پچھلے سال ان دنوں عمران نقوی پرویسی ہی کیفیت طاری محسوس ہوئی جیسی دس سال پہلے ہوئی۔ تب اپنے گائوں مہمندوالی کو یادکرتے، غزلیں اورنظمیں کہتے کہتے اچانک مکہ سے ہجرت کرکے آتے نبی رحمت ﷺ کا استقبال کرتی مدینہ کی بچیوں سے ہم آواز، نعت مزاج ہوگئے تھے۔اس کیفیت کا بیان مشکل ہے، ان لمحوں کا احاطہ دشوار کہ جب دل، دماغ،زبان، کاغذ مدحِ رسول ﷺ میں یک جا اوریک جاں ہوں۔یہاں کوشش نہیں، توفیق تھی۔عجب وفور کا عالم تھا۔کچھ دنوں میں ـ’وجب الشکرعلینا‘ کی شکل میںایک تحفہ شاید تشکیل کے ساتھ ہی دربارِپیمبر ﷺ میں پذیرائی پاچکا تھا۔ اسی کتاب پرصدارتی سیرت ایوارڈ کے حق دار کے طورپرعمرہ کے لیے قرعہ نکلا۔درِرسول ﷺ کی حاضری مقدرٹھیری۔یوں لگا کہ بلاوا دینے والے نے اپنے پاس آنے کا اہتمام کیا۔
تین دہائیوں سے زائد عرصہ ہوا جب لاہور کے سنٹرل ماڈل اسکول کے ساتھ قائم درس گاہ، جسے آج کل یونیورسٹی آف ایجوکیشن کہتے ہیں، میںان سے دوستی کی ابتدا ہوئی۔کرکٹ سے ہم دونوں کو دل چسپی تھی۔ یہیں پڑھتے پڑھتے ایک روزریڈیو پاکستان جاپہنچے۔ریڈیو کے اچھے دورکے آخری سال پروڈیوسرارشادحسین کی بڑے بھائیوں ایسی رہ نمائی میں دیکھے۔یہاں لکھتے اوربولتے میں تو انگریزی زبان کے ایک روزنامہ سے منسلک ہو گیا،عمران اردو زبان کے اخبارسے۔
اسی روزنامہ کے ادبی ایڈیشن کے مدیرکے طورپر عمران نقوی نے لا تعداد فیچرز لکھے اور معتبر ادبی شخصیات کے انٹرویوز کیے۔کئی شعری مجموعے تخلیق کیے ۔ شعر اور نثرمیںکتابیں خیمہ شام، حرفِ ملاقات، حرف زار، شرفِ ملاقات اور کل دی گَل اے کے عنوانات کے تحت چھپیں۔ اخبار سے الگ ہوئے تو کچھ عرصہ مجلس ترقی ادب سے مدیر کے طورپر وابستہ رہے۔پھرنظریہ پاکستان ٹرسٹ چلے گئے جہاں بہت سی اہم تحریری ذمہ داریوں کے علاوہ ٹرسٹ کے زیر اہتمام نوجوانوں کیلئے نکلنے والے رسالے ’’ہونہار‘‘ کی ادارت بھی کرتے رہے۔ سیرت ایوار ڈ کے علاوہ بھی کئی قومی اور صوبائی ایوارڈز پائے۔ ریڈیو پاکستان سے ریڈیو کالم پیش کیے اور بہت سے علمی وادبی پروگراموں کی کمپیئرنگ کی۔
بذلہ سنج تھے۔ کئی سال بیتے، ایک ادیب کولقوہ ہوگیا ۔اس بیماری میں چہرے میں جوابتدائی تبدیلی آتی ہے سوآئی۔عمران نقوی ان کی عیادت کو گئے۔جاتے ہی پہلا جملہ جوکہا یہ تھا: یارتم ہی تو شہرمیں ایک شخص تھے جومجھ سے سیدھے منہ بات کرتے تھے، تم بھی۔۔۔بیمارادیب، جوچندروز بعد صحت یاب ہوگئے، کے چہرے پربشاشت آگئی۔کہنے لگے: بیماری کی حالت میں ایسا صحت مندجملہ سننے کو ملا، واہ واہ۔دوسروں کو صحت دیتے جملے کہنے والے عمران نقوی پچھلے ماہ کی تین تاریخ کووفات پا گئے۔یاسیت نہ جانے کہاں سے بار باردرآتی تھی۔پچھلے سال اپنا ایک شعربھیجا:
عمر کٹتی دکھائی دیتی ہے
وقت کٹتا نظر نہیں آتا
یہی یاسیت دل کے دورہ کا سبب بنی۔
عمران نقوی معروف معنوں میں مذہبی نہیں تھے۔مگرمحبت رسول ﷺ کی روایت کے امین تھے۔ان کے ماموں اورسسر امین علی نقوی نعت گوتھے۔ان کی کتاب ’محمدؐ ہی محمدؐ‘ میں تمام نعتیں غیرمنقوط ہیں یعنی ان میں ایسا کوئی لفظ نہیں ہے جس میں نقطہ ہو۔بڑے بھائی پروفیسر ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی نعتیہ ادب کے محقق تھے۔عمران نقوی نے نعتیہ ادب سے منسلک اہم شخصیات کی زندگی اور فن کے حوالے سے ان کی حیات و خدمات پر کتاب ’دلیلِ آفتاب‘ ترتیب دے رکھی ہے۔ مجددِ نعت جناب حفیظ تائب کی خدمات کو بیان کرتی کتاب’اک شخص مہکتی چھاؤں سا‘ لکھنے کا اعزاز بھی ان ہی کوملا۔عمران نقوی کی شعری اور نثری خدمات پرتحقیقی مقالات بھی لکھے جا چکے ہیں۔ زندگی کی آخری ساعتیں پھر سے مبارک ٹھیریں۔وہ پھرسے کعب بن زہیر،عبداللہ ابن رواحہ اور حسان بن ثابت کی مدحِ رسول ﷺ کی روشن راہ پر گام زن تھے:
زہے نصیب کہ اب ہوں ثنا کے رستے پر
مر ا چراغ جلے گا ہوا کے رستے پر
پچھلے ایک سال سے ان کے دل سے پھر گنبدِخضرا کی زیارت کی ہوک اٹھ رہی تھی۔وہ کہہ رہے تھے:
تری جانب پلٹنا چاہتا ہوں
مگر رہ میں زمانہ پڑ رہا ہے
اسی درماندگی میں وہ نعتیہ اشعار کہہ رہے تھے:
جب کبھی دل پہ درِ غارِحرا کھلتا ہے
اس گھڑی کورنگاہوں پہ خدا کھلتا ہے
رحمۃ للعالمین ﷺ کے دربارمیں حاضری تو قبول ہوگئی ہوگی!