• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی سطح پر پاکستانی قوم آج جن داخلی اور بیرونی چیلنجوں سےدوچار ہے ، ملک بھر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری غربت و افلاس میں جس تیزی سے اضافے کا سبب بن رہی ہے، احتسابی عمل کی غیرجانبداری اور شفافیت پر جیسے سنجیدہ اور قابل غور سوالات اٹھ رہے ہیں، دہشت گردی کی معاونت کرنے والے ملکوں کی گرے لسٹ سے باہر آنے کے لیے مطلوبہ حمایت کے حصول میں ہمیں دوست ملکوں کی جانب سے بھی جس رویے کا سامنا ہے،حکومت اور اپوزیشن کے تعلقات کشیدگی کی جس انتہا تک جاپہنچے ہیں، ہمارے باہمی اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مودی حکومت نے بین الاقوامی طورپر متنازع خطہ تسلیم کیے جانے والے مقبوضہ کشمیر کو جیسی آسانی سے بھارت کا آئینی جزو قرار دے ڈالا اور کشمیری عوام کو عالمی سطح پر کسی مشکل کا سامنا کیے بغیر پچھلے سوا سال سے جس سنگ دلی کے ساتھ عملاً محبوس کررکھا ہے، ہر باشعور شخص سمجھ سکتا ہے کہ داخلی اور بیرونی محاذوں پر درپیش اس صورت حال کا مزید جاری رہنا کسی ایسے بڑے قومی سانحہ کا سبب بن سکتا ہے جس کی تلافی ممکن نہ ہو۔ لہٰذا ہمیں کسی مزید تاخیر اور لیت و لعل کے بغیر حالات کو مزید ابتری سے بچاتے ہوئے بہتری کی جانب لے جانے کے لیے مؤثر اور نتیجہ خیز عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ پچھلے چند روز کے دوران حکومت اور اپوزیشن دونوں کی بعض اہم شخصیات کی جانب سے اس مشکل صورت حال سے نکلنے کے لیے حکومت واپوزیشن، پارلیمنٹ اور ریاست کے دوسرے تمام آئینی اداروں، کاروباری برادری اور میڈیا سمیت تمام اسٹیک ہولڈروں کے درمیان گرینڈ قومی ڈائیلاگ کی ضرورت کا اظہار کیا گیا ہے۔ بلاشبہ پاکستانی قوم کو درپیش سنگین داخلی اور بیرونی چیلنج جلد ازجلد اس جانب پیش رفت کے متقاضی ہیں۔ ملک کے سابق چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ نے گزشتہ سال کے اوائل میں منصب سنبھالنے کے فوراً بعد اپنے خطاب میں میثاق حکمرانی کی تشکیل کے لیے اس وسیع البنیاد ادارہ جاتی مکالمے کی تجویز پیش کی تھی اور ٹی وی پر حالات حاضرہ کے حالیہ پروگراموں میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے اہم رہنما اس کی ضرورت ظاہر کرچکے ہیں اور کوئی شبہ نہیں کہ یہ مکالمہ ہماری قومی بقا و سلامتی کے لیے ناگزیر ہے۔ اس گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا اہتمام عدلیہ ہی کی جانب سے ہو تو امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت ، اپوزیشن، فوج، میڈیا اور دیگر ریاستی اداروں کو کسی قسم کے تحفظات لاحق نہیں ہوں گے۔ جہاں تک اس مکالمے کے موضوعات کا تعلق ہے تو اس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں قومی ترجیحات کا تعین شامل ہونا چاہیے۔ انتظامیہ مقننہ عدلیہ سمیت اداروں کے اختیارات اور شرائط کارکی حد بندی، جمہوری نظام کے کردار کی ازسرنو صورت گری یعنی ہمارے سماجی حالات کے مطابق جمہوری اقدار کے فروغ کا اہتمام ،آزادی اظہار کے حدودنیز خارجہ امور، دفاع ، معیشت اور دیگر شعبوں کے پالیسی خطوط کا تعین، نظام انتخابات اور عدلیہ و سول سروس سمیت تمام شعبوں میں اصلاحات کی تفصیلات اس مکالمے کا حصہ ہونی چاہئیں۔ پارلیمنٹ اور دیگرریاستی اداروں کے علاوہ بارکونسل، میڈیا، ٹیکنوکریٹس،کاروباری برادری، مذہبی رہنما، مزدور، طلبہ، سول سوسائٹی، دانشور سب کو اس مکالمے میں مختلف مراحل پر شریک کرکے ایک متفقہ گرینڈ قومی چارٹر تشکیل دیا جانا چاہیے اور حکومت خواہ کسی بھی پارٹی کی ہو اس میثاق حکمرانی کی پابندی لازماً کی جانی چاہیے۔یہ گنجائش بھی اس میثاق میں شامل ہونی چاہیے کہ اس پر حالات کے تقاضوں اور ضرورت کے مطابق ایسے ہی ہمہ گیر مکالمے کے ذریعے نظر ثانی کی جاسکے گی۔ قومیں مشکلات سے نکلنے کے لیے اسی طرح اپنے لیے راستے کا تعین کرتی ہیں ۔ اپنی قومی سلامتی، استحکام اور خوش حالی کی راہ ہموار کرنے کے لیے ہمیں بھی یہی تدبیر اختیار کرنا ہوگی۔

تازہ ترین