• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گھروں کے باہر احتجاج مناسب نہیں..سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نہ نکالیں

پاناما لیکس کا اسکینڈل جب سے منظر عام پر آیا ہے، پاکستان کے اندر حکومتی و اپوزیشن پارٹیاں ایک دوسرےپر صحیح یا غلط، جارحانہ یا دفاعی لفظی حملے تو کر ہی رہی ہیں اک طرفہ تماشا ہے کہ اس سیاسی جنگ کا دائرہ اب ملک کے باہر تک پھیلا دیا گیا ہے۔پچھلے اتوار کو تحریک انصاف نے لندن میں وزیراعظم نواز شریف کے گھر کے باہر مظاہرہ کیا،نعرہ بازی کی اوراستعفےٰ کا مطالبہ کیا۔ اس کے جواب میں اس اتوار کو مسلم لیگ ن کے برطانیہ بھر سے جمع ہونے والے سینکڑوں کارکنوں نے جن میں خواتین بھی شامل تھیں، لندن ہی میں عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ کے گھر پر جہاں اس وقت تحریک انصاف کے سربراہ بھی موجود تھے، زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا اور گھر کے خارجی دروازوں پر دھرنے دیئے۔ انہوں نے عمران خان کی کار پر ڈنڈے بھی برسائے۔ بعد میں برمنگھم کے جلسے میں عمران خان کے پہنچنے پر بھی مسلم لیگی کارکنوں نے ان کے خلاف نعرہ بازی کی۔ دونوں جگہوں پر صورت حال کو کنٹرول کرنے کیلئے پولیس سے مدد لی گئی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تحریک انصاف نے رائے ونڈ میں وزیراعظم کی رہائش گاہ تک مارچ کرنے اور دھرنادینے کا اعلان کر رکھا ہے ۔ مسلم لیگ ن نے بھی دھمکی دی ہے کہ پی ٹی آئی نے رائے ونڈکا رخ کیا تو لوگوں کو بنی گالہ کا راستہ بھی آتا ہے جہاں عمران خان کا فارم ہاؤس ہے۔ سیاست میں اختلاف رائے احتجاج اور جلسے جلوس جمہوری روایات کا حصہ ہیں اور سیاسی پارٹیاں اپنا نقطہ نظر منوانے یا کسی مسئلے پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لئے سڑکوں پر نکلتی ہی رہتی ہیں اور حکومتی دفاتر یا ایک دوسرے کے سیاسی ہیڈ کوارٹر کے سامنے طاقت کے مظاہرے بھی کھیل کا حصہ ہیں مگر سیاسی ایجی ٹیش اور احتجاج گھروں تک لے جانے کی روایت پہلی بار ڈالی جارہی ہے جو اس سے قبل سیاسی اخلاقیات کے منافی سمجھی جاتی تھی۔ بھٹو حکومت کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک ملکی تاریخ کی بہت بڑی احتجاجی تحریک تھی لیکن اس دوران کوئی بھی بھٹو کے گھر تک نہیں پہنچا۔ نواز شریف کا لانگ مارچ بھی معمولی نوعیت کا نہ تھا۔ لیکن اسے نواب شاہ میں آصف زرداری کے گھر تک نہیںلے جایا گیا۔ سیاسی مفکرین اور مبصرین کی اکثریت اس بات پر متفق نظر آتی ہے کہ مسائل کتنے ہی گھمبیر کیوں نہ ہو، ان پر اختلاف رائے کے لفظی یا عملی اظہار کیلئے سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نہیں نکالنا چاہئے۔ فریقین تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کریں اور سنجیدہ معاملات اشتعال انتقام اور غم و غصے کے وقتی جذبات کی زد میں بہہ جانے والے شتربے مہار قسم کے ہجوم کی نذر کرنے کی بجائے قومی مفاد میں مدبرانہ اور دور اندیشانہ حل کی تدابیر سوچیں۔ پاناما لیکس قانونی نہیں ایک اخلاقی سوال ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو کسی کی مخالفت میں بھی اخلاقیات کو روندنے سے گریز کرنا چاہئے۔ بہتر ہوگا کہ وہ باہم مل بیٹھ کر اک سیاسی ضابطہ اخلاق تشکیل دیں۔ کسی کی ذات پر بلا ثبوت الزام لگائیں نہ کیچڑ اچھالیں۔ سیاست کو سیاست تک اور احتجاج کو احتجاج تک کھلے میدانوں میں محدود رکھیں۔ گھروں تک نہ لے جائیں۔ رائے ونڈ جائیں نہ عمران خان کے گھر کو احتجاج کا نشانہ بنائیں۔ اس بات پر پوری قوم متفق ہے کہ پاناما لیکس میں جن لوگوں کے نام ہیں ان کے بارے میں شفاف تحقیقات ہونی چاہئے۔ ایسا تحقیقاتی کمیشن بنانا چاہئے جس پر سب کا اتفاق ہواایسا کمیشن نہیں ہونا چاہئے جس کا فیصلہ کوئی مانے اور کوئی نہ مانے۔ پاناما لیکس نے دنیا بھر میں ہلچل مچا رکھی ہے۔ دنیا بھر میں تفتیش ہو رہی ہے۔ پاکستان میں بھی با اختیار اور متفقہ کمیشن کے ذریعے تحقیقات ضروری ہے لیکن ایساکمیشن ابھی سامنے نہیں آیا۔ یک طرفہ کمیشن اپوزیشن کا اعتمادحاصل نہ ہوسکنے کی بنا پر بے فائدہ ہوگا۔ اس سے حکومت کو بھی نقصان پہنچے گا۔ بہتر ہوگا کہ حکومت اس سلسلے میں اپنی تجاویز پر تمام سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لے ، اپوزیشن بھی ناقابل عمل مطالبے کرنے کی بجائے قابل قبول حل تلاش کرنے کیلئے حکومتی نمائندوں کیساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔
تازہ ترین