• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دیم شہر کسی بھی ملک کا ایک تاریخی ورثہ ہوتے ہیں۔لاہور کا شمار دنیا کے ان تاریخی شہروں میں ہوتا ہے جس کا تاریخی ورثہ کبھی ایک خزانہ تھا، آج بھی تاریخی لحاظ سے یہ شہر دیکھنے کے لائق ہے اگر کوئی اس کی تاریخی اور قدیم عمارات کو اس طرح سامنے لے کر آئے کہ ان کا تاریخی حسن نکھر جائے تو یقین کریں کہ گورے اور سیاحت کے شوقین پاگل ہو جائیں۔

لالہ میلہ رام نے حضرت علی ہجویری ؒ کے مزار اقدس پر بجلی لگوا کر دی تھی اور یہ قصہ تو لاہور کی بے شمار کتابوں میں درج ہے کہ کس طرح حضرت علی ہجویریؒ بذات خود میلہ رام کے تین بیمار بیٹوں کے لئے دعا کرنے رات کو تشریف لائے اور پھر اس کے بیٹے صحت یاب ہوئے اور اس نے پھر حضرت علی ہجویری ؒ کے مزار مبارک پر بجلی لگوا کر دی، یہ بڑا دلچسپ اور سچائی پر مبنی قصہ ہے۔

قصہ مختصر، احاطہ میلہ رام، میلہ رام کی مل اور کوٹھی ہم نے خود دیکھی ہے‘ احاطہ میلہ رام میں معروف شاعر ساغر صدیقی نشے میں دھت پڑے ہوتے تھے۔آج بھی ایک مقامی ہوٹل کے سامنے محکمہ ٹیلی فون کی عمارت کے پیچھے میلہ رام کی وسیع کوٹھی ہے جس میں 74برس گزرنے کے باوجود محکمہ سیٹلمنٹ کا دفتر قائم ہے اور آج بھی وہاں پر زمینوں، مکانوں اور کوٹھیوں کا ہیر پھیر ہو رہا ہے ۔یہ پیلے رنگ کی بڑی خوبصورت کوٹھی ہے جس کی محکمہ سیٹلمنٹ بالکل کوئی حفاظت نہیں کر رہا، ایک دن یہ تاریخی کوٹھی بھی گر جائے گی اور کوئی بے ڈھنگا پلازہ بن جائے گا۔

سرگنگا رام اسپتال کی نئی ایمرجنسی جس کوٹھی میں بنائی گئی تھی، وہ ہم نے خود کئی مرتبہ دیکھی تھی اور یہ نہایت جاذبِ نظر کوٹھی تھی۔ اس میںکبھی ہائوس جاب کرنے والے ڈاکٹرز رہائش پذیر ہوا کرتے تھے، اس کوٹھی کے فرش بڑے خوبصورت تھے۔ اس تاریخی عمارت کو گرا کر جب نئی ایمرجنسی بنائی جانے لگی تو ہم نے اس وقت کے فاطمہ جناح میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی ) کے پرنسپل اور سر گنگا رام اسپتال کے چیف ایم ایس پروفیسر ڈاکٹر اکبر چودھری سے درخواست کی تھی کہ اس تاریخی عمارت کو محفوظ کر لیںاور ہم نے یہاں پر ایک تاریخی کنواں بھی دیکھا جو زمین سے تیس چالیس فٹ نیچے تھا۔ایسا لگتا تھا گویا یہاں صدیوں پہلے کوئی شہر ہو۔مگر اس وقت کی حکومت کو نئی ایمرجنسی بنانے کی جلدی تھی، اس تاریخی کنویں اور تاریخی کوٹھی کو فوراً گرا دیا گیا، یہ کوٹھی ایک سکھ وکیل کے ڈی کی تھی اور اس کو کے ڈی ہائوس بھی کہا جاتا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت وہ سکھ وکیل کے ڈی بھارت چلا گیا اور اس کوٹھی پر سر گنگا رام اسپتال اور فاطمہ جناح میڈیکل کالج والوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ اس وقت ایف جے میڈیکل کالج کے بانی پرنسپل ڈاکٹر شجاعت علی نے اس تاریخی کوٹھی کو ہائوس جاب کرنے والی لڑکیوں کی رہائش گاہ بنا دیا، بعد میں یہاں پر مرد ڈاکٹروں کو جگہ دے دی گئی۔ کبھی یہاں پر ایک چھوٹی سی ایمرجنسی اور آرتھوپیڈک وارڈ بھی تھا، کے ڈی ہائوس میں لکڑی کا بڑا خوبصورت کام ہوا ہوا تھا۔

اسی لاہور میں اپرمال پر اسٹیٹ گیسٹ ہائوس ہے۔ انگریزوں کی تعمیر کردہ یہ عمارت نہایت پرکشش ہے، اس میں کبھی غیر ملکی مہمان آکر ٹھہرا کرتے تھے۔1974ءمیں اس اسٹیٹ گیسٹ ہائوس میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے کئی مہمان قیام پذیر رہے۔ آہستہ آہستہ اس اسٹیٹ گیسٹ ہائوس کا سیاسی مقاصد کے لئے استعمال شروع ہو گیا ۔ یہ عمارت آج بھی بڑی خوبصورت ہے اور صرف چند لاکھ روپے سے یہ دوبارہ قابل استعمال بنائی جاسکتی ہے ۔لاہور کی وہ نسل حیات ہےجس نے گولی والی بوتل، بھاٹی گیٹ کے باہر گلابی، لال اور سبز رنگ کے دودھ والی بوتل پی ہو گی ، سوڈا واٹر،اور دودھ سوڈا پیا ہو گا، جس نے پرانے بڑے کیمروں سے اپنی تصویر بنوائی ہو گی۔ ہم نے بھی اس کیمرے سے تصویر بنوائی تھی ۔

اس نسل نے ٹیلی ویژن کو اپنے ملک میں آتے دیکھا، وہ ٹیلی ویژن جو بلیک اینڈ وائٹ تھا اور بغیر انٹینا کے نہیں دیکھا جا سکتا تھا، اکثر گھروں کی چھت پر انٹینا لگا ہوتاتھا۔ بہت سے لوگ سرشام چھت پر چڑھ کر ٹی وی انٹینا ٹھیک کیا کرتے۔ بھارتی چینل ’’دور درشن‘‘ دیکھنے کے لئے چالیس پچاس فٹ اونچا انٹینا لگانا پڑتا تھا ۔ہمیں یاد ہے کہ منٹو پارک میں 1962-63میں آل انڈیا نمائش لگی جس میں ایک اسٹوڈیو بنایا گیا اور نمائش دیکھنے والوں کو اس شیشے والے کمرے میں بلایا جاتا اور ان کی تصویر باہر ایک اونچے ڈبے پر نظر آتی‘ یہ ٹیلی ویژن تھا۔ ہم بھی اس ڈبے میں اپنے والد کیپٹن محمد ادریس ناگی کے ساتھ گئے اور بڑے خوش ہوئے تھے۔ ہم نے لاہور کے پلازہ سینما میں انڈین فلم بارہ دری بھی دیکھی تھی جس کا گیت ، ’’تصویر بناتا ہوں، تصویر نہیں بنتی‘‘ بڑا مشہور ہوا تھا۔

محلے کے ڈاکٹر کی دوائی سے ہر کوئی صحت مند ہو جاتا تھا ۔موہنی روڈ پر (حضرت علی ہجویری ؒ کے مزارِ اقدس) کے نزدیک ڈاکٹر شبیر اے ملک، ڈاکٹر کیپٹن اسلم خان، ڈاکٹر اسد اسلم خاں چیف ایگزیٹو (میواسپتال) اورمعروف ایڈووکیٹ زاہد اسلم خان کے والد اور پہلے وفاقی محتسب سردار اقبال کے بھائی ڈاکٹر رحمت اللہ ارشد، ڈاکٹر سرور اور شیش محل روڈ پر بھی میاں بیوی ڈاکٹرز پریکٹس کرتے تھے، اب ان کا نام ہمیں یاد نہیں آ رہا ۔

ڈاکٹر شبیر اے ملک مرحوم گجر تھے اور اگر کسی کے پاس پیسے نہ ہوتے تو اس کا علاج اور آپریشن بلامعاوضہ کرادیتے تھے۔ بڑے خدا ترس انسان تھے۔ ہمارے ملک میں عہدِ حاضر میں فیملی میڈیسن کو جو اہمیت دی جا رہی ہے ،دراصل اس کے بانی ڈاکٹر شبیر اے ملک تھے ۔ (جاری ہے )

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین