• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بدل گئی... پاکستان میں ’’تبدیلی‘‘ محض سراب

گزشتہ کئی ماہ سے عوام سے لے کر اعلیٰ ایوانوں تک یہ بحث جاری ہے کہ’’ کیا وزیرِ اعظم، عمران خان کی حکومت مُلک میں کوئی’’ تبدیلی‘‘ لاسکی ہے؟‘‘ لیکن شاید یہاں اِس سوال کا جواب دینے کی کوئی خاص ضرورت نہیں کہ ہر شخص’’ تبدیلی‘‘ کا مشاہدہ و تجربہ کر ہی رہا ہے۔البتہ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں بہت سے معاملات تبدیلیوں کی زَد میں ہیں۔امریکا کے صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کورونا وائرس کا شکار ہوئے اور خاتونِ اوّل سمیت اُن کے کئی قریبی افراد کے ٹیسٹ بھی مثبت آئے۔ 

یہ سب ایسے وقت ہوا، جب دنیا پر اثرانداز ہونے والے سب سے اہم انتخابات سَر پر ہیں۔امریکا اپنا نیا صدر منتخب کرنے جارہا ہے، جس کے لیے نومبر کے پہلے منگل کو پولنگ ہوگی۔ یعنی اِن انتخابات میں دو ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ امریکا کے صدر کوئی پہلی بڑی سیاسی شخصیت نہیں، جو اِس وائرس کا شکار ہوئے۔ اِس سے قبل برطانیہ کے وزیرِ اعظم، بورس جانسن، روس کے وزیرِ اعظم اور دنیا کے کئی بااثر افراد اِس وبا کا نشانہ بنے۔ایک ایسے وقت میں، جب کورونا وائرس کے سبب دو لاکھ سے زاید افراد ہلاک اور دو کروڑ متاثر ہوچُکے، مرض پر قابو پانے کے لیے تاحال تک ویکسین سامنے نہیں آسکی، خوشی کی بات یہ ہے کہ وائرس سے متاثر ہونے کے باوجود عالمی قیادت محفوظ ہی رہی۔ 

پاکستان میں کورونا کے حملوں میں کمی کے دعوے کیے جا رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود اس کا شکار ہونے والوں میں کئی اہم سیاسی، مذہبی، سماجی اور دیگر شعبوں سے وابستہ معروف شخصیات شامل ہیں، جن میں سے کئی ایک جانبر نہ ہوسکیں۔عام آدمی تو خود ہی دوا، ٹونے ٹوٹکے کرکے ٹھیک ہوگیا یا پھر موت سے ہم کنار۔ یہ اور بات کہ بہت سی وجوہ کے سبب اِس طرح کی اموات سامنے نہیں لائی گئیں۔عالمی سطح پر ایک اہم ترین تبدیلی جاپان میں آئی، جہاں طویل عرصے تک حکم رانی کرنے والے وزیرِ اعظم، شنزو ایبے نے استعفا دے دیا اور اُن کے جانشین نے خاموشی سے وزارتِ عظمیٰ سنبھال لی۔ جمہوری ممالک کے لیے تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں، مگر ہمارے جیسے مُمالک میں، جہاں اِس طرح کی روایات موجود نہیں، یوں اقتدار کی تبدیلی حیران کُن ہے۔ 

ابھی اُن کی مدّت باقی تھی، ایسے میں اچانک صرف صحت کی بنیاد پر مستعفی ہوکر گھر چلے جانا ناقابلِ یقین لگتا ہے۔ اگر ہمارے ہاں ایسا ہوا ہوتا، تو نہ جانے کتنی سازشی تھیوریز جنم لیتیں، مگر وہاں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ جو بتایا گیا، اُس پر عوام نے یقین کرلیا، کیوں کہ اُنھیں معلوم ہے کہ حکومت کی جانب سے اُنھیں درست ہی بتایا گیا ہے۔ کسی نے اُن پر کرپشن، غدّاری اور اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے الزامات نہیں لگائے اور وہ بڑی خاموشی سے آج ایک عام شہری کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ شنزو ایبے چار مرتبہ انتخابات جیت کر وزیرِ اعظم کے عُہدے پر فائز ہوئے۔ دو مرتبہ مِڈٹرم انتخابات کروائے اور کام یاب رہے۔اُنھوں نے جاپان کی حالیہ تاریخ اور جنوب مشرقی ایشیا کی سیاست میں کیا غیرمعمولی کردار ادا کیا؟ اس کا ہمارے ہاں کم ہی ادارک پایا جاتا ہے۔ 

اُدھر ناگورنو قرہ باغ کا تنازع باقاعدہ جنگ میں تبدیل ہوچُکا ہے اور دونوں جانب خوف ناک بم باری سے شہر کے شہر کھنڈر میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہیں۔اِس خطّے میں یوں جنگ کی آگ بھڑک اُٹھنا وسط ایشیا کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں کہ اسے ایک پُرامن علاقہ سمجھا جاتا تھا۔خاص طور پر برادر مُلک، آذربائیجان کے لیے تو جنگ کسی صُورت مناسب نہیں، کیوں کہ تیل کی دولت سے مالا مال یہ مُلک، اِن دنوں تیل کی کم قیمتوں کی وجہ سے معاشی مسائل سے دوچار ہے۔افغانستان میں مذاکرات اب کسی نتیجے کے قریب ہیں۔اِس ضمن میں بہت زیادہ سرگرمیاں دیکھی جا رہی ہے۔ خاص طور پر عبداللہ عبداللہ کا اسلام آباد کا حالیہ دورہ بے حد اہمیت کا حامل رہا۔ مشرقِ وسطیٰ میں عرب ممالک اور اسرائیل کی قربت کیا رنگ دِکھا رہی ہے؟ 

اِس کا اندازہ سعودی ولی عہد، شہہ زادہ محمد بن سلمان کے اِن الفاظ سے لگایا سکتا ہے کہ’’ فلسطینی خود کسی ایک بات پر متحد نہیں، تو اُن کی نمائندگی کون کرے گا۔‘‘ مسلم دنیا، فلسطین کا ساتھ دیتی رہی ہے، لیکن وہاں کے متحارب دھڑے یہ بات نہیں سمجھتے کہ جب تک اُنہیں مکمل آزادی نہیں مل جاتی، تب تک آپس میں اقتدار کی خواہشات اُنہیں کس طرح تنہا کر رہی ہیں۔ اِس کے ساتھ ہی ایک بُری خبر یہ ہے کہ عالمی بینک کے علاقائی جائزے کے مطابق، پاکستان کی شرحِ نمو اعشاریہ 5 پر رہے گی، جو خطّے میں افغانستان، سری لنکا، بنگلا دیش اور بھارت کے مقابلے میں کم ہوگی۔کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ہمیں ابھی تک معیشت کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہوا؟

امریکا میں صدارتی انتخابات قریب ہیں۔ڈیموکریٹک پارٹی کے جوبائیڈن اور ری پبلکن کے ڈونلڈ ٹرمپ میدان میں ہیں۔جو لوگ امریکی انتخابات کے پیچیدہ طریقۂ کار پر نظر رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ انتخابی سال میں فروری سے شروع ہونے والے مراحل نومبر تک جاتے ہیں۔ امیدواروں کی شخصیت کا شاید ہی کوئی ایسا پہلو ہو،جس پر بہت کُھل کر بحث نہ ہوتی ہو۔طرح طرح کے الزامات لگتے ہیں، صفائیاں پیش کی جاتی ہیں اور کئی مرتبہ بڑے بڑے شہہ سوار ان الزامات کی تاب نہ لاتے ہوئے دھڑام سے گر پڑتے ہیں یا میدان چھوڑ جاتے ہیں۔ان انتخابات کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ مہم کے دَوران تین صدارتی مباحثے ہوتے ہیں، جن میں غیر جانب دار اہلِ دانش صدارتی امیدواروں سے مُلکی اور عالمی پالیسیز پر تندوتیز سوالات کرتے ہیں، جس کے دَوران شہری بھی موجود ہوتے ہیں اور یہ مباحثے براہِ راست نشر بھی کیے جاتے ہیں تاکہ ووٹرز اپنی رائے قائم کر سکیں۔اِس مرتبہ بھی مباحثے جاری ہیں۔ 

ناقدین کا کہنا ہے کہ پہلا مباحثہ ہڑبونگ کا شکار ہوا۔کئی ناقدین نے تو اسے امریکی تاریخ کا بدترین مباحثہ قرار دیا، لیکن ہمارے خیال میں اگر اخلاقیات اور الزامات کی تندی کے لحاظ سے دیکھا جائے، تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔صدارتی انتخابات میں امریکی میڈیا کا اہم کردار ہے اور وہ مہم کے دوران ایسے ایسے معاملات کا انکشاف کرتا ہے، جو ان مباحثوں کو بہت ہی مسالے دار اور چٹخارے دار بنا دیتے ہیں۔شہری2016 ء میں ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ اور ہلیری کلنٹن کے مباحثوں کو شاید ہی بھولے ہوں۔

اُس وقت تینوں مباحثوں کے بعد کہا گیا کہ ہلیری کو ٹرمپ پر واضح سبقت حاصل ہے، لیکن انتخابی نتائج آئے، تو ہلیری کو واضح اکثریت سے شکست قبول کرنی پڑی۔ہمیں نہیں معلوم کہ وہ تجزیہ نگار، جو پولنگ کی رات تک بڑے وثوق سے ٹرمپ کی شکست کی پیش گوئی کرتے رہے، اُنہیں اس اَمر کے تجزئیے کا موقع ملا کہ امریکی ووٹرز نے آخر کس بنا پر ٹرمپ کو ووٹ دیا؟بہرحال میدان پھر گرم ہے اور دیکھتے ہیں کہ اِس بار کون وائٹ ہاؤس پہنچتا ہے۔

جاپان کے وزیرِ اعظم، شنزو ایبے نے گزشتہ دنوں خرابیٔ صحت کی بنا پر عُہدے سے استعفا دے دیا۔پورے جاپان نے اُنھیں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا اور عزّت کے ساتھ رخصت کیا۔ہمارے جیسے مُلکوں میں اِس طرح کے واقعات کو سازش، دباؤ، جھوٹ یا فریب ہی قرار دیا جاتا ہے، کیوں کہ جب تک کوئی مَر نہ جائے، تب تک ہمیں اُس کی سچّائی اور عظمت پر یقین نہیں آتا۔ویسے بھی ہمیں ایک’’ مُردہ پرست قوم‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہمیں ساری خُوبیاں دنیا سے چلے جانے والے شخص ہی میں نظر آتی ہیں۔شنزو ایبےنے جاپان کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا۔وہ ایک کٹّرقوم پرست لیڈر تھے ۔ 

اُنہوں نے ایسے بلز منظور کروائے، جن سے جاپان کے فوجی کردار کی جانب قدم اُٹھے،جس کے تحت جاپان اپنی افواج رکھ سکے گا اور وقت آنے پر استعمال بھی کرے گا۔یاد رہے، دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا اور باقی دنیا نے مل کر جاپان پر فوج رکھنے پر پابندی لگا دی تھی، جس کی اقوامِ متحدہ نے بھی توثیق کی۔ اِس طرح کے اقدامات پراُنھیں چین کی تنقید کا سامنا رہا۔شنزو ایبے کانعرہ ’’ تھری ایروز‘‘ یعنی’’ تین تیر‘‘ تھا۔ اور اس میں سب سے اہم معیشت کی بحالی تھی۔جاپان دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے اور دنیا بھر کو امداد اور قرضے دینے میں نمبر وَن۔شنزو ایبے نے چین سے اختلافات کے باوجود معاشی میدان میں خاطر خواہ پیش رفت کی۔ 

بلاشبہ اُنھوں نے جنوب مشرقی ایشیا میں جاپان کو پھر سے ایک بڑی طاقت کے مقام پر فائز کردیا۔وہ بڑی ثابت قدمی سے امریکا کے ساتھ کھڑے رہے اور اس کی ’’پوٹ پالیسی ‘‘میں، جس کا مقصد اِس علاقے پر زیادہ توجّہ مرکوز کرنا تھا، ایک اہم ستون کا کام دیا۔آج جنوب مشرقی ایشیا میں امریکا کے ساتھ جو مُلک جمے ہوئے ہیں، اُس معاملے میں شنزو ایبے کا نمایاں کردار ہے۔ اُنھوں نے ہی شمالی کوریا کی ایٹمی دھونس اور شور کم کروایا۔اُن کا وزن پوری طرح امریکا کے پلڑے میں تھا۔یہ بات کس قدر حیرت انگیز ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما، ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے اور آج صرف 75 سال بعد وہی جاپان، امریکا کا سب سے بڑا اور مضبوط حلیف ہے۔

