رفتہ رفتہ نہیں، بات یکا یک تک جا پہنچی ہے، اجی اب ہم حکومت سے اپنی محبت چھپانے سے قاصر ہیں۔ محبت سچی ہو تو بدنامی سے بھلا کون ڈرتا ہے۔ اب پیپلزپارٹی برا کہے ،نون لیگ یا مولانا فضل الرحمٰن ،اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اجی محبت ہو کیوں ناں، کہ حکومت دل و جاں سے انصاف بذریعہ احتساب کرنا چاہتی ہے، اور انصاف بھی وہ جو نظر آرہا ہے۔ اب ایسے میں دل فریفتہ نہ ہو تو کیا ڈوب جائے؟ یہ دل ہے کوئی معیشت یا جمہوریت نہیں کہ تحریک انصاف کے ہوتے ہوئے ڈوب جائے۔
کہتے ہیں ’’ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں‘‘ اسی کے مصداق، ’’احتسابیت‘‘ پہلا قرینہ ہے جمہوریت کے قرینوں میں۔ یہی چال اور چلن رہے تو وہ دن دور نہیں جب اصلی قابلِ احتساب بھی دبوچے جائیں گے بس ذرا اگلا الیکشن جیت لینے دیجئے ، منزل بس دو گام ہے۔ہمیں تو حکومت کی یہ ادا بہت پسند آئی کہ اجلاس نہ ہونے کی پاداش میں آرڈیننس متشکل کرکے سندھ اور بلوچستان کے کچھ جزیروں کو وفاقی آسمان کے زیر سایہ کرلیا۔ یہ سب گویا گود لینے کے مترادف ہے،گود لینا انسانی ہمدردی اور انسانی حقوق کے قریب تر کا معاملہ ہے۔ گر جنوبی پنجاب کے الگ صوبے والا وعدہ ایفا نہیں ہو رہا تو اس میں قصور کسی وعدے یا معاہدے کا نہیں ممتا کا ہے۔ ممتا کے وسیع دامن اور اپوزیشن کی تر دامنی کی قسم اگر جنوبی پنجاب میں بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے صوبہ کے حامیوں میں اختلاف ختم ہونے کے درپے نہیں یا وہ سب سیکرٹریٹ کو اونٹ کے منہ میں زیرہ سمجھتے ہیں، تو جلد آئیے جلد پائیے کی بنیاد پر ممتا کے بحربیکراں سے استفادہ کرتے ہوئے آفاقی آواز کے سنگ جنوبی پنجاب یا سرائیکی پٹی کو وفاق سے دامن گیر کرنے کی استدعا بلند کریں کیونکہ پرانی اذاں کا فائدہ تو کچھ ہوا نہیں۔ دیکھئے! کب ایکٹ پاس ہو، کوئی قانون بنے، اور صوبہ بنے، لہٰذا بہتر نہیں کہ صدارتی آرڈیننس سے استفادہ فرمائیے اور اسلام آباد کے مزے جنوبی پنجاب میں بیٹھے پائیے، ہماری طرح اس اسمارٹ اور خوبصورت حکومت سے محبت کا قرار پائیے۔ صوبہ جنوبی پنجاب محاذ کے راہبران و زاہدان کیلئے بھی سرخرو ہونے کا سنہری موقع اور کوئی نہیں۔ وفاق میں وہ وزیر تو ہیں ہی اوپر سے مال و متاع کا سکنہ بھی وفاق ہوجائے گا۔ واللہ نظارے ہی نظارے! جو محبت ہمیں حکومت سے ہوچلی ہے گر آپ کو نہ ہوجائے تو پھر کہنا۔ سیاست کے کھیل کو کرکٹ کھیل کا آمیزہ بنانے والے ہمارے ایک ڈپٹی کمنٹریٹر دوست کو سنچریوں کا شوق ایسے ہی جیسے ایک شریف آدمی کو اپنی بیگم کی سوتنیں لانے کا شوق ہو۔ بہرحال حکومت اور کرکٹ کی محبت میں وہ فرماتے ہیں کہ ’’اے اہل وطن! گھی کی ڈبل سنچری اور چینی کی پہلی سنچری کے بعد کپتان کی زیر قیادت آٹا بھی جنوری تک سنچری کرنے جارہا ہے۔ کپتان نے احتیاط سے کھیلنے کی نصیحت کی ہے کیونکہ کھیل انتہائی دردناک اور ظالم مرحلے میں داخل ہوا چاہتا ہے‘‘ درد ہو اور ظلم بھی ، اور محبت نہ ہو؟ اجی محبت تو ہوگی اور وہ بھی سچی محبت! ازراہ کرم ہماری محبت کو ایزی نہ لیا جائے ورنہ عاشق نامراد کی صدا ساتویں آسمان تک نہ بھی پہنچے تو چھٹے آسمان سے پہلے نہیں رکتی۔
ہم عشق پرستوں کا بھی کیا معاملہ ہے کہ، پیار کیا تو پیار کیا، نفرت کی تو نفرت۔ ہاں،جو کام ہم سے نہ ہو سکے اسے اللہ پر چھوڑ کر اور سرہانے تلے بازو رکھ کر یوں سو جاتے ہیں جیسے سوئےہوئے محل کے باسی ہوں۔ ایک میراثی کے مخالفین نے اتنی ترقی کرلی کہ اس کے سامنے ایک بلند و بالا جدید عمارت کھڑی کردی۔ اس نے ٹھان لی مقابلہ تو کرنا ہے۔ اور مقابلہ بھی کم خرچ اور بالا نشیں ہونا چاہئے پس ایک شاندار فیصلے کے بعد وہ صبح سویرے اس عمارت کی طرف منہ کرکے اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا کر روزانہ باآواز بلند فریاد کرتا’’ اللہ تو رازق ہے خالق ہے مالک ہے غفور ہے رحیم ہے۔ تو میری نیت کو خوب جانتا ہے تو علیم ہے خبیر ہے۔ مولا میں ان مخالفین کا ترقیات میں مقابلہ نہیں کرسکتا سو تو اپنے فضل و کرم سے ان کی عمارت کو زمین بوس کردے‘‘۔
سب باتیں چھوڑئیے اور اس پر غور فرمائیے کہ جس طرح اس حکومت نے تمام دوستوں کو ایڈجسٹ کیا ہے اور برکتوں سے سعادتوں تک میں آنر شپ دی ہے مگر جس طرح پاکستان کے نمبر ون میڈیا گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمن کو بلاوجہ اور غیرقانونی طور پر پابند سلاسل رکھاہے ، حقیقی میڈیا کو خاموش اور اپنے ساتھیوں کی حرکتوں کو فراموش کیا ہے، ایسے میں حکومت سے محبت نہیں ہوگی تو کیا جینؤئن احتجاج کرنے والی اپوزیشن سے ہوگی؟ محبت اب نہیں ہوگی تو کب ہوگی؟ پڑوسی حکومت تو لمبا چکر کاٹ کر ایک نئی ترمیم کی حماقت کرکے مخصوص علاقے کی خصوصی اہمیت ختم کرتی ہے۔ اور ہماری پیاری حکومت وقت ضائع کئے بغیر خصوصی اہمیت کے علاقے گود لے کر ان پر ایک اتھارٹی بنا کر انتظام و انصرام کا کام بھی پل بھر میں سونپ دیتی ہے۔ آنے والے دنوں میں، محبت کی آماجگاہ اس حکومت کو سمجھنے میں گلگت بلتستان کے لوگوں کو بھی محبت کا جواب محبت ہی سے دینا چاہئے کہ حالیہ الیکشن میں محبت کی روئی کا جواب محبت کے عطر سے ہو۔ غور فرمائیے پی ڈی ایم کے احتجاج کیلئے حکومتی آنکھیں کس قدر فرش راہ تھیں سو ایویں نئیں ہمیں حکومت سے محبت ہونے چلی!
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے