باقاعدگی سے ہوائی سفر میری سیاسی و سماجی مصروفیات کااہم خاصہ ہے، کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا جب میرا ایئرپورٹ سے پالا نہ پڑتا ہو، تاہم رواں ہفتے کراچی تا اسلام آباد سفر میرے لئےخوشگوار ثابت نہ ہوسکا، ہوائی سفر کے دوران مسلسل ماسک لگاکر سونے کے بعد میں آکسیجن کی کمی کا شکار ہوگیا اور اسلام آباد ایئرپورٹ پر لینڈگ کے دوران کمزوری محسوس ہونی لگی، آخرکار ایئرپورٹ سے باہر گاڑی میں بیٹھتے ہوئے میری طبیعت تیزی سے بگڑگئی اور میرے ڈرائیور کو مجھے گھر کی بجائے اسپتال لے جانا پڑا۔وفاقی دارالحکومت میں واقع اسپتال پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) میں گزارے گئے تین دن میری زندگی کے ناقابل فراموش دن ثابت ہوئے،اس سے قبل میں زندگی کے مختلف حقائق کے بارے میں پڑھا کرتا تھااور سوچا کرتا تھا لیکن سرکاری اسپتال میں دوران علاج میں نے اپنی آنکھوں سے تلخ حقائق کا مشاہدہ کیا۔ میں نے دیکھا کہ کیسے غریب اور بے چار لوگ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری اسپتال میں دربدر پھرنے پر مجبور ہیں، ان کے پیارے ان کی آنکھوں کے سامنے جان کی بازی ہاررہے ہیں لیکن وہ میڈیکل ٹیسٹ اور علاج معالجے کے اخراجات اٹھانے سے قاصر ہیں، سرکاری اسپتال میں موجود ہر مریض، لواحقین اور عملے کی اپنی اپنی تکلیف دہ کہانی تھی۔کراچی میں موجود میرے بچوں کو جب معلوم ہوا کہ مجھے اسپتال میں داخل کرایا جارہا ہے تو انہوں نے پرائیویٹ اسپتال میں علاج معالجے پر زور دینا شروع کردیا۔تاہم یہ میری خوش قسمتی ثابت ہوئی کہ مجھے اسپتال کے کارڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں داخل کیا گیا جس کا سربراہ فرض شناس اور فرشتہ صفت انسان ہے۔ جس اچھے طریقے سےانہوں نے میرا چیک اپ کیا ، اس سے مجھے ایک روحانی اطمینان محسوس ہوا، میں نے اپنے بچوں سے بھی یہی کہا کہ ایک دفعہ آکرپماس اسپتال کا کارڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ دیکھ لو، اس کے بعد خود اپنی رائے بدل لو گے۔مجھے دو دن کیلئے سی سی یو میں داخل کیا گیا، اس دوران میں نے دیکھا کہ ہر دو گھنٹے بعد صفائی کیلئے سوئپر باقاعدگی سے آتا رہا، وارڈ کی صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جاتا رہا، نرسنگ اور دیگر عملہ بہت اخلاق سے پیش آتا رہا ، میں نے جتنا وقت وہاں گزارا مجھے کسی قسم کے منفی رویے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔تاہم میں تو بطور ممبرقومی اسمبلی پمز اسپتال میں علاج معالجے کا حق رکھتا ہوں لیکن عام شہریوں کے ساتھ سرکاری اسپتال میں کیسا سلوک کیا جاتا ہے، اس سوال کا جواب جاننا میرے لئے بہت اہم تھا۔ایک طرف مجھے خوشی ہے کہ اس اسپتال کے کارڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں انسان دوست پالیسی وجہ سے سارے ڈاکٹر اور اسٹاف سب مریضوں سے بہت محبت سے پیش آتے رہے ، دوسری طرف مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مریضوں کیلئے ا نجیوگرافی، سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی کنٹراسٹ جیسی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کیلئے فیس طلب کی جارہی ہے ۔ میں نے خود دیکھا کہ مہنگی دوائیوں خریدنے کی سکت نہ رکھنے پر غریب آدمی وہاں پریشانی کا شکار تھا،اتوار کے دن لیب بند تھے اور مریضوں کو باہر سے ٹیسٹ کرانے کا کہا جارہا تھا۔میری نظر میں یہ انسانیت کی تذلیل ہے کہ کسی بھی اسپتال میں درد سے تڑپتے مریض کو علاج کیلئے پیسے نہ دینے کی بناء پرانکار کیا جائے جبکہ اسپتال بھی عوام کے ٹیکسوں کی کمائی سے چل رہا ہو۔ اسی طرح پولی کلینک اور دیگر اسپتالوں میں سی ٹی سکین اور ایم آر آئی کی عدم فراہمی کی بناء پر ایمرجنسی کے مریض اس اسپتال میں منتقل کئے جارہے تھے، درد سے تڑپتے مریضوں کو ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال منتقل کرنا کہاں کی انسانیت ہے؟اکیسویں صدی میں ایسی افسوسناک صورتحال کسی بھی حکومت کیلئے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہونی چاہئے۔میں سمجھتا ہوں کہ سرکاری اسپتال میں مریضوں سے ٹیسٹ کی فیس طلب کرنا اور مفت دوائیوں سے انکار سرکاری اسپتال کے قیام کے بنیادی اغراض و مقاصد کی بھی نفی ہے۔ایمرجنسی کے مریضوں کی اس اسپتال میں منتقلی کے حوالے سے ابھی بیس اکتوبر کو قومی اسمبلی سیشن میں محترمہ ساجدہ بیگم ایم این اے نے بھی سوال اٹھایا ہے۔امیر غریب کے ساتھ دہرے رویے نے مجھے کراچی میں قائم امراضِ قلب کے ادارے این آئی سی وی ڈی کی یاد دلا دی، حکومت سندھ کے قائم کردہ اس ادارے میں اگرایک دفعہ مریض داخل ہوجائے تو اسکی مالی حیثیت کے قطع نظر اسپتال کی نظر میں وہ فقط ایک مریض تصور کیا جاتا ہے جس کا درد دور کرنا اسپتال کا فرض ہے، چاہے اس پر ایک لاکھ سے لے کر بیس لاکھ تک خرچہ آجائے، اگر آئی سی ڈی لگانے کی بھی ضرورت پڑے تو اسپتال ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔میں این آئی سی وی ڈی جیسے زبردست ادارے کو چلانے کیلئے سندھ حکومت کو بھی کریڈٹ دیتا ہوں جنہوں نے کبھی اسپتال کودرکار فنڈز کی فراہمی کی شکایت نہیں ہونے دی۔افسوس کا مقام ہے کہ ہیلتھ کا شعبہ کبھی بھی کسی وفاقی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہ ہوسکا،آج تک قومی بجٹ میں ہیلتھ کے شعبے کو درکار فنڈز مختص نہ ہوسکے ا ور نہ ہی انکا شفاف استعمال یقینی بنایا جاسکاہے۔ حکومت وقت کو سمجھنا چاہئے کہ ایک فلاحی ریاست کی پہچان تمام شہریوں کو سہولتیں بالخصوص مفت علاج ہے، آج این آئی سی وی ڈی کراچی جیسے رول ماڈل اسپتالوں کا جال پورے ملک میں پھیلانے کی اشد ضرورت ہے جہاں ملک کے کونے کونے سے مریض آتے ہیں، وفاقی حکومت کو اسلام آباد میں این آئی سی وی ڈی جیسا ادارہ بنانے پر توجہ دینی چاہے، اگر وفاقی حکومت کی ترجیحات میںیہ شامل نہیں توپھر سندھ حکومت کو اسلام آباد میں این آئی سی وی ڈی کی برانچ قائم کرکے ہیلتھ کے شعبے میں اپنی دلچسپی کا ثبوت دینا چاہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)