یہ کسی لیڈر یا پارٹی کا فیصلہ نہیں، بلکہ پوری جاپانی قوم امریکا کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس میں قوموں ہی کے لیے نہیں،دانش وَروں اور تجزیہ نگاروں کے لیے بھی سبق ہے، خاص طور پر اُن کے لیے، جن کا سازشیں کرنے اور دوسری اقوام کو اپنی پس ماندگی کا الزام دینے کے علاوہ کوئی شغل نہیں۔افسوس یہ خود لیڈرشپ لاسکتے ہیں اور نہ ہی اپنی قوم کو کام کرنے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جاپانی ایک’’ ورک ہولک قوم‘‘ ہے یعنی’’ کام، کام اور صرف کام‘‘ ہی اُن کی زندگی ہے ۔اُنہیں ایّام کے منانے سے دل چسپی ہے اور نہ چُھٹیوں کا شوق۔ وہ صرف کام کرتے ہیں اور نتیجہ دیتے ہیں۔شنزو ایبے جیسے لیڈر اس امر کی چلتی پھرتی علامت ہیں۔ شنزو ایبے نے کہا’’ میری صحت اچھی نہیں۔‘‘ قوم نے یقین کیا اور وہ خاموشی سے عام شہری بن گئے۔یہی اصل جمہوریت ہیں۔

ناگورنو قرہ باغ مسلم ممالک، علاقے اور دنیا کے لیے ایک اور بڑا مسئلہ بن چُکا ہے۔آرمینیا، روس کا حلیف، جب کہ آذربائیجان کی تُرکی سے دوستی ہے۔اُدھر روس اور تُرکی آپس میں گہرے دوست ہیں۔یہاں تک کہ امریکا اور یورپ کے مقابلے میں ساتھی ہیں، لیکن دونوں سیزفائر کروانے سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔ ناگورنو قرہ باغ تنازعے کو اب ایک صدی سے زاید کا عرصہ ہوچُکا ہے، لیکن دشمنی ہے کہ ختم ہی نہیں ہو رہی۔ ہم نے جاپان کی مثال دی کہ کس طرح اُنہوں نے ایٹم بم کے ہول ناک زخم سہہ کر بھی اپنی قوم کی بہتری کے لیے امریکا سے دوستی کی، جس سے اُنھیں فائدہ بھی ہوا۔آذربائیجان اور آرمینیا کی کُل آبادی ایک کروڑ، چالیس لاکھ ہے اور دولت کے لحاظ سے جاپان کا 100 واں حصّہ بھی نہیں۔

پھر بھی جنگ و جدل میں مصروف ہیں، حالاں کہ صرف پچیس سال قبل روس کی بدترین غلامی سے نکلے ہیں۔نہیں معلوم ایسے ممالک کو کب عقل آئے گی کہ دنیا گزشتہ سو سالوں میں ہزاروں برس کا سفر طے کر چُکی ہے۔سفارت کاری، دوستی اور دشمنی کے تصوّرات بدل چُکے، لیکن یہ ممالک اور اُن کی لیڈرشپ خوساختہ مفروضوں سے باہر نکلتے ہیں اور نہ اپنے عوام کو نکلنے دیتے ہیں۔پھر عوام کے بھی کہا ہی کہنے! پِسے جارہے ہیں، لیکن پھر بھی وہی کچھ کر رہے ہیں، جس میں اُن کی بربادی ہے۔ کسی بات سے سبق لینے کو تیار نہیں۔ ان ممالک کے حکم رانوں کو اپنے عوام اور اُن کی خوش حالی کتنی عزیز ہے؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ 

خوشی کی بات یہ ہے کہ پچاس سال کے بعد آخر افغان قیادت کو ہوش آرہا ہے کہ دنیا میں لڑائی اور دشمنی کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔افغان حکومت اور طالبان دونوں طرف سے حوصلہ افزا پیش رفت دیکھنے میں آرہی ہے۔حال ہی میں اہم افغان لیڈر، عبداللہ عبداللہ اسلام آباد آئے اور امن مذاکرات کے سلسلے میں فیصلہ کُن گفتگو کی۔ پاکستان نے اس سارے عمل میں انتہائی مثبت کردار ادا کیا، جس کی دنیا بھر میں پذیرائی کی گئی۔یقیناً افغانستان میں امن، ہمارے مُلک کے امن کے لیے بھی ضروری ہے۔اسرائیل اور عرب ممالک میں جس تیزی سے تعلقات فروغ پارہے ہیں، اگر اب بھی کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وقت کے پہیّے کو جذبات اور نعروں سے پیچھے دھکیلا جا سکتا ہے، تو یقیناً وہ خوابوں کی دنیا میں رہ رہا ہے۔

