• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مشکل گھڑی میں اعصاب شکنی تو بہت سُنی دیکھی، مگر حسِ مزاح کو پھڑکتے کبھی کبھار ہی دیکھا۔ وزیراعظم پر پاناما لیکس کی مصیبت کیا ٹوٹی کہ برادر خورد سمیت لیگی وزرا کی جیسے کہیں سِٹی گم ہو گئی۔ ماسوا چوہدری نثار کے جو اپنے لیڈر سمیت سبھی کی دُکھتی رگوں کو چھیڑنے سے باز آنے والے کہاں۔ لیگیوں کی خاموشی توڑی بھی تو رانا ثناء اللہ کی پُرمزاح پھبتیوں نے۔ پہلے اُنہوں نے پانامہ لیکس کو پاجامہ لیکس کہہ ڈالا تو اُن کی پھبتی سر سے گزر گئی۔ اُنہوں نے ڈرگ (نشہ) لیکس کا ذکر کیا چھیڑا کہ پسلیاں بھی لوٹ پوٹ ہو گئیں۔ اب اگر بیچارے سیاستدانوں کے صبح شام خون یا پیشاب کے نمونے حاصل کئے جانے لگے تو نظریاتی کونسل کے بعض لوگوں کی چاندی ہو جائے گی، بشرطیکہ افیون(بطور دوا) نشے سے مبرا قرار دی جا سکے اور ہمارے کچھ ہم پیالہ علماء بھی، جنہیں طبِ یونانی کی جانب سے استثنیٰ حاصل ہے۔ معاملہ فقط پھبتیوں سے ٹلنے والا نہیں اور ایسے وقت میں جب لیگ اور لیگی حکومت پر وقتِ حساب ہے۔ وزیر اعظم علاج کیلئے کیا گئے کہ مسئلہ آن پڑا کہ کون اُن کی کرسی سنبھالے۔ خادمِ اعلیٰ کو کیا پڑی تھی کہ وہ سر اوکھلی میں دیتے۔ ویسے بھی اُنھیں ترقی کی فکر دامن گیر کئے ہے، یا پھر کرپشن کا ایک ایک پیسہ واپس لانے کی کھسیانی یاد دم سادھنے پہ مجبور کئے ہے۔ قرعہ پڑا بھی تو سمدھی کے سر جو ہر بلا کو ٹالنے میں یکتا ہیں۔ یا پھر ہونہار صاحبزادی جو صم بکم، وزیروں کو شیر بن شیر کی دہائی دیتی سنائی دیں۔ جس بھتیجے کو تیار کیا جا رہا تھا وہ بھی کہیں غائب ہو گیا ہے۔ پہلے بھی جب بپتا پڑی تھی تو بیگم کلثوم ہی میدان میں اُتری تھیں اور اب اُن کی صاحبزادی! یہ سنگین اتفاق ہے کہ پانامالیکس نے جب شریف لوگوں کی پگڑی اُچھالی تو ہمارے وزیراعظم صاحبِ فراش ہوئے۔ ہماری تاریخ میں سیاستدانوں کی موقع بے موقع بیماریاں کافی مشہور ہوئیں جیسے مولانا بھاشانی کی سیاسی بیماریاں یا پھر وقتِ زوال اسکندر مرزا اور پھر ایوب خان کی بیماریاں۔ لیکن ہمارے میاں نواز شریف واقعی عارضۂ قلب میں مبتلا ہیں۔ شیر زخمی ہے اور یار لوگ ہیں کہ بخشنے کو تیار نہیں۔ رانا ثناء اللہ کی حسِ مزاح پھڑکی بھی تو اس وقت جب راجن پور کے رجھان مزاری کے کچے کے علاقے کے باغی کسان ڈاکوئوں سے پنجاب کی نہایت تربیت یافتہ ایلیٹ کمانڈو فورس بہادری سے ـلڑنے کے باوجود پسپائی پر مجبور ہو گئی۔ یہ پنجاب کی مضبوط قیادت کیلئے اچھا شگون نہیں جو کمان اپنے ہاتھوں میں رکھنے پر ابھی تک مصر تھی۔ بات تھی بھی درست، آخر پولیس ہی نے یہ کام کرنا ہے تو پھر ہر جگہ پاک فوج ہی پر کیوں بوجھ ڈالا جائے۔ باقی جگہوں پر بھی جہاں فوج دہشت گردوں کا صفایا کر چکی، معاملات کو سنبھالنے کیلئے سول اداروں کو کام پر لگانا ہوگا۔ گورننس اسی کا نام ہے۔
یہ تو تھی گپ شپ، اب موضوع کو درفنطنیوں سے آگے بڑھاتے ہیں۔ پاناما لیکس نے دُنیا بھر میں سرمایہ داری نظام میں ایک ہلچل مچا دی ہے۔ ٹیکس سے بچنے اور کالے دھن کو چاندی کرنے کے خفیہ کھاتوں کے انکشاف نے ہمارے وزیراعظم کے برخورداروں سمیت تیرہ سربراہانِ مملکت اور 143 بڑے سیاستدانوں کو اخلاقی احتساب کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ جن میں آئس لینڈ کے وزیراعظم، برطانیہ کے وزیراعظم، مالٹا کے حکمران، روسی صدر کے قریبی دوست، یوکرینی صدر، مصر کے سابق صدر کا بیٹا، برطانوی جماعتوں کے مالی مددگار اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے بیورو کے کئی اراکین کے نام شامل ہیں۔ ابھی یہ فقط ایک کمپنی جو اس دھندے میں چوتھے نمبر پر ہے کے نام ظاہر ہوئے ہیں جس کے پاس ایسی تین لاکھ کمپنیاں تھیں جو یہ کارِ حرام انجام دے رہی تھیں۔ 375صحافیوں نے ایک کروڑ پندرہ لاکھ دستاویزات کو کھنگالا ہے۔ اور جوں جوں تفتیش آگے بڑھے گی، زلزلے کے جھٹکے آتے رہیں گے۔ ہر نیا دِن اک بُری خبر لائے گا۔ قانونی مشیروں نے قانون کی بیساکھیوں کا سہارا لینے کا جو مشورہ دیا تھا، وہ اُلٹا گلے پڑ گیا۔ کیونکہ جس قانونی کمپنی نے یہ دھندہ چلایا ہے، خود اُسی کے اپنے بیان ایسے ہیں کہ کوئی شریف آدمی اُس کے پاس جانے سے کترائے گا۔ موساک فونسیکا (Mossack Fonseca) کی اس کمپنی کے میمورینڈم کے مطابق ’’ہمارا 95 فیصد کام ٹیکسوں سے بچانا ہے۔‘‘ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم نے ایک ایسا عفریت تشکیل دے دیا ہے جو عدالتوں سے 100 فیصد بچاتا ہے، جو تیز ترین وکیلوں کے چھکے چھڑا سکتا ہے اور جو آٹھ دہائیوں سے دُنیا بھر کے امیروں کی دولت محفوظ رکھے ہوئے ہے۔‘‘ عالمی طور پر مشہور معیشت دان گیبریل زوک مین (Gabriel Zucman) کے مطابق دُنیا کی کل دولت کا آٹھ فیصد یعنی 7.6 کھرب ڈالر اِن کھاتوں میں محفوظ ہے جس سے سالانہ 200 ارب ڈالر کے ٹیکسوں کی چوری ہوتی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی عالمی مسابقے کی رپورٹ برائے 2015-16ء کے مطابق پاکستان میں کرپشن کاروبار کے راستے میں سب سے اہم رکاوٹ ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی 2013ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ ٹیکس چوری 2000 ارب روپے (19.4 ارب ڈالرز) کے برابر ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق جن لوگوں سے سروے میں پوچھا گیا، اُن میں سے 75 فیصد لوگوں نے بتایا کہ اُنھوں نے زمین حاصل کرنے کیلئے رشوت دی۔ 55 فیصد نے محکمہ ٹیکس کو رشوت دی۔ 65 فیصد نے پولیس کو رشوت دی اور 36 فیصد نے عدلیہ کی مٹھی گرم کی۔ بقول اسحاق ڈار سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں پاکستان کے امیروں کے 200 ارب ڈالر جمع ہیں (جو کہ بہت زیادہ لگتا ہے) البتہ یہ درست ہے کہ 2013ء میں ٹیکس چوری سے جو نقصان ہوا، وہ ہماری قومی پیداوار (GDP) کا 7.3 فیصد ہے۔ اگر یہ ٹیکس چوری روک دی جائے تو بجٹ خسارہ رہے گا نہ خرچے پورے کرنے کیلئے قرضوں کی ضرورت۔ ڈاکٹر اکمل حسین کے مطابق ٹیکس چوری کی وجہ سے غریبوں کی آمدنیوں پر ٹیکس کا بوجھ زیادہ یعنی 6.8 فیصد جبکہ امیروں پر یہ صرف 4.3 فیصد ہے۔
کرپشن کے سایوں کے پیچھے بھاگنے کی بجائے بہتر ہے کہ جاری اور آئندہ ہونے والی کرپشن کو روکنے کیلئے وسیع اور حقیقی انتظامی و قانونی اصلاحات کی جائیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو ایک کروڑ گیارہ لاکھ ا سکولوں سے باہر بچوں کو پڑھنے ڈالا جا سکتا ہے، جس پر فقط 1.5 ارب ڈالرز کا خرچہ آئے گا۔ (کاش اورنج لائن کے پیسے ہی ادھر لگا دیئے جائیں)۔ بچوں کو مدرسوں کی نذر کرنے کی بجائے معیاری تعلیم دینے کیلئے فقط 15 ارب ڈالرز کی ضرورت ہوگی۔
غریب لوگوں کیلئے اچھی صحت کی سہولتوں پر ہر سال فقط آٹھ ارب ڈالرز کی ضرورت ہوگی۔ دُنیا کی بہترین یونیورسٹی کے قیام پر 40 ارب ڈالرز درکار ہوں گے۔ اگر اسحاق ڈار کا تخمینہ درست ہے تو ان تمام کاموں پر کل 135 ارب ڈالرز خرچ ہوں گے اور آپ باقی 65 ارب ڈالرز سے اپنے قرضے دے سکتے ہیں یا پھر ایسی سرمایہ کاری جس سے روزگار بھی ملے، پیداوار بھی ہو اور اس کے منافع سے قرض بھی ادا کر دیئے جائیں۔ حزبِ اختلاف کو بھلا اس سے کیا غرض۔ اُن کی سیاست کا تقاضا ہے کہ شریف خاندان سیاست سے فارغ ہو جائے۔ دوسری طرف شریف خاندان کو اپنی فکر پڑی ہے۔ تحقیق و تفتیش پر اتفاق تو نہیں ہو پا رہا، البتہ سیاستدان ایک دوسرے کی پگڑیاں اُچھال اُچھال کر جمہوریت کو رسوا ضرور کر رہے ہیں۔ پہلے یہ کام اقتدار پہ قبضے کے مشتاق جرنیل کروایا کرتے تھے، اب یہ کام سیاست دانوں ہی کے دستِ مبارک سے ہو پا رہا ہے۔
پلے باندھنے کی بات یہ ہے کہ چُھپائی گئی دولت اب چُھپنے والی نہیں۔ یہ وکی لیکس، اسنوڈن اور پاناما لیکس کا زمانہ ہے جو خفیہ رازوں کو عوام کے سامنے کھول کر اُنھیں سوال اُٹھانے کے ہتھیاروں سے لیس کر رہا ہے۔ وزرائے اعظم مستعفی ہو رہے ہیں، حکومتیں ہل رہی ہیں اور عالمی سرمایہ دارانہ جتھہ بندیاں سرمایہ دارانہ گند صاف کرنے کی جستجو کر رہی ہیں۔ رازوں کو افشا کرو کا اطلاعاتی زمانہ کسی سنسر، کسی اسلحہ اور کسی طاقت سے رُکنے والا نہیں، خواہ آپ اطلاعات تک رسائی کے قانون کو نہ پاس کریں اور خواہ قومی اسمبلی سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کو کنٹرول کرنے کیلئے کیسا ہی کالا قانون کیوں نہ پاس کرے۔ جمہوریت میں عوام کو اطلاعات تک رسائی دی جاتی ہے تاکہ عوام طاقتور ہوں اور آمریت اور سلامتی کے اداروں میں اطلاعات ضرورتاً مطلقہ لوگوں تک محدود رکھی جاتی ہیں۔ بس چند کھاتوں کے سامنے آنے سے ہیوی مینڈیٹ والی جماعت ہل کر رہ گئی ہے۔ اور سیاستدانوں کی اخلاقی قوت کمزور پڑنے سے موجودہ نظام کا جمہوری پہلو کمزور تر ہو چلا ہے۔ عقل کے ناخن اب نہ لئے تو پھر دیر ہو جائے گی۔ ویسے دیر پہلے ہی بہت ہو چکی۔ بُری جمہوریت کا حل اچھی اور ستھری اور عوامی جمہوریت میں ہے۔ اور جمہوریت میں شفافیت اور احتساب لازمی ہے۔ خود احتسابی اور پورے مالی، قانونی، مالیاتی اور انتظامی ڈھانچوں میں وسیع تر اصلاحات سے ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا نہ کہ ایک دوسرے کو الزامات کی صلیب پر چڑھانے سے یا پھر کسی اور ڈکٹیٹر کو لا کر۔ رانا ثناء اللہ کو بات ڈرگ لیکس سے آگے بڑھانی چاہئے۔ اب سسٹم کی لیکس پر دھیان دیا جائے اور خود کو احتساب کیلئے بھی پیش کیا جائے! مشکل گھڑی میں حسِ مزاح اچھی بات ہے اگر عقل کو گھاس چرنے کیلئے نہ چھوڑ دیا جائے۔
تازہ ترین