• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کاش کوئی سن لے،کچھ بصیرت کا ثبوت دے، لوگوں کو اُن کا اصلی چہرہ دیکھنے کا موقع فراہم کرے، راون کا چہرہ ،کالی ماتا کا چہرہ۔ یہ چہرہ کسی بھی حسّاس موقع پر بھارت کے تقریباً ہر ٹیلی ویژن پر نظر آتا ہے،آگ اگلتا، زہر میں بجھا لہجہ لئے۔ مگر آپ، اس ملک کے لوگ، یہ چہرہ دیکھ نہیں پاتے، جان بوجھ کر یہ آپ سے چھپایا گیا ہے۔ بھارت کا وہ ٹی وی یہاں نہیں دیکھا جا سکتا جس پر یہ سب کچھ نظر آتا ہے، نفرت کا اظہار، دشمنی کا اظہار، غصّے کا اظہار۔
اِن دنوں بھی یہ سب کچھ دیکھا جا سکتا تھا، اگر آپ کے گھر میں بھارت کا ٹی وی نظر آتا ہوتا،آنے دیا جاتا ہوتا۔ آپ دیکھتے کہ دہشت گرد بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ کی ہلاکت پر اُن لوگوں کا رویہ کیا تھا جو شاید تعلیم یافتہ بھی ہوں، دانش کا زعم بھی اُنہیں ہو۔ منہ سے جھاگ اُڑاتے، غصے میں بھرے میزبان کا مطالبہ بھی یہی تھا اور اس کے بھارتی مہمانوں کا بھی۔ بس پاکستان پر چڑھ دوڑو، حملہ کردو، اینٹ سے اینٹ بجا دو۔ ممکن ہے الفاظ بالکل یہ نہ ہوں، مطلب اور مقصد یہی تھا یا شاید اس سے بھی زیادہ۔ ایک ٹی وی کا میزبان کہ رہا تھا…اور وہ بہت مشتعل تھا، غیر پیشہ ورانہ حد تک… ”سارا بھارت کہہ رہا ہے بس بہت ہو چکا“ انگریزی جملہ تھا:
Whole India is saying enough is enough.
جو ٹِکر وہاں چل رہے تھے، ان میں سے کچھ اِس طرح کے تھےKilled in cold blood. اورMartyr returns home. ۔اِس دوڑ میں سب سے آگے بھارت کے قدیم ترین اخبارات میں سے ایک کا ٹی وی’ ٹائمز ناؤ‘ تھا۔ دوسرے بھی پیچھے نہیں تھے۔سی این این، آئی بی این کا رویہ بھی انتہائی جارحانہ تھا اور ہندی کے چینل بھی یہی زبان بول رہے تھے، دُشنام سے بھری ہوئی۔ شام سے لے کر رات گئے تک،یہی گفتگو اِن تمام چینلز پر ہوتی رہی۔ ٹی وی پر خبر کی ہر پٹی پاکستان دشمن جذبات میں لتھڑی ہوئی تھی۔”ذبح کے بعد ڈھٹائی“۔مگر شاید یہ ترجمہ اصل سرخی کا صحیح عکاس نہیں ہے Audacity after butchery.۔ایک اور پٹی جو بار بار چلتی رہی:Should India make Pakistan to apologise? آزاد ترجمہ شاید یہ ہو:کیا بھارت پاکستان کو معافی مانگنے پر مجبور کرے؟ یعنی حملہ کردے، قبضہ کر لے اور پاکستان کو مجبور کرے کہ جاسوس کے قتل پر معافی مانگے۔ یہ چند مثالیں ہیں ورنہ وہاں تو ہر زبان شعلے برسا رہی تھی اور یہ اکثر ہوتا ہے۔اجمل قصاب کا واقعہ ہوا تو ان دنوں اتفاق سے یہاں کے آزاد خیال صحافیوں کو بھارتی چینلز دیکھنے کا موقع مل گیا۔ خبر پاکستانی چینلز ان سے لے رہے تھے،خبر کے ساتھ ہی وہ سب کچھ بھی انہوں نے دیکھا جو ویسے نظر نہیں آتا۔کچھ کی آنکھیں کھلیں، حیران رہ گئے،اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔”اچھا یوں بھی ہے؟“ ”وہ جو امن، بھائی چارے کی بات ہوتی رہتی ہے وہ کیا ہے؟“ ”کیا یہ صحافت ہے؟“کوئی دو سال پہلے بھارت جانا ہوا۔ اُسامہ بن لادن کا واقعہ ہو چکا تھا۔اسی پر بحث وہاں جاری تھی۔بحث کیا تھی، زہر تھا کہ اُنڈیلا جا رہا تھا۔ ایک صاحب نے کہا ”بس اِسی طرح جا کر اپنے مطلوبہ شخص کو اٹھا لائیں“۔ یہ صاحب کوئی سابق فوجی تھے یا کسی یونیورسٹی کے استاد، اب یاد نہیں رہا، کوئی فرق بھی نہیں پڑتا، کہنے لگے کیا ہو گا، پاکستان ایٹم بم استعمال کرے گا جواب میں ہم بھی کریں گے، پاکستان تو ملیامیٹ ہو جائے گا۔ انہوں نے annihilateکا لفظ استعمال کیا تھا۔