زمینی حقائق بہت آگے نکل چُکے،جب کہ خواہشات اور جذبات بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔کوئی ذی ہوش یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلسطینیوں کو اُن کے حقوق نہیں ملنے چاہئیں،مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس میں ایک’’ لیکن‘‘ آچُکا ہے۔تیل کی کم قیمتوں نے عربوں کی طاقت توڑ دی ہے۔ اب اُن کے پاس وہ دولت ہے اور نہ ہی وہ توانائی، جس سے دنیا کا رُخ موڑنے کی صلاحیت اُن کے پاس تھی۔وہ بہت سے معاملات میں مجبور ہوگئے ہیں۔ ایران کا تو بہت ہی بُرا حال ہے۔

افسوس تو یہ ہے کہ خود مسلم ممالک نے عربوں کی اس کم زوری پر خوشیاں منائیں۔ ہمارے بہت سے تجزیہ کار اور اہلِ دانش اس میں شامل ہیں، حالاں کہ خوشی منانے والے ممالک کے شہریوں نے وہاں ملازمتیں کرکے اپنے مُلکوں کو خوش حال کیا، لیکن اس پر ذرا بھی شُکر گزار نہ ہوئے۔ شاید اسے اپنا حق سمجھا، لیکن وہ یہ نہ جان پائے کہ اس کم زوری کے اثرات فلسطین کاز پر بھی پڑیں گے۔سعودی ولی عہد، شہہ زادہ محمّد بن سلمان نے ایک اہم ایشو کی جانب یہ کہہ کر اشارہ کیا کہ’’ خود فلسطینی سیاسی طور پر تقسیم ہیں۔‘‘حماس اور محاذِ آزادیٔ فلسطین کا بس نہیں چلتا کہ وہ کس طرح مخالف فریق کو پچھاڑ کر خود فلسطین پر قابض ہوجائے۔

یہ بڑی تلخ حقیقتیں ہیں، اگر مسلم دنیا اُنھیں جان لے، تو اس میں اس کی بہتری ہے،وگرنہ سازشی تھیوریز کا پرچار کرنے اور ان پر یقین کرنے والے تو بہت ہیں۔ بڑی اور خوف ناک سازشوں کے قصّے سُنانے والے کبھی یہ نصیحت ایران اور تُرکی کو کیوں نہیں کرتے کہ اگر تمہیں فلسطین سے اِتنی ہی محبّت ہے، تو اپنے اختلافات بُھلا کر انھیں حقوق دلوانے کے لیے ایک کیوں نہیں ہوجاتے؟ لیکن نہیں، ہمارے ہاں سعودی عرب، تُرکی، ایران تنازعے پر اتنی بحث ہوتی ہے کہ لگتا ہے، مسلم دنیا کو آپس میں لڑنے کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں۔کاش! مسلم دنیا فلسطینی مظلوموں کے لیے سب بھول کر کچھ عرصے کے لیے ایک ہوجائے اور خود فلسطینی بھی اپنی آزادی ہی کو اوّلیت دیں، اندرونی سیاست بعد میں کرلیں۔ پاکستان کی معیشت کے متعلق اچھی خبریں اکثر حکومتی اہل کاروں سے ملتی رہتی ہیں۔

کورونا کے باوجود معیشت کی مضبوطی کی خوش خبری سُنائی گئی۔تاہم، ہمارے سامنے عالمی بینک کا علاقائی جائزہ بھی ہے، جو اِتنا خوش کُن نہیں۔اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی شرحِ نمو اعشاریہ پانچ رہے گی۔جب کہ افغانستان کی 2.5 ،سری لنکا کی 3.5 ، بھارت کی 5.4 اور علاقے کی مجموعی شرحِ نمو 4.7 رہے گی۔اِس سے دنیا اور خطّے میں ہماری معاشی حیثیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین