پہلے تو یہ جان لیں کہ کسی اپ سیٹ کے نتیجے میں وجود میں آنے والا سیٹ اپ کبھی سیٹ نہیں ہوتا ہے۔ تاریخ پاکستان اس قول کو بار بار بر حق ثابت کررہی ہے۔آج اتوار ہے۔ بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا دن۔ ان کے ڈھیروں سوالوں کے جوابات دینے کا دن۔ ٹک ٹاک کیوں بند ہوئی۔ پھر کھل کیوں گئی۔ کورونا کی لہر پھر کیوں ابھر رہی ہے۔ امریکہ میں اگلے مہینے ٹرمپ دوبارہ صدر بن جائیں گے یا جوبائیڈن۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت دوبارہ بن رہی ہے یا نہیں۔ یہ بھی بات ہوسکتی ہے کہ آن لائن کلاسز کیسی چل رہی ہیں۔ اور عمران خان کی حکومت کب گر رہی ہے؟
آپ بتائیے کہ امریکہ کے دونوں صدارتی امیدواروں کے مباحثے آپ کو کیسے لگے؟ میں تو جہاں اور بہت سی تشویشوں میں مبتلا ہوں ۔ وہاں ان مباحثوں کے معیار سے بھی بہت مایوس ہوا ہوں۔ کورونا نے دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے ذہنی معیار کو بھی متاثر کردیا ہے۔ انتخابی مہم کی ساری شان و شوکت ماسک کی نذر ہوگئی ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات میں کسی دَور میں پوری دنیا کو دلچسپی ہوتی تھی۔ واشنگٹن کو عالمی دارُالحکومت کہا جاتا تھا۔ ٹرمپ کی سفید فام پالیسیوں نے اور چین کی جارحانہ سفارت کاری۔ ایک پٹی۔ ایک روڈ نے امریکہ سے عالمی قیادت چھین لی ہے۔ امریکی عوام کے پاس کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔ ٹرمپ بھی گزشتہ امریکی صدور کے مقابلے میں بہت پست ثابت ہوئے ہیں۔ خارجہ پالیسی میں بھی۔ اندرونی حکمت عملی میں بھی۔ صحت کا نظام بھی امریکیوں کو موت کے منہ میں جانے سے نہ روک سکا۔ اقتصادی طور پر سخت بربادی ہوئی ہے۔ جوبائیڈن بھی سیاسی اور اقتصادی شعور میں انتہائی پسماندہ ہیں۔ مجھے تو امریکی عوام پر ترس آرہا ہے کہ انہیں اس نازک وقت میں دو بہت ہی کمزور امیدوار ملے ہیں۔ عالمی قیادتوں میں ایک انحطاط آیا ہے۔ خوف آتا ہے کہ یہ ایسے الجھے ہوئے ذہن انسانوں کی قسمتوں کے فیصلے کریں گے۔
یہی ترس مجھے اپنے آپ پر اور اپنے ہم وطنوں پر بھی آتا ہے کہ ہمارے پاس بھی نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ آئین کی حکمرانی ہے۔ پارلیمنٹ ہے۔ سارے صوبوں میں اسمبلیاں چل رہی ہیں۔ آزاد جموں کشمیر میں اسمبلی ہے۔ گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں مگر انسانیت بے آبرو ہے۔ عدل سے محرومی ہے۔ پہلے دو پارٹیاں باری لیتی رہیں۔ قوم کے سامنے متبادل عمران خان کی صورت میں آیا۔ کرپشن کیخلاف اس کے جہاد پر پاکستان کے کروڑوں ووٹرز نے لبیک کہا۔ لیکن برسوں سے کرپٹ سیاستدانوں کے ساتھ کرپٹ افسروں نے، مافیائوں نے کرپشن کے خلاف مہم کو نتیجہ خیز انداز میں چلنے نہیں دیا۔ لوٹا ہوا پیسہ واپس نہ آسکا۔ عدالتیں کمزور پڑ رہی ہیں۔ اب قوم کے سامنے عمران خان کے متبادل کے طور پر پھر انہی آزمودہ بد عنوانوں کو لایا جارہا ہے۔ یہ دونوں پارٹیاں نہ صرف گزشتہ دہائیوں میں بلکہ گزشتہ صدی میں بھی حکمران رہی ہیں۔ ان کے اپنے کارکن بھی اور عام سنجیدہ پاکستانی بھی ان کے ادوار کا کوئی قابل ذکر کارنامہ یاد نہیں دلاسکتے۔ ملک غریب ہوتا گیا۔ چند خاندان امیر تر ہوتے گئے ۔ اب ایسا ماحول پیدا کردیا گیا ہے کہ عام آدمی خوف زدہ ہے کہ عمران خان کے بعد پھر وہی باریاں شروع ہوسکتی ہیں۔
