• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم لاہور کے صحافیوں نے کوئٹہ کے دو روزہ دورے میں جو کچھ سنا اور مشاہدہ کیا اور 30اپریل کی شام یومِ شہدا کی تقریب میں جو مناظر دیکھے اور آرمی چیف جنرل کیانی کے جو ارشادات ہمارے کانوں تک پہنچے ،اُن سے اِس امر کا یقین ہوتا جا رہا ہے کہ پرانے تعصبات کے بادل چھٹ رہے ہیں اور قربتوں کی ایک نئی تاریخ طلوع ہو رہی ہے۔ انتخابات کے حوالے سے بلوچستان کا شورش زدہ علاقہ غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گیا ہے اور قومیت پرست جماعتوں کی طرف سے انتخابات میں حصہ لینے کا عزم ایک دور رس اور خوشگوار تبدیلی کا آئینہ دار ہے۔ ہم اِسی خوشگوار تبدیلی کا مشاہدہ کرنے کوئٹہ گئے۔ جناب انوار الحق کاکڑ نے ہماری ملاقات کوئٹہ کلب میں سیاسی قائدین سے کرائی جو انتخابات کے بارے میں پُرعزم بھی تھے اور شدید تحفظات بھی رکھتے تھے مگر وہ علیحدگی پسند عناصر کے بارے میں پوری طرح یکسو تھے اور گولی کے بجائے ووٹ کے ذریعے بلوچستان کے عوام کو اقتدار و اختیار کا مالک بنانا چاہتے تھے۔ ہمارے دو روزہ قیام کے دوران ہم پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ قوم پرست جماعتوں کے مابین سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا سلسلہ جاری ہے اور جماعت اسلامی نے جناب محمود خاں اچکزئی کی حمایت سے انتخابی معاہدہ کر لیا ہے اور اِس امر کا قوی امکان پیدا ہو چلا ہے کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک ہوں گے یا سردار اختر مینگل۔ دونوں ہی صورتوں میں علیحدگی پسند تحریکیں پسپا ہو جائیں گی اور قومی دھارے کی سیاست کو فروغ ملے گا جس میں نون لیگ کا کردار بڑی اہمیت کا حامل قرار پائے گا۔
جب ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ کو معلوم ہوا کہ صحافیوں کا وفد کوئٹہ جا رہا ہے تو اُنہوں نے بطورِ خاص آئی جی ایف سی اور کمانڈر ساوٴتھ کمان سے بریفنگ کا اہتمام کیا۔ ہمیں آئی جی ایف سی میجر جنرل عبید الله خاں سے ملنے کا بڑ ااشتیاق تھا کہ اُن کی لاپتہ افراد کے حوالے سے عدالت ِعظمیٰ میں باربار طلبی ہوئی تھی اور اُن کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ وہ فولادی اعصاب کے مالک ہیں۔ وہ کوئی ایک بجے دن کے لگ بھگ راولپنڈی سے کوئٹہ پہنچے اور سیدھے ہمارے پاس آئے۔ ہمارے دوستوں نے اُن سے پوچھا کہ اخبارات کی اطلاعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچستان میں زیادہ تر گڑبڑ کی ذمے دار فرنٹئیر کور ہے جو شہریوں کو اُٹھا لیتی ہے اور بعد میں اُن کی لاشیں برلبِ سڑک ملتی ہیں اور یہ کہ اِس ادارے میں بلوچ بہت کم تعداد میں ہیں اور اِس نیم فوجی ٹیم میں کرپشن بہت زیادہ ہے۔ میجر جنرل عبیدالله خاں نے اِس اعتراف کے ساتھ بریفنگ شروع کی کہ جب میں نے اکتوبر 2011ء میں کمان سنبھالی تو ابتدائی سروے کے بعد اندازہ ہوا کہ اس فورس میں ایک موٴثر نظامِ تربیت کے ذریعے ایک نئی روح پھونکنے کی ضرورت ہے  چنانچہ تربیت کا ایک جدید نظام وضع کیا گیا جس کی بدولت ایف سی کی استعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور وہ افغانستان اور ایران کے ساتھ پاکستان کی سرحد کی نگرانی  امن و امان کے قیام میں صوبائی حکومت کی مدد  قومی اثاثوں  ترقیاتی منصوبوں اور اہم تنصیبات کی حفاظت کو بطریقِ احسن پورا کر رہی ہے اور خیر سگالی کے جذبے کے تحت تعلیم  صحت اور عوامی فلاح و بہبود کے سلسلے میں قابلِ قدر خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ صرف اِس کے 23اسکول اور کالج تیرہ ہزار بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ فوج کے بیرکوں میں چلے جانے کے بعد ایف سی صوبے کی فرنٹ فورس بن گئی ہے اور اِس کا ریاست کے خلاف ہتھیار اُٹھانے والوں کے ساتھ مقابلہ ہے۔ ہم قانون کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں اور لاپتہ افراد کے معاملے میں ہمارے دشمن مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں حالانکہ اُن کی تعداد اب صرف 48رہ گئی ہے۔ اُنہوں نے انکشاف کیا کہ ایف سی میں بلوچ قومیت کی پلاٹونیں اب 103ہو گئی ہیں۔
