• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زماں قاسمی

شطرنج ایک ایسا کھیل ہے، جس نے بادشاہوں، راجاؤں، امرائے سلطنت، نوابوں، امیروں کی توجہ اور دل چسپی حاصل کی اور ان کے شوق و انہماک کا سبب بنا۔ تاریخ سے پتا چلتا ہےبتاتی ہے کہ یہ صدیوں سے کھیلا جارہا ہے۔ یزید بن عبدالملک اور ہشام، ہارون رشید اور اس کے دونوں لڑکے امین الرشید اور مامون الرشید، محمود غزنوی، یوسف صلاح الدین، تیمورلنگ، جلال الدین محمد اکبر اور سلطان عبدالحمید وغیرہ شطرنج کے بڑے شوقین اور اچھے کھلاڑی سمجھے جاتے تھے۔

وزیروں میں جعفر برمکی، ابو بکر بن زہر، وزیر علی القمی وغیرہ اس کھیل کے ماہر تھے۔

مشہور و معروف سیّاح، تذکرہ نویسوں اور مؤرخین‌ نے اپنی تصانیف میں‌ اس کھیل کا ذکر کیا اور ایسے واقعات بیان کیے ہیں‌ جن کا تعلق شطرنج سے ہے۔دنیائے ادب کی بات ہو تو اردو کے مشہور شاعر حکیم مومن خاں مومن اپنے دور کے ماہر کھلاڑی تھے، جب کہ اردو زبان میں اس کھیل سے متعلق متعدد الفاظ، تراکیب اور محاورے بھی ہم سنتے رہتے ہیں۔ زمانۂ قدیم سے شطرنج کھیلی جاتی رہی ہے جس کے نتیجہ میں بہت سارے الفاظ ، محاورے اردو زبان کا حصہ بن چکے ہیں۔ مثال کے طور پر شہ دینا، مات دینا، چال چلنا، مہرہ بننا وغیرہ۔ صدیوں سے یہ محاورے یا الفاظ اردو زبان میں اس طرح رچ بس گئے ہیں کہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ الفاظ اور محاورے شطرنج کے کھیل سے آئے ہیں۔

شطرنج کے ایک بار کے کھیل کو بازی کہتے ہیں۔ اب مشاہدہ کیجیے کہ اس بازی لفظ سے کتنے سارے محاورے، الفاظ، اشعار وجود ،میں آگئے۔ بازی مارنا، بازی لگانا، بازی گر، بازیچہ وغیرہ۔اسی طرح بساط پر نظر کریں تو بساط الٹنا، بساط بچھنا وغیرہ محاورےہیں۔ ذیل میں چند اشعار ملاحظہ کیجئیے، جن میں‌ شطرنج کا ذکر اور اس کھیل کی مناسبت سے الفاظ یا محاورے استعمال ہوئے ہیں۔

بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

( مرزا غالب)

ہم سے اک بار بھی جیتا ہے نہ جیتے گا کوئی

یوں تو ہم جان کے کھا لیتے ہیں ماتیں اکثر

( جان نثار اختر)

ابھی شطرنج ہے جاری ، ذرا الٹے تو بساط

دیکھنا کون ہے شہ ، کون پیادہ ہے میاں

( قیصر شمیم )

ہوشیاری سے سمجھ کر چال چلنا چاہیے

کارِ دنیا بھی ظفر شطرنج کا سا کھیل ہے

(بہادر شاہ ظفر)

لفظ "شہ" اور "مات"سے متعدد محاورے اختراع کیے گئے ہیں مثلاً شہ دینا، شہ پڑنا، مات دینا، مات ہونا وغیرہ۔

ہر سمت سے گھر آئے ہیں شطرنج کے مہرے

یہ دیکھ! ابھی شہ ہے ، ابھی مات برادر

(نشتر خانقاہی)

شطرنج کا سارا کھیل مہروں کی چال پر منحصر ہوتا ہے۔ مہرے چونکہ بے بس ہوتے ہیں اور ان کا عناں گیر کوئی اور ہوتا ہے، اس لیے ہماری زبان میں کسی کا مہرہ بننا محاورہ مستعمل ہوا۔

خانے میں ہے شطرنج کے جب تک، ہوں پر امید

جب پٹ گیا مہرہ تو کہیں کا بھی نہیں ہے

(جمیل تمنائی)

جب بساط الٹی تو جانا کہ تھے شاطر کتنے

کشتی و فیل و پیادہ پہ تھے قادر کتنے

(پروفیسر نصر غزالی)

کپڑے یا کاغذ کے ،جس چوکور ٹکڑے پر شطرنج کھیلی جاتی ہے، اسے بساط کہتے ہیں۔ اس لفظ سے بساط ہونا محاورہ بنا۔ مثلاً اس کی بساط ہی کیا تھی جو اتنا بڑا کام کرجاتا۔ ذوق نے اس لفظ کو بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا

کم ہوں گے اس بساط پہ مجھ جیسے بد قمار

جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے

آج کی دنیا میں شطرنج کھیلنے کا گر ہر شعبۂ حیات میں استعمال ہو رہا ہے، خاص طور پر سیاست کے میدان میں۔ جیسے جیسے تعلیم حاصل کرنے کا شوق بڑھتا جارہا ہے، شطرنج ہر مرحلے پر کھیلی جانے لگی ہے۔ بساط بچھانے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی، صرف اپنا مہرہ بڑھا دینا کافی ہوتا ہے۔ بزرگ شاعر علقمہ شبلی فرماتے ہیں ؂

میں نے دیکھا ہے پیادوں کو بھی آگے شبلی

شاہ کو ، مان لوں کیوں ، مات نہیں ہو سکتی

ارشد جمال حشمی وزیر پر پیادہ کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں

کماں نہ رکھئے اگر اک بھی تیر باقی ہے

پیادہ ہے تو سمجھئے وزیر باقی ہے

مات تو ہر مقابلے کا لازمی حصہ ہوتا ہے لیکن مات سے پہلے شہ دے کر حریف کھلاڑی کو گھیرے میں لینا اور شکست قبول کرنے کے لیے مجبور کرنا صرف شطرنج میں ہی ممکن ہے۔

ادب میں شطرنج کو جو مقام ملاہےاس کا سارا کریڈٹ اردو کے شعراءحضرات کو ملنا چاہیے۔ منشی پریم چند بھی اس کریڈٹ کے حقدار ہیں جنہوں نے "شطرنج کے کھلاڑی" کی تصنیف کی۔

تازہ ترین