• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا مسلم لیگ (ق) معدوم ہوگئی؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر کی پیپلز پارٹی پر جان کنی کی کیفیت طاری ہے؟ کیا پرلے درجے کی نااہلیت کے سبب عدم مقبولیت کے گرداب میں گھرجانے والی یہ دونوں جماعتیں تحریک انصاف کی آڑ لے کر انتخابات میں کوئی قابل ذکر کارکردگی دکھاسکیں گے؟ کیا نواز شریف دشمنی کے مشترکہ مشن کی بنیاد پر پیپلزپارٹی‘ مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف کے درمیان قائم ہوجانے والا ایک غیر اعلانیہ اتحاد‘ انتخابات کے بعد ایک مخلوط حکومت میں ڈھل سکتا ہے؟ 12 مئی کی صبح تک یہ سوالات بھنور بناتے رہیں گے۔
مسلم لیگ (ق) تو بس ”اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے“ آمروں کے زچہ خانہٴ سیاست میں جنم لینے والی جماعتیں‘ آمروں جتنی ہی عمریں پایا کرتی ہیں۔ ادھر آمر کا عہد آمریت تمام ہوا‘ ادھر ان کا سہاگ اجڑا۔ سو مسلم لیگ (ق) عملاً تحلیل ہوچکی ہے۔ چوہدری صاحبان کی روایتی خوئے دل نوازی اور ان کالنگر خانہ اس کیلئے ”آکسیجن ٹینٹ“ کاکام دے رہا ہے لیکن اس کا سورج بہرحال افق مغرب سے لگا کھڑا ہے۔ بھٹو اور بینظیر کی پیپلزپارٹی کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ وہ قصہ ماضی ہوجانے کو ہے۔ وہ آج بھی جڑیں رکھتی ہے اور پھر سے بھرپور انگڑائی لینے کی سکت رکھتی ہے۔ البتہ وہ اپنی تاریخ کے ایک کڑے دور سے گزر رہی ہے۔ آصف زرداری کی سربراہی میں اس کے تنظیمی ڈھانچے کی چولیں خاصی ڈھیلی ہوگئیں۔ وہ عوام اور کارکنوں سے بھی بہت دور چلی گئی۔ مرکز‘ سندھ اور بلوچستان میں اس کی حکومت کی کارکردگی بھی انتہائی ناقص رہی۔ مبصرین کی اس رائے میں بڑا وزن ہے کہ یہ جمہوری ادوار کی سب سے نااہل اورکرپٹ حکومت تھی۔ 1970ء سے لے کر اب تک یہ پہلاموقع ہے کہ وہ انتخابی مہم میں دکھائی نہیں دے رہی۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اس کا نامہٴ اعمال خالی ہے اور وہ عوام کا سامناکرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ زرداری صاحب‘ قصر صدارت میں قلعہ بند ہیں اور بلاول نہ جانے کہاں ہے۔ اس کے دونوں وزرائے اعظم کرپشن کے الزامات میں لت پت‘ منہ چھپاتے پھررہے ہیں۔ وہ پورے ملک میں ایک بھی بڑا انتخابی جلسہ نہیں کرپائی۔ سارا زور ٹی وی اور اخباری اشتہاروں پہ رہا۔ ان کا مرکزی نکتہ بھی حریفوں پہ کیچڑ اچھالنے کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس سب کچھ کے باوجود خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ سندھ میں اس کی کارکردگی اچھی رہے گی اور وہ مجموعی طور پر پچاس کے لگ بھگ سیٹیں لینے کی سکت رکھتی ہے۔
مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی نے نواز دشمنی کے احساس مشترک کی روشنی میں ایک سوچی سمجھی حکمت عملی بنائی۔ اس حکمت عملی کا جزواعظم یہ تھا کہ عمران خان کو اجالا اور اچھالا جائے۔ دونوں جماعتوں کو یقین ہے کہ جہاں جہاں تحریک انصاف اچھے ووٹ لے گی وہاں وہاں مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچے گا اور یوں ”ن“ کے ووٹ کٹ جانے کے باعث ”ق“ اور پی پی پی کا امیدوار جیت جائے گا۔ اس کیلئے اسلام آباد میں ایک سیل قائم کیا گیا۔ پنجاب 35/ایسے حلقوں کی نشاندہی کی گئی جہاں تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن) کو کہنی مارکر پیپلز پارٹی اور (ق) کا راستہ ہموار کردے گی۔ اس کیلئے ایک جامع پلان تیار کیا گیا۔ پُراسرار ذرائع سے پی ٹی آئی کی مالی مدد کی گئی۔ اس کے جلسوں کی رونق بڑھائی گئی اور اس کا ہار سنگھار کیا گیا۔ اس پلان کے اہم نکات یہ تھے۔
(1) عمران خان پر تنقید نہ کی جائے، وہ کچھ کہے بھی تو نظرانداز کردیا جائے۔(2) ٹیلی ویژن اور اخباری اشتہارات میں صرف مسلم لیگ (ن) کو نشانہ بنایا جائے اور تحریک انصاف کے خلاف کوئی ہلکا سا منفی اشارہ نہ دیا جائے۔(3) جہاں جہاں ممکن ہے پی پی پی اور (ق) کے کارکنوں کو تلقین کی جائے کہ وہ پی ٹی آئی کو ووٹ دیں۔ (4) پی ٹی آئی کے ساتھ خیرسگالی کی ایسی فضا رکھی جائے کہ ضرورت پڑے تو اسے مخلوط حکومت کا حصہ بنایا جاسکے۔ (5) جن ٹی وی چینلز کو مالی مدد فراہم کی گئی ہے انہیں تلقین کی گئی کہ وہ تحریک انصاف کو اجالنے اور اچھالنے پر زیادہ توجہ دیں۔
اسی حکمت عملی کے تحت پی پی پی اور مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں کے بعض اہم بیانات بھی سامنے آگئے جن سے آشکار تھا کہ عمران خان کی کارکردگی کو کس طرح اپنی مانگ کا سیندور بنایا جارہا ہے۔ صدر زرداری سے ملاقات کے دو دن بعد منظور وٹو کا یہ بیان آیا کہ ”عمران خان ہماری مخلوط حکومت کا وزیراعظم ہوسکتا ہے“۔ شیریں مزاری کی ایک مسمسی سی تردید کے علاوہ تحریک انصاف شادی کا پیغام ملنے والی شرمیلی دوشیزہ کی طرح دوپٹے کا پلّو منہ میں داب کر بیٹھ گئی۔
سب کچھ یکطرفہ نہیں تحریک انصاف نے بھی پی پی پی اور (ق) کی اس دوستانہ خیرسگالی کا انتہائی مثبت جواب دیا۔ وفاق میں پیپلز پارٹی کے نامزد وزیراعظم پر انہوں نے کوئی واویلا نہ کیا۔ پنجاب میں بھی پی پی پی کا نامزد وزیراعلیٰ ان کیلئے قابل قبول ٹھہرا۔ سندھ میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے ایک داغ داغ شخص کو نہ صرف وزیراعلیٰ بنالیا بلکہ کابینہ خود تشکیل دے ڈالی۔ خان صاحب نے اس طرف پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ یہی کچھ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہوا لیکن خان صاحب کے کانوں پہ جوں تک نہ رینگی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ہمیشہ سچ بولنے والے کپتان نے کم و بیش ایک سو بار کہا تھا کہ زرداری کے صدر ہوتے ہوئے غیر جانبدارانہ انتخابات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ درجنوں بار کہا کہ زرداری بدستور صدر رہے تو ہم بائیکاٹ بھی کرسکتے ہیں لیکن پھر وہ پُراسرار طور پر خاموش ہوگئے۔ اب انہیں زرداری صاحب کی صدارت سے کوئی گلہ نہیں۔ پنجاب میں وہ محکمہ اطلاعات کے ادنیٰ افسروں کا وجود بھی برداشت نہ کرسکے لیکن انہوں نے پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ کہا جو پی پی پی جیالوں سے اٹے پڑے تھے۔ اس لئے کہ یہ دونوں سرکاری ادارے طے شدہ پالیسی کے تحت پی پی پی کے ہم پلہ تحریک انصاف کا چہرہ بھی نکھار رہے تھے۔
پی پی پی اور مسلم لیگ (ق) ہی کی طرح خان صاحب کی انتخابی مہم کا مرکز و محور بھی نواز دشمنی ہے۔ ان کے ٹی وی اور اخباری اشتہار بھی اسی مدار میں گردش کررہے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے مجھے اپنے زیر تحقیق مقالے کا ایک حصہ بھیجا ہے۔ اس نے تفصیل سے بتایا ہے کہ خان صاحب نے کتنے جلسوں سے خطاب کیا، مجموعی طور پر کتنے گھنٹے اور منٹ خطاب کیا۔ طالبہ کی تحقیق کہتی ہے کہ کپتان نے98.2 فیصد وقت مسلم لیگ (ن)، نواز شریف پر سنگ زنی پر صرف کیا۔ صرف 1.8 فیصد وقت زرداری صاحب کو دیا۔ انہوں نے اس ایم کیو ایم کا ذکر تک نہ کیا جسے وہ ”قاتلوں کا گروہ“ کہا کرتے تھے۔ الطاف حسین کا نام تک نہ لیا۔ مشرف کے بارے میں ایک جملہ تک نہ کہا۔ چوہدری صاحبان کا حوالہ تک نہ دیا۔ سندھ‘ بلوچستان اور مرکز میں ہونے والی بینظیر کرپشن‘ پرلے درجے کی لوٹ مار اور زمین و آسمان لرزا دینے والے اسکینڈلز کی طرف اشارہ تک نہ کیا۔ ”اوئے نواز شریف“ جیسا انداز کسی دوسرے کیلئے اختیار نہ کیا۔ اپنے بلّے سے شیر کی پھینٹی لگانے اور اس کے تکّے کھا جانے کے نعرے لگاتے رہے لیکن پی پی پی اور (ق) کے انتخابی نشانات ان کی آتش بیانی سے خارج رہے۔
بلاشبہ پی پی پی، مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف کے درمیان ایک غیر اعلانیہ اتحاد قائم ہوچکا ہے۔ تینوں کے نعرے ایک جیسے‘ تینوں کے اہداف یکساں‘ تینوں کے الزامات ایک سے‘ تینوں کے تیروں کا رخ صرف ایک شخص کے سینے کی طرف۔ کیا یہ حکمت عملی خان صاحب کیلئے ثمر آور ثابت ہوگی؟ کیا پی پی پی اور (ق) لیگ اپنی حکمت عملی کے مطابق پی ٹی آئی کے ذریعے نواز شریف کے ووٹ کاٹ کر ایک بار پھر حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گی؟ حتمی جواب کیلئے 12 مئی کی صبح تک انتظار کرلیجئے۔
تازہ ترین