• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ملک میں مہلک وائرس پھیلے اور آپ اس سے بچ جائیں۔ ہم نے گینڈے کی کھال نہیں پہن رکھی۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو ٹیلی ویژن کے پچاس چینل چلا کر دیکھ لیں۔ تیس چالیس شائع ہونے والے اخباروں کے پنّے الٹ پلٹ کر کے دیکھ لیں۔ ہر صفحے پر آپ کو مہلک وائرس اور وائرس پھیلانے والوں کی خبریں پڑھنے کو اوران کے چاند سے مکھڑے دیکھنے کو ملیں گے۔ پینسٹھ برس سے ہم وعدوں کے ڈسے ہوؤں کو مزید وعدوں سے ڈسنے کی خبریں ہوتی ہیں۔ ملک میں مروج غیر رسمی روایت کے موجب ہم بھولے بھٹکے پھٹیچر اپنی برباد بستی میں مل بیٹھتے ہیں اور وائرس کے بارے میں سوچتے ہیں۔جو لوگ وائرس کے بارے میں سوچتے نہیں اور صرف وائرس کے بارے میں باتیں کرتے ہیں وہ ٹیلی ویژن چینلز پر آکر لگا تار بولتے رہتے ہیں۔ سب مل کر ایک ساتھ بولتے رہتے ہیں۔ دیکھا دیکھی مجھے بھی شوق چرایا کہ میں بھی ٹیلی ویژن چینلز کے وائرس پروگراموں میں حصہ لوں اور اتنا بولوں، اتنا بولوں کہ دوسرے بولنے والوں کے ساتھ ہوسٹ یعنی میزبان بھی اسٹوڈیو چھوڑ کر بھاگ جائے اور پھر صرف میں بولتا رہوں اور بیچارے وائرس کے ڈسے ہوئے ناظرین بے بس ہو کر سنتے رہیں۔
خدا بھلا کرے میرے دوستوں کا، انہوں نے مجھے میرے شوق سے باز رکھا اور ناظرین کو بہت بڑے عذاب سے بچا لیا۔ اب میں ہمیشہ کی طرح برباد بستی میں اپنے ہم نوالہ اور ہم پیالہ ڈسے ہوئے ساتھیوں کے ساتھ مل بیٹھتا ہوں۔ ہم سب ٹیلی ویژن پر آکر بولنے لائق نہیں ہیں۔ اس لئے ہم برباد بستی والے وائرس کے بارے میں صرف سوچتے ہیں، بولتے نہیں۔ یہ سلسلہ مئی کی گیارہ تاریخ تک جاری رہے گا۔ برباد بستی کے ہم لوگ بے مقصد نہیں سوچتے، ہم بامقصد سوچتے ہیں۔ ہم اپنی اپنی سوچوں پر شرط لگاتے ہیں مثلاً کتنے خاندانوں سے چار سے زیادہ نمائندے قومی ادارے اور صوبائی اسمبلیوں میں جاکر بیٹھیں گے؟ ایسے خاندانوں کی تعداد کتنی ہو گی جن کی فیملی کے آٹھ ارکان اسمبلیوں کے ممبر بنیں گے؟ اور ایسے خاندان کتنے ہوں گے جن کی فیملی کے بارہ سے زیادہ ارکان ایم این اے اور ایم پی اے بنیں گے؟ اس لحاظ سے برباد بستی دنیا کی واحد بستی ہے جہاں سوچوں پر شرطیں لگائی جاتی ہیں۔ ہماری برباد بستی کا نام کم کم لوگوں نے سنا ہوگا۔ سرکار نام دار بھی نہیں جانتی کہ کراچی کے گرد گھیرا ڈالنے والی نامعلوم بستیوں میں ایک بستی کا نام برباد بستی ہے۔ برباد برستی کی لوکیشن بتانا میں ضروری سمجھتا ہوں۔ برباد بستی کے ایک طرف خدا کی بستی ہے اور دوسری طرف اللہ کی بستی ہے۔ برباد بستی کے سامنے کراچی بھر کے کوڑے کرکٹ کا پہاڑ کھڑا ہوا ہے اور برباد بستی کے پیچھے غلاظتوں کو بہا کر لے جانے والا نالا جو کبھی نہیں بہتا۔ غلاظت نالے سے ابل کر برباد بستی میں پھیل جاتی ہے۔ مرے ہوئے کتوں، بلیوں، چوہوں اور نوزائیدہ بچوں کی لاشوں سے اٹھنے والی بدبو سے ہم مانوس ہو گئے ہیں۔ دو چار دن پہلے تک مجھے یاد نہیں پڑتا کہ قانون نافذ کرنے والوں اور قانون توڑنے والوں نے کبھی ہماری برباد بستی کا رخ کیا ہو لیکن کچھ دن پہلے برباد بستی میں عجیب واقعہ پیش آیا۔
