• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )

گزشتہ کالم میں ٹائپنگ کی غلطی سے ڈاکٹر بشیر اے ملک کا نام ڈاکٹر شبیر اے ملک شائع ہو گیا تھا۔ڈاکٹر بشیر اے ملک نے لاہور میں بطور جی پی (جنرل پریکٹشنر) بڑا نام کمایا تھا۔لاہور میں آج سے ساٹھ ستر برس قبل جو جی پی اندرون شہر کے اندر بیٹھتے تھے انہوں نے لاہورکے شہریوں کی بڑی خدمت کی اور آج بھی کر رہے ہیں ۔مثلاً ڈاکٹر رشید شیخ مرحوم چوک متی والے جنہوں نے 60برس سےزیادہ پریکٹس کی ابھی دو ماہ قبل بے چارے کورونا کا شکار ہو گئے تھے۔آخری دم تک بڑے سرگرم رہے اور راوین یونین کے بلامقابلہ ایگزیکٹو ممبررہے ۔اس سال راوین یونین کے مسٹر سید فخر حیات پنوں بھی کورونا کی وجہ سے انتقال کر گئے۔لاہور کے جی پی ڈاکٹروں میں ایک عجیب بات تھی اللہ تعالیٰ کی ذات پاک نے ان کے ہاتھ میں شفا بہت دی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ ڈاکٹر ز لالچی اور خود غرض نہیں تھے،بڑے ہمدرد تھے۔ دوسری اہم بات یہ کہ تمام ڈاکٹر بڑی سستی پڑیاں، گولیاں اور لال اور ڈارک برائون رنگ کا شربت دیتے تھے جس سے آرام آجاتا تھا۔ ڈاکٹر سردار محمد مرحوم باغبانپورہ کے بڑے معروف ڈاکٹر تھے کبھی وزیرٹرانسپورٹ بھی رہے۔ رام گلی والے ڈاکٹر سہیل شیش محل روڈ کے ڈاکٹر چوہدری اور ان کی اہلیہ لیڈی ڈاکٹر مسز چوہدری، ڈاکٹر الطاف حسین بخاری (معروف وکیل اور کمپیئر نعیم بخاری کے والد) کا بہت بڑا دو منزلہ مکان اور اس کے اوپر سفیدرنگ سے ڈاکٹر الطاف بخاری کا نام لکھا ہوا ہوتا تھا، پھر بھاٹی گیٹ کے اندر ایک اور ڈاکٹر بشیر بیٹھا کرتے تھے کیا سرخ و سفید رنگ اور ان کی ٹنڈ ایسے چمک رہی ہوتی تھی جیسے ایک ہزار واٹ کا بلب ہو۔

