کرپشن ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے اور پاکستان اور اسکے عوام کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔کرپشن کا ناسور پاکستان میں اس قدر سرایت کر گیا ہے کہ اب اس برائی کو برائی ہی نہیں سمجھا جاتا جبکہ یہ ناسور پاکستان کو روزِ اول سے کھوکھلا کرتا چلا آ رہا ہے۔ وفاقی اور صوبائی اداروں میں اور اقتدار کے ایوانوں میں شاہانہ معیارِ زندگی رکھنے والے ملک اور قوم کی دولت بغیر کسی خوف کے لوٹنے میں مصروف ہیں۔کرپشن کے ناسور کے خاتمے کے لئے، سولہ نومبر 1999کو نیشنل اکائونٹیبلٹی آرڈیننس، جسے عرفِ عام میں نیب کہا جاتا ہے، متعارف کرایا گیااورنیب کو خود مختار اور آزاد ادارہ قراردینے کے ساتھ ساتھ نیب کے سربراہ کو سپریم کورٹ کے جج کی طرح تحفظ فراہم کیا گیا، اس کے ساتھ ہی نیب کے قانون کو 1985سے نافذ العمل قرار دے کر وہ لوگ، جنہوں نے 1985کے بعد کسی بھی طرح اپنے عہدے سے نا جائز طور پر فائدہ اُٹھاتے ہوئے ملکی دولت لوٹی تھی، اُن کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔ پاکستان کے قیام کے 52سال کے بعد ملک میں کرپشن سے لوٹی گئی رقم کی وصولی کے لیے یہ انتہائی اہم قانون بنایا گیا تھا جبکہ اس وقت کرپشن کے خاتمے کے لیے صوبائی سطح پرمحکمہ انسدادِ رشوت ستانی اور وفاقی سطح پر فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی(ایف آئی اے) بھی کرپشن، بدعنوانی اور اختیارات کے نا جائز کے تدارک کے لیے کام کر رہے تھے لیکن ان دونوں محکموں کی موجودگی کے باوجودنیب کو کرپشن، بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے ذریعے لوٹی گئی رقم کی وصولی کے لیے وسیع اختیارات تفویض کیے گئے لیکن تیئس نومبر2002میں نیب آرڈیننس میں ترمیم کر کے نیب کوملکی دولت لوٹنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے اور لوٹی دولت کی وصولی کے علاوہ پاکستان کی وفاقی او ر صوبائی وزارتوں ،محکمہ جات،کارپوریشنز اور لوکل باڈیز میں ہونے والی کرپشن کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے کی ذمہ دار ی بھی سونپ دی گئی تا کہ پاکستان سے کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ کر عوام کو کرپشن فری پاکستان دیا جا سکے۔ اس ترمیم کے تحت نیب آرڈیننس کے دیباچے میں پیرا گراف چار اور پانچ کا اضافہ کر دیا گیا جس میں تحریر کیا گیا کہ فوری ضرورت اس امر کی ہے کہ کرپشن سے ہونے والے نقصانات اور کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا خاتمہ کرنے کے لیے کئے جانے والے اقدامات کے لیے بنائی جانے والی حکمتِ عملی اور طریقۂ کار کے بارے میں عوام کو آگہی اور تعلیم دی جانی چاہئے اور بین الاقوامی طور پر کرپشن کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی طور پر قانونی ہم آہنگی پیدا کرنی چاہئے ۔ دیپاچے میں مندرجہ بالا اضافے کے ساتھ دفعہ 33سی اور دفعہ 28(ایف) کا اضافہ کیا گیا جس کی رو سے چیئر مین نیب کے لیے لازم قرار دیا گیا کہ دفعہ 33سی کی ذیلی دفعات اے تا ای پر عملدرآمد کے لیے نیب کے آفیسران ، دیگر اشخاص یا آرگنائزیشنز پر مشتمل کمیٹیاں قائم کریں اور ان کمیٹیوں کو نیب آرڈیننس میں شامل کی گئی۔ دفعہ 33سی کی ذیلی دفعہ اے کے تحت وفاقی اور صوبائی افسروں اور اہلکاروں کے علاوہ عوام الناس کو کرپشن اور کرپٹ پریکٹس سے مقابلہ کرنے کے لیے آگاہی دینے کی ذمہ داری دی گئی ہے جبکہ ذیلی دفعہ بی کے تحت میڈیا اور دیگر ذرائع سے کرپشن کے ذریعے ہونے والے نقصانات اور پبلک ایڈمنسٹریشن کی راست بازی کی اہمیت سے عوام الناس کو آگاہ کرنا شامل ہے۔ ذیلی دفعہ سی کے تحت وفاقی اور صوبائی وزارتوں، محکمہ جات،پبلک کارپوریشنز اور لوکل باڈیز وغیرہ کے نافذ العمل قوانین کے علاوہ رولز اور ریگولیشنز کا جائزہ لیکر ان میں ترامیم تجویز کریں تا کہ ان وزارتوں اور محکمہ جات سے کرپشن کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکے۔ ذیلی دفعہ ڈی کے تحت سرکاری اور پرائیویٹ کارپوریشنز اور باڈیز کو کرپشن میں کمی اور خاتمے کے لیے مشورہ اور امداد دینے کے لیے متذکرہ بالا اداروں کو دی جانے والی ہدایات اور ان پر عملدرآمد کا مکمل جائزہ لینا اور ان ہدایات پر عمل کر کے کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کے خاتمے میں کس قدر کامیابی حاصل کی گئی ہے، کا جائزہ لینا مقصود ہے، دفعہ 28(الف )میں چیئر مین نیب کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ نیب آرڈیننس کے تحت نیب کی کارکردگی بہتر بنانے اور پاکستان سے کرپشن کے خاتمے کے لیے اپنی معاونت کے لیے ماہرین تعینات کر سکیں۔دیکھنا یہ ہے کہ 2002میں نیب آرڈیننس کے دیباچہ میں پیراگراف نمبرچار اورپانچ کے ساتھ دفعہ 33سی اور دفعہ 28(ایف) کا اضافہ کر کے نیب کو ملک کے تمام سرکاری ونیم سرکار ی اداروںاور دیگر با ڈیز وغیرہ سے کرپشن ختم کر نے کا جو فریضہ سو نپاگیا تھا، اس پر نیب نے کس قدر عمل کیا ہے اور ملک سے کس حد تک کر پشن کا خاتمہ ہو سکا ہے ؟ اس کا اندازہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ، جس کے مطابق، پاکستان 2017میں 180ممالک میں کرپشن کے لحاظ سے 117ویںنمبر پر تھا‘ اب 2019میں 120ویں نمبر پر آگیا ہے، سے لگایا جا سکتا ہےجو کہ انتہائی افسوس ناک امر ہے۔
اگر نیب اپنے قوانین 2002میں کی گئی ترامیم کے مطابق لوٹی ہوئی دولت کی وصولی کے ساتھ ساتھ دفعہ 28ایف اور دفعہ 33سی پر اسکی روح کے مطابق گزشتہ سترہ سالوں میں عمل کر لیتا تو آج پاکستان واقعی دنیا کے پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ نیب کرپشن روکنے کے لیے مئوثر اقدامات کرنے میں ناکام رہا ہے۔میری چیئر مین نیب سے درخواست ہے کہ ملک سے کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کے مستقل خاتمے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرتے ہوئے دفعہ 28ایف اور دفعہ 33سی کی روشنی میں نیب کے ہیڈ کوارٹرز میں مستقل بنیادوں پر ریسرچ ڈیپارٹمنٹ قائم کریںاور چار وں صوبوں میں نیب کے دفاتر میں ریسرچ ڈیسک قائم کریں اور ملک میں موجود قانون کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ دیگر پبلک اور پرائیویٹ سیکٹرز اور آرگنائز یشنز کو ذمہ داریاں تفویض کر کے کمیٹیاں قائم کریں اور یہ کمیٹیاں کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کے خاتمے کے لیے تجاویز مرتب کر کے چیئر مین نیب کو پیش کرتی رہیں۔ نیز عوام کی رسائی ان ریسرچ سنٹرز تک یقینی بنائی جانی چاہئے تا کہ پاکستان کے محبِ وطن شہری اپنی تجاویز اس ریسرچ سنٹراور ڈیسک تک پہنچا سکیں کیونکہ کوئی بھی حکومت کرپشن ختم کیے بغیر اپنے عوام کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتی۔ مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ چیئرمین نیب میری گزارشات پر توجہ دیکر اس ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی میں اپنا بھر پور کردار ادا کریںگے۔