• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس وقت پاکستان کے طول و عرض میں جو تقریریں ہو رہی ہیں۔ کوئی ان کو خواہش کہتا ہے اور کوئی ضرورت۔ کچھ ان تقریروں کو شعبدہ بازی کا نام دیتے ہیں جب کہ کچھ اور انہیں ارادہ یا پلان کہتے ہیں۔ انہیں دعوے بھی کہا جا سکتا ہے اور الیکشن لڑنے والوں کا منشور بھی۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ جنہیں ملکی معاملات چلانے کی شُدبُد ہے وہ ان آتش بیانوں کے آتشیں کلام کو بیس کروڑ لوگوں کے ملک اور ایٹمی ملت کے مستقبل کا روڈ میپ نہیں کہہ سکتے۔ آپ کی طرح میں بھی اسے کچھ نہ کچھ کہہ سکتا ہوں لیکن میں ابھی کچھ نہیں کہنا چاہتا۔جس کی وجہ یہ ہے کہ اچھی بات یا اچھی خواہش بُرے حالات میں پھنسے لوگوں کے لئے رہائی کا پیغام نہ سہی خوش گفتاری اور موہوم اُمید تو ہے۔ اس لئے میں آپ سے گزارش کروں گا کہ ہاتھ اُٹھائیں اور میرے ساتھ ملکر وہ جو شہ رگ سے زیادہ نزدیک ہے اور دلوں کے حال خوب جانتا ہے اُس کی بارگاہ میں دُعا کریں۔
دُعا یہ ہے کہ…
خدا کرے تیس دنوں میں لوڈشیدنگ کا خاتمہ ہو جائے اور موم بتیاں جلنا بند ہو جائیں بلکہ ہاتھ سے چلنے والے کانے اور پلاسٹک کے پنکھے بھی جل کر خاک ہو جائیں۔ پاکستان کے دیہی علاقوں اور خدا کی بستی نما غریبوں کی کچی آبادیوں، ٹینٹ کالونیوں کے بجھے ہوئے بلب پھر سے جل اُٹھیں۔ خدا کرے کہ پاور لومز، کھڈی، سوئیٹر یا بنیان کے کارخانوں اور اُن اسمال انڈسٹریز میں گیس کا شعلہ واپس آجائے جو اتنے دلیر اورطاقتور نہیں کہ وہ گیس چوری کر سکیں۔ خدا کرے کہ وہ گھروندے جو شام ڈھلے قبر جیسی تاریکی میں ڈو ب جاتے ہیں اور جن کے زورِ بازو میں اتنی سکت نہیں کہ وہ سرکاری ٹرانسمیشن لائن پر اپنے کنڈے لگا سکیں اُنہیں اصل ریٹ پر بجلی ملنا شروع ہو جائے۔ خدا کرے چوتھی بار ہی سہی ہم ایشیاء کے اصلی ٹائیگر بن جائیں۔ ایسا ٹائیگر جو بنگال ٹائیگر کی طرح اپنوں کا گوشت نہ نوچے۔ ایسا ٹائیگر جس کے منہ کو انسانوں کا خون نہ لگا ہوا ہو۔ ایسا ٹائیگر جو پاکستان کے پسے ہوئے، کچلے ہوئے اور مسلے ہوئے اُن لوگوں کی طرح رُوکھی سُوکھی کھا کر ٹھنڈا پانی پی کر غیرت مند قوم کا فرد بن جائے ۔جو نہ ملک کے لئے قرضے لیتے ہیں اور نہ ہی اپنی جائیدادوں کے لئے ۔ خدا کرے کہ یہ عوام دوست اور انسان دوست ٹائیگر جلد آئے مگر ایسے نہ آئے جیسے ٹائیگر آتا ہے اور انسانوں کا لہو بہا کر اپنی پیاس بجھاتا ہے۔ خدا کرے کہ ملک بھر کے تھانے اور ہر گاؤں کے پٹوار خانے میں غریبوں کی عزتیں اور جائیدادیں نیلام ہونا بند ہو جائیں۔ وہ غریب جو تھانے کو صرف دو حوالوں سے پہچانتے ہیں ایک ” لِتّر“ اور دوسرا ”چھِتّر“۔ اور وہ مال خانے نما پٹوارخانے عوام کو غلام نہ سمجھیں جہاں سرکاری خزانے سے پٹواری، قانون گو اور تحصیل دار اور اُن کے منشی تنخواہ اور مراعات کو ” ٹپ“ سمجھ کر لیتے ہیں جبکہ ملازمت ہاؤسنگ کالونیوں اور لینڈ ڈیولپرز کی کرتے ہیں۔ خدا کرے کہ بیوروکریٹ اور منصف ان دو دو پلاٹوں پر بھی گھر بنائیں جو اُنہوں نے پاکستان کے خزانے سے لئے ہیں۔ خدا کرے کہ پاکستان کا غم کھانے والے اپنا سارا کچھ پاکستان واپس لے آئیں اور خدا کرے کہ سبز پاسپورٹ پر پھیلی سیاہی کے داغ جلد دُور ہو سکیں۔ خدا کرے کہ غریبوں کو ناقابلِ واپسی قرضے ،ملازمتیں، عزت، روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور حفاظت ملے۔
خدا کرے کہ پینسٹھ سال بعد ہی سہی اس دفعہ جمہوریت کا پھل اور جمہوریت کی خوبصورتی اُن کو بھی نظر آئے جو لمبی قطاروں میں کھڑے ہو کر بندر، گائے، لوٹا ، خرگوش، سیٹی، بلب اور بلی پر مہر لگاتے ہیں اور پھر پانچ سال جمہوریت کے پھل اور جمہوریت کی خوبصورتی اقتدار کے ایوان سے کھیت اور کھلیانوں کی طرف آتے ہوئے شرماتی ہے۔ لیکن جو کچھ جلسوں میں کہا جا رہا ہے، ٹی وی چینلوں پر سُنایا جا رہا ہے اور سیاسی فتوؤں کی صورت میں چیخ چیخ کر سمجھایا جا رہا ہے۔ اُس کے نتیجے میں لٹکتی پارلیمان، بکھرے ہوئے لوگ۔ لڑ بھڑ کر خون آلود پنجوں کے ساتھ ایک دوسرے پر جھپٹتے جتھے۔ اگر الیکشن کے نتائج اور جمہوریت چلانے کے سلیقے پر اتفاق نہ کر سکے، اگر ہماری دعائیں ہمارے درمیان ہی بھٹکتی رہ گئیں اور اُنہیں گیارہ مئی والے دن باریابی نہ ملی تو پھر کس کے پاس پلان بی کیا ہے؟
لیکن ٹھہرئیے پہلے خبر سُن لیجئے۔ بارہ مئی تک الیکشن کے غیر حتمی نتائج ہمارے سامنے ہوں گے۔ شہرِ اقتدار کی خبر یہ ہے کہ اس دفعہ نئی قومی اسمبلی کاافتتاحی اجلاس ایک ہفتے کے اندر بُلایا جا ئے گا، جس کی وجوہات سیاسی بھی ہیں اور آئینی بھی۔ آئین کے آرٹیکل91 ذیلی آرٹیکل 2 کے مطابق قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس عام انتخابات کے دن یعنی گیارہ مئی کے اکّیس دن بعد ہر حال میں بُلایا جانا ہے، اگر اس سے پہلے صدر طلب نہ کرے۔ اس کا مطلب یہ کہ آنے والی اسمبلی کا پہلا اجلاس یکم جُون تک منعقد کرنا آئینی تقاضا ہے جبکہ اسی آرٹیکل کی کلاز 3 کے مطابق کسی اور بزنس کے بغیر اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور وزیرِ اعظم کا انتخاب پہلے اجلاس میں ہی ہو گا۔ الیکشن کے لئے مسلمان رکنِ قومی اسمبلی اگر پہلے راؤنڈ میں عددی اکثریت حاصل نہ کرسکا تو پھر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان دوبارہ ووٹنگ ہو گی۔
کوئی چاہے یا نہ چاہے لیکن یہ سارا آئینی عمل بارہ مئی کے بعد شروع ہو جائے گا اور اس کے ساتھ ہی ” پلان بی“حرکت میں آ جائے گا۔ پارلیمانی ایوانوں میں پہلے سے موجود یا بارہ مئی کو پہنچنے والی سیاسی قوتوں کے پاس پلان بی یہ ہے کہ وہ قومی امور پر ایجنڈا فوری طور پر تیار کریں۔ اس قومی ایجنڈے کو الیکشن کے ایک ماہ بعد منظور ہونے والے قومی بجٹ میں شامل کر دیں تاکہ پاکستان کے اندر اپنے عوام کو اور اُن کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے وہ لوگ جو پاکستانی امور میں دلچسپی اور حصّہ لیتے ہیں اُنہیں یہ عملی پیغام دیا جا سکے کہ ہم پاکستان کا جغرافیہ، معیشت، معاشرت اور ریاست کو بچانے میں سنجیدہ ہیں۔ اس طرح جمہوریت کی گاڑی کیلئے پینسٹھ سال بعد تیار کی گئی کچی سڑک کو شاہراہ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
اگر سیاسی جماعتوں نے ذاتی اور شخصی پلان بی نکال لیا تو پھر صاحبانِ اقتدار کے ساتھ کم از کم نوّے کی دہائی جیسا ہی سلوک ہو گا۔ابھی کل کی بات ہے 1977ء اور 1997ء کے بھاری،عوامی، انتخابی اور آئینی مینڈیٹ کو کوئی نہیں بچا سکا تھا ۔اس مسکین صورت لڑکھڑاتے ہوئے لنگڑے لُولے، بصیرت و بصارت سے محروم نظام کا غائبانہ جنازہ پڑھنے والا بھی کوئی نہیں ملے گا۔ جو کھلنڈرے اور چلبلے بیان باز پاکستان کے عسکری اداروں کی سوچ پر مبنی انتہائی نپی تُلی مگر کھُلی ڈُلی تقریر کو محض بڑھک سمجھتے ہیں وہ دن میں تارے دیکھنا چاہتے ہیں۔
آج کا پاکستان علاقے و جغرافیے سمیت وہاں پہنچ گیا ہے جہاں سے اُسے واپس لانے کے لئے ہر نسخہ استعمال ہو گا۔ جب مریض کی نبض اور بلڈ پریشر صفر پر پہنچ جائے تو اُسے 440 وولٹ کی بجلی کا جھٹکا دیا جاتا ہے۔ حکیم ہو یا طبیب وہ تماشا نہیں دیکھ سکتا۔ دیکھنے والی آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ وہ معالج جو مریض کو پانچ سال ”ستّو“ پلاتے رہے اب وہ یونانی طریقہ علاج سے بیزار ہو چکے ہیں۔ جس طرح الیکشن کا عمل ململ کے کپڑے کی طرح شفاف ہے اور اُس کے دوسری طرف جو کچھ ہو رہا ہے وہ صاف نظر آ رہا ہے، اسی طرح ستّو طریقہ علاج کرنے والوں کی میز پر ”الیکٹرک شاک “ دینے والے آلات صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔میں اسے بدقسمتی کے علاوہ کیا کہہ سکتا ہوں کہ آج ہر جگہ سے انتقام کے شعلے نظروں، لفظوں اور حملوں کی صورت میں برس رہے ہیں۔ سپہ سالار نے جس دردمندی کے ساتھ قوم کے لئے آگے بڑھنے کے راستے کی نشاندہی کی، سیاست کے مہمان فنکار اور مزاحیہ اداکار اُسے روٹین کا شغل سمجھ بیٹھے ہیں۔پاکستان کی سیاست اور ریاست کا المیہ ایک ہی ہے۔ ایک شخص کی سوچ کو وژن کہا جاتا ہے۔ اُس کی ضرورتوں کو روڈ میپ اور اُس کی خواہشوں کو قومی اُمنگیں۔ پاکستان کے پاس کسی بھی شخصی ” شغل بادشاہ“ کے ون مین شو کا وقت گزر گیا ہے۔ اگر قوم کو مزید خوار کیا گیا یا بارہ مئی کے بعد انتقام کے شعلوں میں نفرت اور تعصب کا تیل ڈالا گیا تو پھر یاد رکھئے کہ پلان بی دو جگہوں پر بن رہے ہیں۔ ایک شہروں میں اور دوسرے پہاڑوں میں۔ عوام کا پلان بی جُون میں آئے گا۔ عام آدمی کی نظر پوٹھوہار کے بے لاگ باوا سید ضمیر جعفری والی ہے جسے اُنہوں نے قومی دیمک قرار دیا اور وہ بھی یوں۔
”ٹیکس بغیر بجٹ“ پر شابا، لیکن اے سرتاج عزیز
یہ جو دیمک چاٹ رہی ہے، اربوں کھربوں گھاٹے کی
”گوڈے گوڈے“ جہل جہالت آب میں بھی ”گدلاب“ملے
قحط کی ماری خلقت تجھ سے مانگے چٹکی آٹے کی
تازہ ترین