بھاٹی گیٹ کے باہر یاسین کی ڈسپنسری تھی یاسین کوئی ڈاکٹر نہیں تھا مگر اس کی ڈسپنسری پر رش ایسے ہوتا تھا جیسے مفت دوائیاںبٹ رہی ہوں۔ کیا لوگ تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں میں کیا شفا دی ہوئی تھی ۔یہ وہ خدا ترس ڈاکٹرز تھے کہ اگر کسی نے ان کی دو روپے فیس نہ دی تب بھی اس کو علاج سے انکار نہ کیا ۔یہ ڈاکٹرز تانگے میں گھر جاکر مریضوں کو بھی دیکھ آتے تھے اور فیس گھر پر صرف دس روپے لیتے تھے ۔دوستو ! لاہور میں ایک طرف ڈاکٹرز، دوسری طرف حکیم، تیسری طرف جراح،چوتھی طرف پہلوان اور پھر اتائی یہ سب لوگ لاہور کے شہریوں کا علاج کرتے تھے ان سب سے لوگوں کو شفا ملا کرتی تھی دانتوں والے اصل ڈاکٹر اور اتائی ڈاکٹرز بھی مصروف رہا کرتے تھے آج بھی لاہور کی سڑکوں پر کئی ایسے لوگ بیٹھے ہیں جودانتوں کا علاج کرتے ہیں ۔لاہور میں کسی زمانے میں ایک سو پندرہ حکیم انگریزوں، سکھوں اور مغل دور حکومت میں بیٹھا کرتے تھے چند ایک مشہور حکیم یہ تھے کوہراج پرنام داس بی اے، بابائے نیچرو پیتھی لال دین، حکیم محمد نبی جمال سویرا، شفا الملک محمد حسن قرشی، صوفی لچھمن پرشاد، حکیم نیئر واسطی(جہاں پر کبھی ترکی زبان کا سینٹر بھی تھا ہم بھی کبھی کبھی وہاں جایا کرتے تھے جہاں وہ لوگوں کو 1973ء میں ترکی زبان سکھانے کی کلاسیں دیا کرتے تھے ) وید رتن پنڈت شیو شری آیو رویدک اچاریہ، حبیب اشعر، کرنل بھولا ناتھ ایم ایس، فقیر الدین فیملی (مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار کے طبیب) ہاروے مارسن نکولاس سنوچی، انتون مسیح فرنگی، حکیم نور احمد،حکیم نبی احمد (حکیم محمد اجمل خاں کے پوتے ) حکیم فقیر محمد چشتی، علیم الدین انصاری (مسجد وزیر خاں کے بانی) ہمیں یاد ہے کہ ہر ماہ کی پہلی ،دوسری جمعرات کو حکیم محمد سعید مرحوم ہمدرد کراچی سے لاہور آتے تھے اور انارکلی والے مطب اور پھر فین روڈ والے مطب پر بیٹھا کرتے تھے ان کو دکھانے کے لئے پہلے سے ٹوکن لینے پڑتے تھے حکیم محمد سعید کی عدم موجودگی میں حکیم محمد اشرف صبوحی بیٹھا کرتے تھے کیا کمال کے صاحب علم انسان تھے ہمارےجنگ آفس اکثر تشریف لاتے ،ہم نے حکیم محمد سعید سے بھی کئی مرتبہ ملاقات کی ہے ۔حکیم محمدسعید میر خلیل الرحمان میموریل سوسائٹی کے سیمیناروں اور جنگ فورم میں بھی کئی مرتبہ تشریف لائے ۔

عالمی سطح پر آج جو ڈاکٹرز امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، فرانس، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں ان میں سے 80فیصد کا تعلق لاہور شہر سے تھا اگر ہم صرف ان ڈاکٹروں کے نام لکھنا شروع کریں جن کا تعلق لاہور سے تھا تو کئی کالم لکھنے پڑ جائیں۔

کیا شہر تھا آج بھی بھاٹی گیٹ سے لوہاری گیٹ تک آپ کو سڑک کے دونوں کناروں پر آنکھیں چیک کرنے والے (جو پرانے طریقے سے ایک ایچ اور نمبر والے لوہے کے فٹ سے نظر کا نمبر بتایا کرتے تھے) دانتوں کے علاج کرنے والے، جنسی بیماریوں کا علاج کرنے والے، پیٹ کے امراض کا علاج کرنے والے ، سانڈے کا تیل فروخت کرنے والے، سانپ کے زہر سے ادویات بنانے والے غرض اس شہر میں آپ کو کبھی کیا کچھ دیکھنے کو ملا کرتا تھا۔اس لاہور کو لاہور سے باہر کے لوگوں نے بنجر کر دیا اب اس کی زمین ہنرمند لوگ پیدا نہیں کرتی کیا کیا گانے والے، موسیقار، فلم ساز، اداکار، حلوائی، پہلوان اور مصور اس شہر نے پیدا کئے اور پھر اسی لاہور کی مٹی ان سب کو کھا گئی۔ پھر اس مٹی نے گوہرپیدا کرنا بند کر دیئے اور بانجھ ہو گئی۔ علم وادب، فنون لطیفہ کا یہ عظیم گہوارہ آج صرف فوڈ ا سٹریٹوں کی نذر ہو چکا ہے جس شہر میں کبھی تکیے، بیٹھکیں، احاطے، ڈیوڑھیاں، اکھاڑے اور کٹڑیاں ہوا کرتی تھیں ، اب جگہ جگہ صرف کھانے، پینے کی دکانیں رہ گئی ہیں اصل لاہوری مدت ہوئی کہیں گم ہو چکے ہیں کہیں کھو چکے ہیں سچ پوچھو تو یہ وہ لاہور ہی نہیں جس لاہور کو میں نے اپنے بچپن میں دیکھا تھا وہ لاہور جس کو میرے بڑوں نے دیکھا تھا وہ تو مدت ہوئی مٹ چکا ۔(جاری ہے)

تازہ ترین