ہم لوگ مہلک وائرس کے بارے میں سوچ بچار کر رہے تھے۔ اپنی اپنی سوچوں پر شرط لگا رہے تھے۔ ملک کے کتنے پیر سائیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے نظر آئیں گے؟ پندرہ؟ بیس؟ پچیس؟ تیس؟ کتنے سردار قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں براجمان ہوں گے؟تیس؟ چالیس؟ پچاس؟ پچھتر؟ جھوٹی اور جعلی ڈگریاں رکھنے والے کتنے ممبر اسمبلیوں میں جلوہ افروز ہوں گے؟ دو سو؟ تین سو؟ چار سو؟ بینکوں کے کروڑوں اور اربوں روپے ہڑپ کرنے والے کتنے لوگ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو چار چاند لگائیں گے؟ ایک سو؟ دو سو؟ تین سو؟ چار سو؟ سرکاری اور پرائیویٹ پراپرٹی ہڑپ کرنے والے کتنے لوگ انتخابات میں سرخرو ہو کر اسمبلیوں میں پہنچیں گے؟ ساٹھ؟ ستّر؟ اسّی؟ نوّے؟ سو؟ کتنے ملّا مسجد و منبر چھوڑ کر اسمبلیوں کی نشستوں پر براجمان ہوں گے اور اسمبلی ممبر بننے کے مزے لوٹیں گے؟ کتنے سسر اور داماد، ساس اور بہوئیں اور ہم زلف اسمبلیوں میں نظر آئیں گے؟ کتنے سالے اور سالیاں الیکشن جیت کر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچیں گے؟ ان ممبران کی تعداد کتنی ہوگی جن کو اگر گائے، بیل، بکری پر دس سطروں کا ایک مضمون لکھنے کو کہا جائے تو وہ مضمون لکھنے کے بجائے اسمبلیوں میں ڈیسک بجا کر احتجاج کرنے کے بعد وہیں دھرنا مار کر بیٹھ جائیں گے اور استحقاق مجروح ہونے کی شکایت اسمبلی اسپیکر سے کریں گے؟ جس وقت ہم سوچ رہے تھے کہ اسمبلیوں میں چوہدریوں، وڈیروں، خانوں، سرداروں، پیروں اور سرمایہ داروں کے علاوہ کیا ایک عدد اللہ سائیں کا آدمی ایوان اقتدار میں پہنچ سکے گا؟ عین اسی وقت آٹھ دس مشٹنڈے پولیس کی وردی میں ہم پر نازل ہوئے۔ انہوں نے بندوق اور پستول تانتے ہوئے دھاڑا۔ ”خبردار ، کوئی شخص اپنی جگہ سے ہلنے نہ پائے“۔ ہم میں سے کسی نے پوچھا ”کیوں بھائی، نگراں حکومت نے ہلنے جلنے پر پابندی لگا دی کیا؟“
”چپ“ ایک مشٹنڈے سپاہی نے کہا ”تم لوگ دہشت گرد ہو اور آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات ملتوی کرانے کے درپے ہو“۔
ہم لوگ بہت دیر تک ہنستے رہے۔ جب جی بھر کر ہنس لئے تب معمر نامی برباد بستی کے ایک معمر نے مشٹنڈے سپاہیوں سے کہا ”ہم دہشت گرد نہیں ہیں، ہم آوارہ گرد ہیں، ہم کچھ نہیں کرتے صرف سوچتے ہیں“۔
مشنٹنڈے سپاہی ہمیں ایک ٹرک میں ڈھو کر پولیس اسٹیشن لے آئے۔ وہاں دس بارہ میزوں پر سفید چادریں بچھی ہوئی تھیں۔ سفید چادروں پر مختلف نوعیت کے ہتھیار رکھے ہوئے تھے۔ گولیوں سے دائرے اور تکون بڑی محنت اور فنکاری سے بنائے اور سجائے گئے تھے۔ میڈیا والے اپنے قلم اور کیمروں سے لیس کھڑے ہوئے تھے۔ ہتھیاروں یعنی اسلحہ سے سجی ہوئی میزوں کے قریب لے جانے سے پہلے مشٹنڈے سپاہیوں نے ہمارے سروں پر بدبودار تولیے، چادریں اور تکیوں کے گندے غلاف ڈال دیئے تاکہ ہمارا تھوبڑا کسی کو نظر نہ آئے۔
خدا کی بستی اور اللہ کی بستی کے درمیان بنی ہوئی برباد بستی کے ہم بڈھے، بوڑھے باسی اس وقت فرشتوں کی بستی کے پولیس اسٹیشن کے لاک اپ میں بند ہیں۔ کل ہمیں دہشت گردی کے کیس چلانے والی عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ آج کا قصہ میں لاک اپ سے آپ کو سنا رہا ہوں۔
تازہ ترین