• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذوالفقار علی بھٹو نے سپریم کورٹ میں اپنے آخری بیان میں کہا تھا ’’جب دو فریق آپس میں لڑ رہے ہوں تو اُن دونوں کے بارے میں یہ کہنا غلط ہے کہ یہ بھی درست اور وہ بھی درست اور یہ کہنا بھی درست نہیں ہوگا کہ یہ بھی غلط اور وہ بھی غلط۔ اُن دونوں میں سے ایک لازماً درست ہوگا اور ایک لازماً غلط‘‘۔ ہم تبصرے کے بجائے صرف معروضی حقائق پر بات کریں تو فیصلہ آسان ہو جاتا ہے۔ سب کے لئے ایک قابلِ قبول حقیقت یہ ہے کہ فریقین سیاسی تصادم کی راہ پر گامزن ہیں اور اُن کے بیانات پر ردِعمل سے حالات ’’ کلائمیکس‘‘ تک پہنچ گئے ہیں۔

سب کے لئے ایک اور قابلِ قبول حقیقت یہ بھی ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک اِس قدر سیاسی بےیقینی نہیں تھی، جو آج ہے۔ ایک اور بڑی حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی اور بےروزگاری نے عوام کی مایوسی کو انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ اِس سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ لوگوں میں اُمید ختم ہو گئی ہے۔ اِس امر کو بھی سب تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ مایوسی اور نااُمیدی اس طرح مصنوعی نہیں ہے، جس طرح ماضی میں سیاسی حکومتوں کے دور میں منصوبہ بندی کے تحت پیدا کی جاتی تھی۔ ماضی میں ایک سیاسی جماعت کی حکومت ناکام ہو جاتی تھی تو لوگ دوسری سیاسی جماعت سے اُمیدیں وابستہ کر لیتے تھے۔ اگروہ تمام سیاسی جماعتوں سے مایوس ہو جاتے تھے تو کسی آمر یا طالع آزما سے اپنی اُمنگیں جوڑ لیتے تھے لیکن اب ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے۔ کوئی اُمید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

یہ تو ہماری داخلی صورتحال ہے۔ تبدیل ہوتی ہوئی عالمی اور علاقائی صورتحال میں معروضی حقائق کیا ہیں؟ اُن کے بارے میں بہت تفصیل میں جانے کے بجائے حالیہ ایک واقعے کا ذکر کرنا مناسب ہوگا۔ گزشتہ ہفتے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر دفاع مارک ایسپر نے جنوبی ایشیاء اور بحرالکاہل کے پانچ ممالک بھارت، مالدیپ، سری لنکا، انڈونیشیا اور ویت نام کا دورہ کیا۔ اُنہوں نے اپنے اِس دورے میں سات دہائیوں سے امریکی اتحادی پاکستان کو شامل نہیں کیا۔ امریکی حکام نے اِس دورے میں بھارت کے ساتھ نئے دفاعی معاہدے کئے تاکہ اُسے چین کے مقابلے میں اپنی اتحادی کے طوپر مضبوط کیا جا سکے اور اُسے چین کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے اِس خطے کی تھانے داری سونپی جا سکے۔ امریکی حکام نے دیگر چار ممالک کو بھی مختلف حربوں سے یہ باور کرایا کہ وہ چین سے دور ہو جائیں اور امریکی کیمپ میں شامل ہو جائیں۔ امریکی حکام کا یہ دورہ اِس خطے کے ممالک کو چین کے خلاف صف آراء کرنے کے لئے تھا۔ امریکی حکام یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان کا جھکاؤ چین کی طرف زیادہ ہے اور پاکستان میں ’’سی پیک‘‘ پر کام ہو رہا ہے، جو چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ کا اہم حصہ ہے۔ پاکستان سات دہائیوں تک امریکی اتحادی اور ’’اسٹرٹیجک پارٹنر‘‘ رہا۔ اِس خطے میں پاکستان کی تزویراتی (اسٹرٹیجک) اور جغرافیائی اہمیت بھی مذکورہ بالا ملکوں سے زیادہ ہے۔ پھر بھی امریکی پاکستان کو اہمیت نہیں دے رہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے پاس پاکستان کو کنٹرول کرنے کے سارے انتظامات موجود ہیں۔ پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر تناؤ ہے۔ ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام ہے، جو سیاسی تصادم کی وجہ سے بڑھے گا۔ یہ فیصلہ وقت کرے گا کہ اِس سیاسی تصادم کا ذمہ دار کون ہے؟ پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے۔ عالمی عدالت سے ریکوڈک کیس میں 6ارب ڈالرز کے جرمانے کا فیصلہ موجود ہے۔ پاکستان کو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت دینے کا معاملہ بھی درپیش ہے، جو عالمی طاقتوں کے بفرزون بنے رہے ہیں۔پاکستان کو سی پیک کو فعال کرنے اور چین کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کا بھی چیلنج درپیش ہے۔ پھر بھی امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان کے بارے میں اس قدر مطمئن ہیں لیکن وہ اسلام آباد شہر جتنی آبادی اور رقبہ رکھنے والے ملک مالدیپ کے حوالے سے فکر مند ہیں۔ اِس کے کئی عوامل ہیں۔ دنیا میں دہشت گردی اور اِس کے خلاف عالمی جنگ کے ڈرامے والا دور قصۂ پارینہ بن رہا ہے لیکن پاکستان میں آج بھی دہشت گردی ہو رہی ہے۔ پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر مسلسل کشیدگی ہے۔ پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی گرفت، ایف اے ٹی ایف، ریکوڈک کیس سمیت پاکستان کو کنٹرول کرنے والے کئی عوامل ہیں۔ ملک میں عوام کی بےانتہا مایوسی اور نااُمیدی خطرناک رُخ اختیار کر سکتی ہے۔ مایوسی اور نااُمیدی کا غبار ہلکا کرنے کے لئے ایک ’’سیفٹی والو‘‘ ضروری ہے۔ اپوزیشن سے ٹکرانے یا اُسے کچلنے کی بجائے ’’سیفٹی والو‘‘ کسی بھی وقت کھولنے کے آپشن کو ضرور کھلا رکھا جائے۔ بدلتی ہوئی عالمی صورتحال میں اپوزیشن کی تحریک اِس ’’سیفٹی والو‘‘ کے استعمال کا جواز مہیا کرے گی۔ ورنہ عالمی طاقتیں یہ بھی نہیں کرنے دیں گی اور ہاں، کسی بھی قسم کی مہم جوئی سے احتراز کیا جائے۔ حالات کا ادراک اِس سطحی سیاسی بیانیے سے نہیں ہوگا، جو اِس وقت ہماری مرکزی حکومت کے بعض زعما پیش کر رہے ہیں۔

تازہ ترین