالحتی گروپ بھی تنازع کا سیاسی حل نکالنے میں مکمل ناکام رہا ہے۔ تاریخ کا مطالعےسے معلوم ہوتا ہے کہ نوے کی دہائی میں سویت یونین کے خاتمے کے ساتھ آزاد ہونے والے یہ دونوںپڑوسی ملک ماضی میں بھی برسرپیکار رہے ہیں ، آج سے سو سال قبل 1918ء تا 1921ء میں دونوں ممالک میں بسنے والوں کو خونریز جنگ کا سامنا کرنا پڑا تھا، بعد ازاں دونوں ممالک سویت یونین کے زیرتسلط آگئے، سویت دور میں بھی دونوں ممالک کے مابین کچھ معاملات پر کھچاؤ برقرار رہا لیکن مجموعی طور پر صورتحال پرُامن رہی۔سویت یونین کے زوال کے موقع پر آزادی کا اعلان کرتے ہی آذربائیجان اور آرمینا نے ایک دوسرے کے خلاف بھرپورجنگ چھیڑ دی، نگورنو کاراباخ کا تنازع وجہ جنگ قرار پایا،سویت یونین کے زمانے میں نگورنو کاراباخ آذربائیجان کے حکام کے زیرِ انتظام ایک ایسا سرحدی علاقہ تھا جہاںاکثریت آرمینیائی نسل کے باشندوں کی تھی۔ دوطرفہ جنگ کے نتیجے میں دونوں ممالک کے بے شمار افراد ہلاک ہوئے جبکہ کم از کم دس لاکھ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔روس کی کوششوں کے نتیجے میں دونوں فریقین نے 1994ء میں جنگ بندی تو کرلی لیکن کوئی امن معاہدہ نہ کرسکے، عالمی سطح پر نگورنو کاراباخ کو آذربائیجان کا علاقہ قراردے دیا گیا لیکن زمینی حقائق کے مطابق جنگ بندی سے قبل یہ متنازع علاقہ مکمل طور پر آرمینائی فوج کے قبضے میں آچکا تھا۔آذربائیجان کی قیادت کی جانب سے مختلف مواقع پر آرمینائی حکومت کو عالمی تسلیم شدہ موقف مدنظر رکھتے ہوئے مقبوضہ علاقے خالی کرنے کی تاکید کی جاتی رہی ہے، دونوں ممالک کے مابین سرحدی جھڑپیں بھی ہوئیں ، روس نے دونوں ممالک کی قیادت کو اپنے ملک مدعو کرتے ہوئے پرامن حل نکالنے کیلئے ثالثی کا کردار بھی ادا کیا لیکن کوئی پیشرفت نہ ہوسکی، آج سے چار سال قبل دونوں ممالک کے مابین خونی تصادم میں کم و بیش ساڑھے تین سو قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ دونوں ممالک تکنیکی اعتبار سے آج بھی حالتِ جنگ میں ہیں جسکا ایک مظاہرہ ہمیں حالیہ تصادم کی صورت میں دیکھنے میں آیا ہے۔مجھے اپنے دورہ آذربائیجان کے دوران معلوم ہوا تھاکہ یہاں کچھ مقامات پر آگ قدرتی طور پر گزشتہ چار ہزار سالوں سے روشن ہے، آذربائیجان کا دارلحکومت باکو اپنے تیل کے بے تحاشہ قدرتی ذخائر کی وجہ سے شعلوں کی سرزمین کہلاتا ہے۔ آج بھی تیل کی عالمی منڈی کیلئے کھپت کا پانچواں حصہ آذربائیجان فراہم کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کچھ مبصرین کے خیال میں آرمینا نگورنو کاراباخ کی آڑ میں جنگ کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے تیل کے ذخائرپر قابض ہونے کا خواہاں ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آج آذربائیجان اپنے اصولی موقف کی بناء پر ایک مرتبہ پھر جنگ کے شعلوں میں گھِر چکا ہے،میں اپنے آذربائیجانی دوستوں کو یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ آزمائش کی اس گھڑی میں پاکستانی عوام ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ آرمینائی قیادت کو سمجھنا چاہئے کہ نگورنو کاراباخ کا علاقہ عالمی سطح پر آذربائیجان کا تسلیم کردہ علاقہ ہے،علاقائی امن و استحکام یقینی بنانے کیلئے آذربائیجان کی خودمختاری کا احترام کیا جائے۔میری نظر میں ہر اچھے انسان کا فرض ہے کہ وہ دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے اپنے وقتی مفادات اور وابستگی سے بالاتر ہوکر صرف اصولوں کی بنیاد پر حق و سچائی کا ساتھ دے۔