• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسے وقت میں جب پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے یا نہ نکالنے کا فیصلہ کرنے کے لئے دہشتگردوں کی اعانت اور منی لانڈرنگ کی روک تھام سے متعلق عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) کا نہایت اہم اجلاس 21سے 23اکتوبر تک ہونے والا ہے، اِس ادارے کے ایشیا پیسفک گروپ (اے پی جی) نے فروری 2020ءتک کی صورتحال کے تناظر میں پاکستان کے اقدامات کو گرے لسٹ سے نکالنے کے لئے ناکافی قرار دیدیا ہے اور ’’انہانسڈ فالو اپ‘‘ لسٹ میں برقرار رکھا ہے اگرچہ اے پی جی نے یہ رائے 8ماہ پرانے حالات کی روشنی میں قائم کی ہے جبکہ اس عرصے میں فیٹف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے پاکستان نے دوسرے عملی اقدامات کے علاوہ قانون سازی بھی کی ہے، اس لئے حق تو یہ ہے کہ فیٹف اِس سے متاثر نہ ہو اور پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دے مگر اِس کے اب تک کے رویے کی بنا پر یہ بھی یقینی نہیں کہ وہ پاکستان کے حق میں فیصلہ جاری کردے۔ حکومتِ پاکستان کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اے پی جی نے اپنے اگست یعنی دو ماہ پہلے کے اجلاس میں فیٹف کی جس رپورٹ کی بنیاد پر پاکستان پر پابندیاں جاری رکھنے کی رائے دی ہے، اُس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان نے فیٹف کی 40میں سے 2سفارشات پر مکمل، 25پر جزوی اور 9پر کسی حد تک عمل کیا اور 4پر بالکل عمل نہیں کیا۔ جبکہ حالیہ مہینوں میں پاکستان نے 27نکات پر عملدرآمد میں اچھی پیش رفت کی اور اس حوالے سے 15معاملات پر قانون سازی بھی کی جو قابلِ تعریف ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ دہشت گردی کی اعانت اور منی لانڈرنگ کا پیسہ باہر سے ملک میں آتا ہے، باہر نہیں جاتا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی فیٹف کے آئندہ اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلوانے کے لئے بہت سرگرم ہیں اور اس مقصد کے لئے پاکستان نے اپنے 27نکاتی ایکشن پلان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے فیٹف کے رکن ممالک سے رابطے کئے ہیں لیکن اس کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لئے بھارت بھی علانیہ سرگرم ہے، اس کا شروع سے یہی وتیرہ رہا ہے۔ فیٹف کی قائمہ کمیٹی برائے امور داخلہ کے چیئرمین نے فیٹف کے صدر کے نام اپنے دو خطوط میں بھارت کی سازشوں کو بےنقاب کیا ہے اور بتایا ہے کہ بھارت ریاستی سطح پر ٹیرر فنانسنگ اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہے۔ اس کے 44بینکوں نے ایک ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ کا مشتبہ لین دین کیا جس کا فیٹف نے کوئی نوٹس نہیں لیا جبکہ پاکستان کی صرف ایک ٹرانزیکشن کو بنیاد بنا کر اسے گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا۔ یہ پاکستان کے ساتھ صریحاً ناانصافی اور امتیازی سلوک ہے۔ رحمٰن ملک کا کہنا ہے کہ بھارت 5سال سے داعش کو پاکستان، چین اور دوسرے ہمسایہ ملکوں کے خلاف استعمال کرنے کے لئے مالی معاونت کے علاوہ تربیت بھی دے رہا ہے۔ قومی سلامتی کے بھارتی مشیر اجیت ڈوول داعش کے سربراہ سے ملنے کے لئے خود عراق گئے اور ان سے داعش اور آر ایس ایس کے نیٹ ورک کو مضبوط اور مربوط بنانے کی منصوبہ بندی کی، یہ پاکستان کے خلاف پراکسی وار کا منصوبہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس معاملے میں بھارت کو امریکہ کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ پاکستان نے فیٹف کی عائد کردہ شرائط پوری کرنے کے لئے جو اقدامات اٹھائے ہیں، حکومت کو چاہئے کہ فیٹف کے علاوہ عالمی برادری کو بھی اُن سے آگاہ کرے اور حقائق دنیا کے سامنے لائے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ فیٹف بھی اپنے آئندہ اجلاس میں اے پی جی کی رپورٹ رد کرتے ہوئے پاکستان کے موقف کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے، اُس کے خلاف گرے لسٹ کی ناروا پابندیاں ختم کرکے اُسے وائٹ لسٹ میں شامل کرے اور اپنے امتیازی سلوک کا ازالہ کرے۔

تازہ ترین