ہم جو گزشتہ کئی عشروں سے اقتدار کے ایوانوں اور غلام گردشوں کو بہت قریب سے دیکھتے آرہے ہیں۔ غلاموں کے خاندان حکومتیں کررہے ہیں۔ غلام آگے بھی غلام تلاش کرتے ہیں۔ آزاد ملک کے شہری ہونے کے باوجود کروڑوں ہم وطنوں کو غلامی میں ہی مزا آتا ہے۔ کچھ جاگیرداروں کے غلام ہیں۔ کچھ سرداروں کے۔ کچھ نوکر شاہی کے۔ کچھ وردی کے۔ ہم نے بہت نزدیک سے مشاہدہ کیا ہے ۔ بعد میں شاہی ایوانوں کے واقفانِ حال نے اپنی آپ بیتیوں میں بھی لکھا کہ کوئی سیاسی تحریک بھی غیر سیاسی قوتوں کی در پردہ حمایت کے بغیر نہیں چلی ہے۔ 1958 سے پہلے بھی اور بعد میں بھی ان مقتدر قوتوں کا واضح کردار رہا ہے۔ جب بھی قوم حکمران طبقوں کے ظلم اور جبر سے تنگ آکر انقلاب کے راستے پر چل نکلنے والی ہوتی ہے تو کوئی مصنوعی خوشنما تبدیلی لائی جاتی ہے۔عام پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے جنرل ایوب خان کو اپنے جلسوں جلوسوں سے اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا۔ مگر حقائق اس کا سہرا جنرل یحییٰ خان کے سر باندھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جنرل یحییٰ۔ مشرقی پاکستان میں شکست اور عام لوگوں کے احتجاج کے باعث دستبردار ہوئے۔ مگر تاریخ نے یہ معرکہ بھی جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم خان کے نام رقم کیا ہے۔ پی این اے والے جناب ذوالفقار علی بھٹو کی مضبوط حکومت گرانے کو اپنا کارنامہ خیال کرتے ہیں۔ جنرلوں کی کتابیں بتاتی ہیں کہ یہ جنرل ضیا کے کمال فن کا اظہار تھا۔پھر جنرل ضیا کس طرح رخصت ہوئے؟ ایم آر ڈی کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے۔ جنرل اسلم بیگ اس سے پردہ اٹھاسکتے ہیں ۔ میاں نواز شریف کے تین بار وزیر اعظم بننے میں بھی کچھ جنرلوں کا در پردہ کردار تھا۔ اور تینوں بار ان کی برطرفی میں بھی جنرل ہی پیش پیش تھے۔ جنرل عبدالوحید کاکڑ کی وزیر اعظم ہائوس اور ایوانِ صدر میں آمدورفت تاریخ کا حصہ ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوبار برطرفی میں بھی وردی کی مصروفیات شامل رہی ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی رخصتی اور جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں بھی جنرل کیانی کے مثبت کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔سیاسی تحریکیں ان در پردہ قوتوں کی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں رہی ہیں۔ جہاں ان کی حمایت نہیں حاصل رہی۔ وہ تحریکیں اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچی ہیں۔ تھوڑے لکھے کو بہت جانیں۔ بیانیوں سے جوش میں نہ آئیں۔
اس وقت مجھے جو تشویش ہے کہ بڑے میڈیا میں بھی ۔سوشل میڈیا میں بھی۔سیاسی قیادت اور فوجی قیادت کے خلاف جو لہجہ۔ جو زبان اختیار کی جارہی ہے، وہ گزشتہ ادوار میں کبھی استعمال نہیں ہوئی ہے۔ یہ منظر نامہ کسی مہذب سماج کی تصویر پیش نہیں کرتا ہے۔ یہ بحران صرف سیاسی اور اقتصادی نہیں ہے۔ بد ترین قسم کا اخلاقی بحران ہے۔ ایسا ایسا جھوٹ بولا جارہا ہے ۔ جعلی خبریں چلائی جارہی ہیں۔ کہانیاں گھڑی جارہی ہیں۔قوم بٹی ہوئی ہے جس کے مخالف لیڈر یا ادارے کا مذاق اڑایا جارہا ہے، وہ اس سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ یہ احساس کیے بغیر کہ ہم اخلاقی طور پر پستیوں میں گر رہے ہیں۔ اخلاق بافتہ معاشرے استحکام کھودیتے ہیں۔