اُن کے بعد ساوٴتھ کمان کی طرف سے جی او سی کوئٹہ میجر جنرل مظہر سلیم نے بریفنگ دی اور بتایا کہ جنرل کیانی نے کمان سنبھالنے کے بعد بلوچستان کے عوام کے دل جیتنے کے لیے نئی چھاوٴنیاں تعمیر کرنے کے سارے منصوبے ختم کر دیے اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعاون سے چالیس سے زائد تعلیمی اور فلاحی منصوبوں اور انفراسٹرکچر کی تعمیر پر خصوصی توجہ دی ہے۔ بہت سارے ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے ستر ہزار کے لگ بھگ نوجوان برسرِ روزگار ہوئے ہیں اور ہزاروں طلبہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو آنے والے آٹھ دس برسوں میں اپنے صوبے کے معاملات خود چلانے کی صلاحیتوں سے معمور ہوں گے۔ ظہرانے پر ہمیں تین میجر جرنیلوں سے تبادلہٴ خیال کا موقع ملا اور ہمیں ذہن کے دریچے کھلنے کا احساس ہوا جب اُنہوں نے اِس امر کا اظہار کیا کہ ہمیں سیاست دانوں کی قدرومنزلت کرنی چاہیے کہ وہ عوام کو متحد رکھتے  اُن میں شعور پیدا کرتے اور امورِ مملکت چلانے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرتے ہیں۔
سرِشام ہمیں کوئٹہ پریس کلب کے صدر جناب شوکت رضا نے چائے پر مدعو کیا اور بلوچستان کے حالات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ اُنہوں نے بتایا کہ ہمارے صحافی نہایت مشکل حالات میں اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں کیونکہ علیحدگی پسند تنظیمیں اُنہیں انتخابی مہم کی کوریج سے روک رہی ہیں اور اُنہیں ٹارگٹ بنا رہی ہیں۔ گزشتہ پانچ سات سال میں 34کے لگ بھگ صحافی شہید کیے جا چکے ہیں اور صوبائی حکومت نے اُن کے وارثین کو معاوضہ بھی ادا نہیں کیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ ہمیں کسی قسم کا تحفظ حاصل نہیں اور ہم بلوچستان کے مسائل کے بارے میں جو رپورٹیں بڑی محنت سے اور خطرات مول لے کر تیار کرتے ہیں  وہ ٹی وی چینلز پر نشر ہوتی ہیں نہ بڑے اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ بلوچستان کے آٹھ دس جنوبی اضلاع میں اخبارات جاتے ہیں نہ ٹی وی کیبل کام کرتی ہے  اِس وجہ سے رشتے کمزور پڑتے جا رہے ہیں۔ اُن کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے ہم نے اُن سے مکمل اظہارِ یک جہتی کیا اور اِس امر پر زور دیا کہ بین الصوبائی وفود کے تبادلے سے قومی یک جہتی کو فروغ مل سکتا اور قدم سے قدم ملا کر چلنے کا جذبہ مستحکم ہوتا ہے۔
عشائیے پر نگران وزیر اعلیٰ جناب نواب غوث بخش باروزئی سے ملاقات ہوئی جو سابق اسپیکر اور وزیر اعلیٰ جناب نواب محمد خاں باروزئی کے ہونہار فرزند اور اپنے قبیلے کے سردار ہیں۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں اور تیرہ زبانیں جانتے ہیں اور یہ اعزاز بہت کم نوابوں اور سیاست دانوں کو حاصل ہوا ہے۔ اُن کی گفتگو میں ایک تاثیر اور ایک مٹھاس ہے اور وہ چھوٹے چھوٹے فقروں میں بڑی بات کہہ جاتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمارا مسئلہ وقت پر شفاف انتخابات کرانا ہے اور سیاسی اور فوجی قیادت کی سرگرمیوں اور کاوشوں سے قوم پرست جماعتیں انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں جو سیاسی طور پر بہت بڑی پیش رفت ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں اَن گنت چیلنجوں کا سامنا ہے  مگر ہم سارے وسائل بروئے کار لائیں گے اور فوج جو عوام کی طاقت(might)ہے  اُسے پُرامن انتخابات کے لیے استعمال کریں گے۔ ہم نے اُن کا شکریہ ادا کیا کہ اُنہوں نے ہمیں بلوچستان کو انتخابات کی لڑی میں پرونے سے منسلک ہونے کا موقع فراہم کیا۔
30/اپریل کی رات جی ایچ کیو میں یومِ شہدا کی تقریب منعقد ہوئی جس میں جنرل کیانی نے اُن سیاسی عناصر پر پوری طرح واضح کر دیا کہ ڈراما بازی کے ذریعے انتخابات منسوخ کرانے کی ہر سازش ناکام بنا دی جائے گی۔ اِس تقریب کی امتیازی شان یہ تھی کہ اِس میں فوج  رینجرز  ایف سی  پولیس اور لیویز کے شہدا کے علاوہ سیاست دان بشیر بلور اور صحافی نصرالله آفریدی بھی شامل کر لیے گئے ور یوں اے این پی کے بارے میں تحفظات کی دیوار منہدم ہو گئی ہے اور یہ روح پرور احساس خوشبو کی طرح پھیلتا جا رہا ہے کہ ذہن کے دریچے کھلتے جا رہے ہیں۔
تازہ ترین