سربجیت کے ساتھ پاکستان نے جو کیا وہ عقل و خرد سے عاری لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ اُس نے پاکستان میں دھماکے کئے تھے، چودہ افراد کو بے رحمی سے قتل کر دیا تھا۔ عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی، اپیلیں بھی خارج ہو چکی تھیں اور رحم کی اپیل بھی ایک بار صدر نے مسترد کردی تھی۔ اِس کے بعد قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنا چاہئے تھا مگر یوں نہیں ہوا، اُسے23سال موت کی کوٹھڑی میں رکھا گیا۔ عدالت کے فیصلے پر عمل ملتوی ہوتا رہا اور پھر کسی قیدی نے اُس پر حملہ کر کے اسے ہلاک کر دیا، برا کیا۔ اجمل قصاب تو اس کے بہت بعد منظر پر آیا۔ بھارت میں اُس پر مقدمہ چلا اور اسے پھانسی دے دی گئی، لاش بھی وہیں کہیں دفن کر دی گئی۔ یہی افضل گرو کے ساتھ کیا گیا۔ ایک دن اچانک اسے پھانسی کے تختہ پر لٹکا دیا گیا۔ اُس کی لاش کا اس کے گھر والے آج تک انتظار کر رہے ہیں۔ اتنے لمبے عرصہ تک سربجیت کو جیل میں رکھنے کی کوئی قانونی ضرورت تو نہیں تھی،کیوں رکھا گیا؟ جواب شاید ہی کسی کے پاس ہو۔
بھارت کے مختلف ٹی وی چینلز پر سر بجیت سنگھ کی ہلاکت کے بعد جو بحث مباحثہ ہو رہا تھا اس میں کچھ پاکستانی بھی شریک تھے۔ کئی طرح کے لوگ، ایئر مارشل،جنرل بریگیڈیئر، سب ریٹائرڈ۔ سب بودے ثابت ہو رہے تھے، ہیں بھی۔ شاید ہی کوئی تیاری کر کے آیا تھا۔ میزبان جو کہہ دیتا،ان میں سے اکثر کے پاس جواب نہ ہوتا مثلاً اُس نے کہا سربجیت کی سزا عمر قید میں تبدیل ہو چکی تھی۔ ان میں سے کسی کو صحیح بات پتہ ہی نہیں تھی، تردید بھی ٹھیک سے نہیں کر سکے۔گھگو بنے بیٹھے رہے۔ (کسی اور طرح یہ بات کہہ نہیں پارہا) ڈانٹ کھاتے رہے۔ وہ میزبان انہیں بولنے نہیں دیتا تھا، سوال اگر یہ کسی بھارتی مہمان سے کرتے تو جواب ٹی وی کا میزبان دیتا۔ اُسے اپنی بات کہنی تھی، کہتا رہا۔ اگر یہ آداب کے خلاف تھا تو ہوا کرے۔ اِن لوگوں کا بیٹھے رہنا بھی تو معقولیت کے خلاف تھا، یہ کون سے اٹھ کر آگئے، بیٹھے رہے، ڈانٹ کھاتے رہے۔ پاکستان کا مقدمہ بھی ٹھیک سے پیش نہیں کر سکے۔
اور جب بھارت نے ایک ہی دن بعد انتقام لیا، ایک پاکستانی (بے گناہ )قیدی ثناء اللہ پر جیل میں حملہ کرایا تو بھارت کے نام نہاد آزاد میڈیا کو سانپ سونگھ گیا۔ جیل کے ایک اہلکار کی اتنی بات سنی کہ ثناء اللہ کی حالت ٹھیک ہے، وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔کسی ٹی وی نے وہاں نہیں کہا کہ یہ جھوٹ ہے، سراسر۔ ثناء اللہ اب تک بے ہوش ہے، اس کا بھیجا نکل آیا ہے۔ وہ جو ایک دہشت گرد کی حمایت میں زمین آسمان ایک کئے دے رہے تھے، ثناء ا للہ کے معاملے پر خاموش ہو گئے ہیں۔ اب انہیں انسانیت وغیرہ یاد نہیں آ رہی۔ وہ جو اس ملک کے معاملات دیکھتے ہیں، اس ملک کے عوام کو بھارت کا اصلی چہرہ دیکھنے دیں۔ یہ چہرہ وہاں کے ہر ٹی وی چینل پر نظر آتا ہے ،دانت پیستا ہوا، آنکھوں سے خون ٹپکاتا ہوا۔ اس ملک کے عوام کو بھی یہ چہرہ دیکھنے دیں۔کوئی سن لے،کوئی سمجھ لے۔
تازہ ترین