• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعمیراتی شعبے کی ترقی ملک میں روزگار فراہم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہوتی ہے۔ کنسٹرکشن کے شعبے سے سیمنٹ، سریا، سینیٹری، کیبل، پینٹ، شیشہ اور ٹائلز سمیت 50سے زیادہ صنعتیں منسلک ہوتی ہیں اور اِس شعبے کی ترقی سے منسلک تمام صنعتوں کی گروتھ ہوتی ہے۔ کورونا کے بعد تیز معاشی گروتھ کیلئے وزیراعظم نے 3اپریل 2020ءکو تعمیراتی شعبے کو صنعت کا درجہ دیتے ہوئے ایک بڑے پیکیج کا اعلان کیا جس کے تحت 31دسمبر 2020ءتک تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کی ذرائع آمدنی نہیں پوچھی جائے گی جبکہ اِن منصوبوں کو 30جون 2022تک مکمل کرنا ہوگا۔ اُنہوں نے کنسٹرکشن شعبے کو فکس ٹیکس نظام کے تحت پُرکشش ٹیکس مراعات کا اعلان بھی کیا جس کے تحت فی اسکوائر گز پر فکس ٹیکس دینا ہوگا اور اگر ٹیکس کی ادائیگی 100روپے بنتی ہے تو 90روپے معاف کردیے جائیں گے جبکہ سیمنٹ اور سریے کے علاوہ دیگر تعمیراتی میٹریل اور سروسز ودہولڈنگ ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گی۔ 500مربع گز کے مکان اور 4000اسکوائر فٹ اپارٹمنٹ کی پہلی بار خرید و فروخت پر کیپٹل گین ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے جبکہ ’’نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم‘‘ کیلئے 30ارب روپے کی سبسڈی مختص کی گئی ہے جس کے تحت کم آمدنی والے طبقے کیلئے بنائے جانے والے ایک لاکھ گھروں پر 3لاکھ روپے فی گھر سبسڈی دی جائے گی۔ اس اسکیم کے تحت قرض خواہ کی ماہانہ تنخواہ 30سے 40ہزار روپے ہونا ضروری ہے اور مکان کی بکنگ کے وقت 10فیصد ایڈوانس دینا ہوگا جبکہ بقایا 90فیصد بینک کا قرض ہوگا جو بلڈرز اور ڈویلپرز کو دیا جائے گا۔ حکومت کے اِن اقدامات سے مکانات کی سپلائی میں اضافہ ہوگا لیکن ڈیمانڈ بڑھانے کیلئے ایسے حکومتی اقدامات کی ضرور ت ہے جس کے تحت مکانات خریدنے کیلئے آسان قرضے کم شرح سود پر دستیاب ہوں۔ کسی بھی ملک میں صنعتی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے اس کی چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتیں (SMEs) نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں جو ملک میں 80فیصد تک ملازمتیں مہیا کرتی ہیں۔ کوریا، چین، جاپان، بھارت وہ ممالک ہیں جنہوں نے ایس ایم ایز کو فروغ دے کر صنعتی ترقی حاصل کی۔ پاکستان میں ایس ایم ایز اور وینڈر انڈسٹری بدقسمتی سے فروغ نہیں پاسکی جس کی اہم وجوہات میں بجلی کے مہنگے نرخ، بینکوں کی بلند شرح سود اور سیلز ٹیکس ریفنڈز کی عدم ادائیگی ہے جو ایس ایم ایز کی پیداواری لاگت میں اضافے کا باعث ہے۔ بینک چھوٹے درجے کی صنعتوں کو قرضے نہیں دیتے کیونکہ یہ چھوٹی صنعتیں زیادہ تر کرائے کی جگہ پر ہوتی ہیں اور قرضہ حاصل کرنے کیلئے ان کو بینکوں کے پاس گروی (مارگیج) نہیں رکھوایا جاسکتا۔ ایف پی سی سی آئی کی بینکنگ اسٹیڈنگ کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے میں نے SMEsکیلئے اسٹیٹ بینک سے بینکوں کے قرضے دینے کے نئے قوانین پروڈنشل ریگولیشن (PR) منظور کرائے تھے جس کے تحت اب بینک چھوٹے درجے کی صنعتوں کو گروی رکھے بغیر کیش فلو پر قرضے دے سکتے ہیں۔ حال ہی میں وزیراعظم نے 3نومبر کو چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کی ایکسپورٹ میں اضافے کیلئے یکم نومبر سے چھوٹے درجے کی صنعتوں کی اضافی بجلی کی کھپت پر 2030تک 50فیصد اور بڑے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کی اضافی بجلی کی کھپت پر 2023تک 25فیصد رعایت دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان صنعتوں پر شام 7سے 11بجے تک 25فیصد اضافی Peak Hoursچارجز بھی ختم کردیے گئے ہیں اور اب ان صنعتوں پر 24گھنٹے عام ٹیرف لاگو ہوگا۔ میری وزیراعظم کو تجویز ہے کہ چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتوں کے بجلی ٹیرف میں ڈسکائونٹ بجلی کی اضافی کھپت پر دینے سے ان چھوٹی صنعتوں کی موجودہ پیداواری لاگت میں کمی نہیں ہوگی۔ کورونا وائرس کے بعد چھوٹی صنعتوں کیلئے نئے ایکسپورٹس آرڈر کا ملنا ایک مشکل امر ہے لہٰذاچھوٹی صنعتوں کے بجلی کے نرخوں میں ڈسکائونٹ اضافی کھپت کے بجائے موجودہ نرخوں میں دیا جائے تاکہ پیداواری لاگت میں کمی سے ایس ایم ایز نئے ایکسپورٹ آرڈرز حاصل کرسکیں۔ تعمیراتی شعبے کا پیکیج، چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کیلئے بجلی نرخ میں کمی اور ایف بی آر سیلزٹیکس ریفنڈ کا فاسٹر نظام یقیناً وہ اقدامات ہیں جو ملکی ایکسپورٹس میں اضافے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ میں چیئرمین ایف بی آر جاوید غنی اور ممبر اِن لینڈ ریونیو ڈاکٹر اشفاق احمد کا مشکور ہوں جنہوں نے سیلز ٹیکس ریفنڈ میں حائل رکاوٹیں اور شکایات دور کرنے کیلئے ایک 7رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں میرے علاوہ کراچی چیمبر، اپٹما، پڈمیا کے نمائندے شامل ہیں۔ نئے فاسٹر نظام کو موثر بنانے کیلئے میں نے اپنی تجاویز ایف بی آر کو بھیجی ہیں اور پراُمید ہوں کہ بزنس کمیونٹی اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ملکی ایکسپورٹس میں اضافہ کیا جا سکے گا۔

تازہ ترین