• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم آج کل اپنے ملک میں جس ناقابلِ بیان صورتِ حال کی گرفت میں ہیں، اِس سے شاعر کی قوتِ متخیلہ نے ’زار و قطار ہنسنے‘ کا ایک نیا محاورہ ایجاد کیا ہے؎

بجائے رونے کے زار و قطار ہنستا رہا

مَیں پاگلوں کی طرح باربار ہنستا رہا

وہ عظیم وطن جسے ہم نے کتنی آرزوؤں سے اور کتنی قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا، اِس میں ایک تماشہ سا لگا ہوا ہے اور اصولوں اَور ضابطوں کے لاشے روز گر رہے اور وَضع داری اور باہمی احترام کے شام و سحر جنازے اُٹھ رہے ہیں۔ دکھ یہ ہے کہ اِن جنازوں کا مذاق اُڑانے والے اپنی ’کارکردگی‘ کا صلہ مانگ رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ سیاست کو عبادت اور اعلیٰ ترین فنِ حکمرانی کا درجہ حاصل تھا، اب وہ گالم گلوچ، دروغ گوئی اور دشنام طرازی کا دوسرا نام بن کے رہ گئی ہے۔ اب سنگین ترین الزامات لگاتے وقت بھی کوئی حجاب محسوس نہیں ہوتا۔ ہمارے وزیرِاعظم عمران خان گاہے گاہے ایک ایسی ضرب لگاتے ہیں کہ شکارگاہ کے دیوار و دَر کانپ اُٹھتے ہیں۔ وہ بےدھڑک اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، چنانچہ جنرل مشرف کے دورِ حکومت میں بھارت گئے اور ٹی وی پر انٹرویو دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت طاقتور حلقوں کے بغیر انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ بلاشبہ اُنہوں نے اقتدار میں آنے کیلئے عوام سے نہایت امید افزا وعدے کیے تھے جنہیں اپوزیشن یاد دِلاتی رہتی ہے۔

اُن کے تازہ کارنامے نے ظن و تخمین کے نئے در کھول دیے ہیں۔ ہوا یہ کہ اُن کے مشیروں کے اندازوں کے برخلاف اپوزیشن جماعتیں پی ڈی ایم کے تحت اکٹھی ہو گئی ہیں جن سے سابق وزیرِاعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے لندن سے خطاب کیا۔ اِس میں اُنہوں نے برملا کہا کہ بعض طاقتور عناصر سیاسی معاملات میں مداخلت کرتے اور ملکی امیج کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اُن کی یہ تقریر وزیرِاعظم کی اجازت سے تمام ٹی وی چینلز سے نشر ہوئی۔ اِس کے بعد بحث شروع ہو گئی کہ نوازشریف نے فوج کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ اب اُنھوں نے مسلم لیگ نون کی ایگزیکٹو کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے فوج کو تین بار سلام پیش کیا اور بار بار کہا کہ ہمارے شہید اور ہمارے غازی ہماری آنکھوں کا تارا ہیں اور وہ پاکستان کی عظمت کے مینار ہیں۔ یہ تقریر پاکستان کے ٹی وی چینلز پر نہیں دکھائی گئی جس نے اِس شبہے کو تقویت پہنچائی کہ حکومت دراصل اپوزیشن اور فوج کے درمیان فاصلے بڑھانا چاہتی ہے۔

جناب وزیرِاعظم جو بالعموم دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے ہیں، اُنہوں نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے گرجدار آواز میں کہا کہ مَیں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ نواز شریف بھارت کی زبان استعمال کر رہے ہیں اور الطاف حسین جیسا کردار اَدا کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اِس پر حکومت کے ترجمانوں اور مشیروں نے ریاست کے خلاف بغاوت کی گردان شروع کر دی۔ اگلے روز یہ راز اَفشا ہوا کہ شاہدرہ تھانے میں نواز شریف اور اُن کی جماعت کے چالیس سے زائد عہدے داروں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ رات کے دو بجے ایک عام شہری کی درخواست پر درج ہوا ہے جس میں آزاد جموں و کشمیر کے وزیرِاعظم فاروق حیدر کا نام بھی شامل ہے۔ انڈیا میں یہ فہرست اچھالی گئی کہ آزاد جموں و کشمیر کے وزیرِاعظم غدار ہیں۔ جب ہر طرف سے لَے دَے شروع ہوئی اور بین الاقوامی میڈیا میں عجب عجب تبصرے ہونے لگے، تو ایک وزیرِ باتدبیر نے یہ اطلاع دی کہ وزیرِاعظم بغاوت کے پرچے پر بہت ناخوش ہیں اور جس شخص نے ایف آئی آر درج کرائی ہے، اِس کا حکمران جماعت سے کوئی تعلق نہیں۔

بدقسمتی سے ہر آنے والا دن حکومت کے موقف کی کمزوری کا باعث بن رہا ہے اور چاروں طرف سے انتہائی سنجیدہ سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔ (1) مقدمہ شاہدرہ تھانے میں کیوں درج کروایا گیا جبکہ ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہوا تھا؟ (2) رات کے دو بجے ایف آئی آر درج کرانے کی کیا ضرورت پیش آئی تھی؟ (3) بغاوت کا مقدمہ وفاقی یا صوبائی حکومت یا اُن کا نامزد کردہ افسر درج کرا سکتا ہے، تو ایس ایچ او نے عام شہری کی درخواست پر اتنا بڑا قدم کیسے اُٹھایا؟ (4) اِس ایف آئی آر میں وزیرِاعظم آزاد جموں و کشمیر کا نام کس غرض سے شامل کیا گیا؟ (5) وزیرِ اطلاعات حکومتِ پنجاب کا ارشاد ہے کہ ہم ایف آئی آر سے وزیرِاعظم آزاد جموں و کشمیر کا نام نکلوا دیں گے، تو کیا ایف آئی آر حکومتِ پنجاب نے درج کرائی تھی؟ (6) ایس ایچ او نے ایف آئی آر کس بااثر شخصیت کے دباؤ میں درج کی تھی؟

بدر رَشید جس نے ایف آئی آر درج کرائی ہے، وہ پی ٹی آئی لیبر وِنگ کا انچارج اور مختلف مقدمات میں ماخوذ ہے، سوال اُٹھتا ہے کہ اسے کس نے آلۂ کار بنایا؟ میں شفقت محمود اَور شبلی فراز کا بڑا اِحترام کرتا ہوں، مگر اُن کی محدود سوچ اور جانب دارانہ رویے نے قدرے مایوس کیا ہے، البتہ گورنرِ پنجاب محمد سرور نے درست موقف اختیار کیا ہے کہ اِس امر کی تحقیقات ہونی چاہئے کہ یہ ایف آئی آر درج کیسے ہوئی جبکہ بغاوت کے مقدمات قائم کرنا ایک انتہائی غیر پسندیدہ عمل ہے۔ مزید جگ ہنسائی اور قومی وقار کو ناقابلِ تلافی نقصان سے محفوظ رکھنے کے لئے بہتر ہے کہ یہ مقدمہ فوراً واپس لیا جائے، آئین کی منشا کے خلاف پرچہ درج کرانے والوں کا محاسبہ کیا جائے۔ سیاسی عمل، مکالمے کی تہذیب، پارلیمان کی حاکمیت اور آئین کی بالادستی کو اوّلین ترجیحات میں شامل کیا جائے، ورنہ طرزِ جدید کے شاعر مسعود احمد کی دوسری غزل کا یہ شعر ہم پر صادق آئے گا؎

دریا ڈوبنے والا ہے

اپنی ہی طغیانی میں

تازہ ترین