فکرفردا … راجہ اکبردادخان حالیہ کراچی واقعات جہاں ایک طرف مزار قائداعظم پر ہلڑ بازی کرکے خالق پاکستان کی توہین کی گئی ، دوسری طرف اس واقعہ کی تفتیش کے دورانسینئر پولیس افسران کے چھٹیوں پر چلے جانے کے اقدامات ایسے واقعات ہیں جن پر پاکستانی قوم کو سوچنے کی ضرورت ہے، دونوں صورتوں میں ایسے حالات کیوں پیدا ہوئے، ہر چھوٹا بڑا سیاسی قائد مزار قائداعظم پر حاضری دینا اپنی اخلاقی اور سیاسی ذمہ داری سمجھتاہے اور اس عمل سے گزرتا ہے لیکن جس طرح کیپٹن (ر) صفدر نعروں کے درمیان اس جگہ کے احترام میں کمی لائے، ہر محب وطن پاکستانی کے لیے نعرہ بازی کے مناظر دلی تکلیف کی وجہ بنے ہیں۔کیپٹن (ر) محمد صفدر کا خاندان بے شمار مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور ان کے لیے قومی تکریم کی جگہوں کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کرنا ایک نامناسب سوچ ہے جس سے پاکستان زندہ باد مخالف لابی کو بوسٹ ملی ہے۔ کیپٹن (ر) صفدر پاکستان محافظ دستہ کا حصہ رہے ہیں۔ آج انہیں اپنی کسی نئی شناخت کی تلاش میں آگے نہیں بڑھنا چاہیے، کیونکہ بہتری کی تمام راہیں پاکستان سے محبت اور یگانگت پہ پہنچ کر منزل حاصل کرتی ہیں۔ مزار قائد پر ہلڑ بازی کے نتیجہ میں اور کچھ ہوا یا نہ ہوا اس جگہ کا سنجیدہ ماحول یقیناً ڈسٹرب ہوا اور بات قانون شکنی پر پہنچ گئی۔ مریم نواز کا اپنے رفقا کے ہمراہ قائداعظم کے مقبرہ پر تشریف لے جانا اس دن کی ہیڈ لائن اسٹوری بننے کے لیے کافی تھا۔ اس واقعہ سے مسلم لیگ ن کی رپوٹیشن کو نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح جس طریقہ سے مریم اور ان کے شوہر کو رات گئے ڈسٹرب کیا گیا، اس کا دفاع نہیں کیا جاسکتا اور واقعہ اس کی مذمت کی جانی چاہیے، اس معاملہ میں دو انکوائریاں چل رہی ہیں۔ ان کے نتائج آنے تک اگر ہر کوئی رائے زنی سے اجتناب کرے تو بہتر رہے گا،یہ صوبائی سطح کا معاملہ ہے، جسے اسی طرح پرہینڈل ہونا چاہیے تھا، پاکستان ا یک ایٹمی ملک ہے جہاں پچھلے بارہ برس سے جمہوری نظام چل رہا ہے۔ چاروں صوبوں میں منظم پولیس فورسز ہیں اور ایک منظم فوج، ائر فورس اور نیوی سرحدوں کی حفاظت کے لیے موجود ہیں۔ ایک آئینی ڈھانچہ موجود ہے جس کے تحت ریاست چل رہی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کو اپنے موجودہ مقام سے کہیں اوپر ہونا چاہیے تھا، تاہم پاکستان نہ ایک ایسی ریاست ہے جہاں قانون بالکل موجود نہیں اور نہ ہی ایسا نظام ہے جو مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے۔ تاہم جس طریقہ سے کچھ صوبوں میں بیورو کریسی کے کچھ حصے اور اب سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران کا ایک مضبوط گروہ ریاستی اسٹرکچر کو تباہ کرنے کی طرف چل پڑا ہے۔ وہ ایک تکلیف حقیقت ہے، جس سے دانشمندی سے وزیراعظم سے ہزار اختلاف کیے جاسکتے ہیں مگر ان پر صوبائیت کو فروغ دینے کا الزام نہیں لگایا جاسکتا، کیونکہ ان کی ہر تقریر عموماً ’’میرے پاکستانیو‘‘ سے شروع اور ختم ہوتی ہے اور ان کے بیشتر سیاسی اور انتظامی اقدامات بھی بھرپور پاکستانیت کی عکاسی کرتے دکھائی دیتی ہیں جس طریقہ سے سندھ پولیس نے صوبہ میں دوسروں کے ’’کام چھوڑ اور چھٹی طلب‘‘ مہم چلائی جسے نہ ہی صوبائی حخومت نے اور نہ ہی پی پی قیادت نے روکنے کی کوشش (بلکہ پی پی چیئرمین حمایت دینے آئی جی کے پاس پہنچ گئے) اس بات کی واضح عکاسی ہے کہ یہ جماعت بھی سندھ سے آگے سوچنے کے لیے تیار نہیں۔ سندھ آئی جی کی اگر تذلیل کی گئی ہے تو اس کے مداوا کے لیے یقیناً ایکPolice Complant Procedureموجود ہوگا۔ جسے حرکت میں لایا جاسکتا تھا، مگر ایسا نہیں ہوا ہے بلکہ انہوں نے ایک ایسا طرز عمل اختیار کرتے ہوئے دوسروں کو ساتھ ملاکر وہ راہ اختیار کرلی جسے سادہ زبان میں بغاوت کہا جاسکتا ہے اور جب منظم ریاستی ادارے ایسے راہوں پہ چل پڑتے ہیں تو ریاستی استحکام میں دراڑیں پڑنی شروع ہوجاتی ہیں۔ اگر ہوٹل واقعہ کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو یہاں بظاہر قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک دوسرے کی مدد پھلانگتے نظر آتے ہیں۔ اٹھار ویں ترمیم کے بعد اگرچہ بیشتر اہم امور میں ہر صوبہ آزاد ہے۔ سندھ پچھلے26ماہ سے مرکز سے جس طرح غیر اعلانیہ جنگ میں الجھا ہوا ہے اس صوبہ کے ممبران قومی اسمبلی جس طرح اہم قومی معاملات پر بھی حکومت سے تعاون نہیں کررہے تو کیا بقیہ پاکستان یہ سوچنے میں درست ہوگا کہ اس صوبہ کی پی پی قیادت ایک فعال اور مستحکم پاکستان پروموٹ کرنے کی خواہاں نہیں ہے اور حالیہ پولیس بغاوت اسی سوچ کی ایک جھلک ہے۔ ان دو واقعات کے درمیان ایک تیسرا متنازع معاملہ آرمی چیف کی پولیس ایشو پہ مداخلت سمجھی جاتی ہے۔ بہت لوگوں کی رائے میں اس بغاوت سے آئینی اور ملکی قوانین کے تحت نمٹا جانا چاہیے تھا، اگر یہ60سینئر افسران چھٹیوں پر چلے جاتے تو متبادل سینئر لوگوں کے ذریعہ کام چلایا جاسکتا تھا۔ ریاست کب تک ایسے سیاسی حربوں کو یرغمال بنی رہے گی؟ یہ ایک ایسا سلگتا سوال ہے جس کا ریاست کو جواب تلاش کرنا پڑے گا، ورنہ اس کی رٹ ختم ہونے میں دیر نہیں لگے گی اور معاشرہ مزید بدنظمی کا شکار ہوکر گروہی مفادات کی پکڑ میں آجائے گا۔ پاکستان ایسی صورت حال کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ مرکز کو اہم معاملات میں مزید آئینی طور پر مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، ایسا کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ ریاست کے پاس وکلا کی ایک بھاری تعداد بھی موجود ہے جو ان معاملات کو دیکھ سکتی ہے اور ملک کے اندر ایک ایسا سیاسی اور معاشرتی ماحول بن چکا ہے جہاں ایک ڈیلیور کرنے والے جمہوری نظام جس میں مڈل کلاس کو زیادہ سے زیادہ حصہ ڈالنے کا موقع ملے، کے سامنے آنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ مگر جس طرح کرپشن کی پوشیدہ تجوریوں کے حقائق پچھلے چند سالوں میں تحقیقی اداروں نے سامنے لائے ہیں، ان طویل ثابت شدہ داستانوں کے بعد کوئی آپشن نہیں رہ جاتا کہ قوم کا بہت بڑا حصہ یہ مطالبہ کرتا دکھائی دے کہ تمام سیاسی جماعتوں کی اول درجہ کی قیادت کو سیاست سے باہر کردیا جائے تاکہ باقی ماندہ میں سے اہل لوگ سیاسی طور پر آگے آسکیں اور ملک آگے بڑھ سکے۔