• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزادی کے بعد سے پاکستان میں حکومتوں  کیخلاف اور جمہوریت کیلئے تحریکیں چلتی رہی ہیں، بعض کو عوامی پذیرائی میں کم تو کسی کو کچھ زیادہ وقت لگا۔پی ڈی ایم کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس نے روزِاول سے عوام تک پہنچنے کا وہ معرکہ سر کرلیاہے جس کیلئے گزشتہ ہر اتحاد نے نت نئی حکمت عملی و سلوگن اپنائے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ موجودہ تحریک کے سنگ ہر خاص وعام نے چلنے کا فیصلہ کرلیا ہے کہ اس کا اندازہ تو آنے والے دنوں میں ہی لگایاجاسکے گا، ہمارا کہنا محض یہ ہے کہ حکومت کے حامی و مخالف ہر ایک تک اس تحریک کی آواز جتنی برق رفتاری سے پہنچ چکی ہے، اس کیلئے قبل ازیں کی تحاریک کو مہینے درکار ہوتے تھے۔ اس کی ایک اہم وجہ جہاں سوشل میڈیا ہے وہاں مہنگائی، بے روزگاری اور بے یقینی بھی بنیادی عوامل ہیں۔ تاہم ملک بھر کے عوام کیلئے اس تحریک میں دلچسپی کاسامان تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی رونما ہونے والے بعض انہونے واقعات نے پیدا کیا ہے۔ ان میں سے ایک میاں نوازشریف کی بے باک تقریر کو اگر ہم ایک طرف رکھ دیں تو باقی واقعات میں پی ڈی ایم کاکوئی جوہر وہنر نہیں، یہ حکومت کی کوتاہ نظری کو عیاں کرتے ہیں۔ کیپٹن (ر)صفدر کی جانب سے مزارقائد پر نعرے کا وہ واقعہ جو پی ٹی آئی کیش کرسکتی تھی، اپنی عجلت کی بدولت نہ صرف اس نے یہ نادرموقع کھو دیا بلکہ لینے کے دینے پڑ رہےہیں۔ پیپلز پارٹی جس پر ایک بڑی تعداد یہ اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں کہ وہ آخر تک پی ڈی ایم کے ساتھ کھڑی رہےگی،اس شک کا اظہار وہ چیئرمین سینٹ کیخلاف عدم اعتماد سمیت مختلف شواہد کی بنا پرکرتے ہیں، لیکن اس واقعہ کے بعد پیپلز پارٹی بھی یہ سوچنے پر مجبور کردی گئی ہے کہ نرم گوشے کے باوجود اُن کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس سے زیادہ ہونے کا یہ آلام تھا۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں پیپلز پارٹی جیسی جماعت، جس کےماضی کا تشخص دمادم مست قلندر سے عبارت ہے،اپنی مصلحت آمیز پالیسی پر غور کیلئے مجبور ہوسکتی ہے۔گویا اس واقعہ نے پی پی کو پی ڈی ایم سے مزید نتھی کر دیاہے۔ پی پی اس واقعہ کےبعد بننے والی اپنی پوزیشن کو حسب ِ معمول رعایتوں کیلئے بھی استعمال کرسکتی ہے لیکن جو ردِعمل آیا ہے شاید وہ اس ردِعمل کو اُس طرح مفادات تلے نہ کچل سکے جس طرح وہ خاموش سیاسی فضا میں اپنے پتے کھیلتی رہی ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے منہ پر ہاتھ پھیرکر غیر مدبرانہ لب ولہجے سے جہاں اہل فکر ونظر کوقلبی تکلیف ہوئی وہاں ان کی جانب سے یہ کہنا کہ خواجہ آصف انتخابات میں ہار رہےتھے‘سپہ سالارکو فون کیاتوجیت گئے۔اس انکشاف پرلوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا وزیراعظم کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس طرح انتخابات میں اُس مداخلت کااعتراف کررہے ہیں جو پی ڈی ایم کا بنیادی نکتہ ہے؟ بلاشبہ پی ڈی ایم اداروں پرتنقیدکررہی ہے لیکن اُس سے بھی زیادہ نقصان دہ امریہ ہے کہ حکومتی ترجمان بلاناغہ یہ کہتے رہتےہیں کہ ہم گیٹ نمبر 4پرپہلے سے بیٹھے ہیں‘ اب اپوزیشن کیلئے وہاں داخل ہونے کا کوئی راستہ نہیں۔ کیا ایسے دوست نما دشمن دانستہ یہ تاثر نہیں دے رہےکہ اقتدار تک رسائی کا راستہ گیٹ نمبر 4سے گزر کرہی آتاہے؟

ان تمام باتوں کے باوجود پی ڈی ایم کو جو امتحان درپیش ہے،وہ باہمی اعتماد اور اپنی مقبولیت کو مقررہ جمہوری اہداف کیلئے بروئےکار لاناہے۔ نیز ایسا پروگرام پیش کرناہےجس میں مہنگائی، بے روزگاری سمیت دیگر عوامی مسائل پر قابو پایا جاسکے، مہنگائی کا دارومدار آئی ایم ایف کی شرائط، ذخیرہ اندوز مافیا اور کرپشن سے ہے،پی ڈی ایم آخر کس طرح ان چیلنجز سے نبردآزما ہوسکے گی؟ لوگ سوالات اُٹھاتے ہیں کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ مہنگائی مافیا کے وہ سرخیل، جن کا پی ڈی ایم کے جلسوں میں نام تک نہیں لیا جاتا،آئندہ ان کی صفوں میں موجود نہیں  ہونگے،کہیں ایسا تو نہیں کہ مجوزہ ان ہائوس تبدیلی کیلئے یہ تحریک ایسے ہی عوام دشمن عناصرکو اپنے ساتھ ملانے کا ارادہ رکھتی ہے؟ ماضی میں جس طرح پی پی اور ن لیگ اقتدارکیلئے دیگرقوتوں سے ساز باز کرتی رہی ہیں، کیا ضمانت ہے کہ اب نہیں کریں گی؟ اگر پی ڈی ایم کا ایجنڈامحض حکومت کا خاتمہ نہیں، پائیدارجمہوری نظام کا قیام ہے تو وہ اس کیلئے کیا حکمت عملی رکھتی ہے؟ خلاصہ یہ ہے کہ آئین اگرچہ ایک عمرانی معاہدہ ہی ہےلیکن اس آئین کو عملی طور پر سپریم بنانے اور مذکورہ دیگر امور طے کرنے کیلئے جس عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے،اس معاہدے پر تاحال نہ پہنچنے سے ان شبہات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ پی ڈی ایم کا نعرہ تو سول بالادستی ہے لیکن یہ کیسے ہو؟ اس کیلئے وہ کوئی پروگرام نہیں رکھتی۔

تازہ ترین