• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میاں نواز شریف نے حال ہی میں ارشاد فرمایا ہے کہ وہ کراچی سے پشاور تک بلٹ ٹرین چلائیں گے۔ بڑا اچھا اعلان ہے اور ہونا بھی چاہئے اور شاید میاں نوازشریف یہ کر بھی جائیں۔ اگر اقتدار میں آگئے یا انہیں اقتدار میں لانے کا فیصلہ خفیہ ہاتھوں نے کرلیا۔ لاہور میں میاں شہبازشریف نے میٹروبس تو بناکرچلا دی اور وہ بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے او ر یقینا اس میں سفر کرنے والے شہباز شریف کو دعائیں ضرور دیتے ہوں گے۔ لیکن بلٹ ٹرین کے بارے میں بات کرنے سے قبل ہم کچھ پرانی بات بھی کرنا چاہتے ہیں۔
پرانے لاہور یوں کو یاد ہوگا کہ جب حنیف رامے پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے ایک بیان اس زمانے میں جاری کیا تھا کہ لاہور میں زیرزمین ٹرین چلائی جائے گی۔ اگر چوہدری برادران یہ کہیں کہ یہ منصوبہ ان کی ایجاد ہے تو تاریخی حوالو ں کو درست کرنے کیلئے عرض ہے کہ یہ منصوبہ حنیف رامے نے سب سے پہلے دیا تھا۔ ماضی کے اخبارات دیکھے جاسکتے ہیں اس دور میں یہ فیصلہ بھی ہوا تھا کہ لارنس گارڈن میں انارکلی کے تاجر اپنی گاڑیاں یہاں پارک کریں اوریہاں سے ایک شٹل ٹرین جوکہ بروقت چلتی رہے گی وہ تاجروں اور ان خریداروں کو جنہوں نے یہاں سے خریداری کرکے واپس جانا ہوگا اپنی گاڑیاں لارنس گارڈن میں پارک کریں اور خریداری کرکے یہاں سے چلے جائیں۔ اس سے مال روڈ پر ٹریفک کا دباؤ پچاس فیصد سے زیاد ہ کم ہو جائے گا مگر یہ د ونوں منصوبے حسب روایت بیوروکریسی کی نذر ہوگئے۔ اس زمانے میں زیرزمین ٹرین پر کچھ کام بھی ہوا تھا۔ الیکشن میں کون آتا ہے؟ اور کون جاتا ہے؟ اور خفیہ ہاتھ کس کو آگے لاتے ہیں یہ تو صرف رب العزت کی ذات پاک ہی جانتی ہے۔ مگر جو کچھ اس ملک کے ساتھ آج کل ہورہا ہے یا کیا جارہاہے وہ کسی صورت بھی اچھا کیا بالکل اچھا نہیں کیا جارہا۔ خدا کرے اس ملک کے ساتھ براکرنے والوں کا اپنا برا ہو جائے۔ آنے والی حکومت نئے منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کرکے اور کمیشن کھا کر اور کئی لوگو ں کو نوازنے کی بجائے اس ملک میں انگریزوں کے رائج ریلوے سسٹم کو بھی اگر بہتر کرلیں تو وہ نئے منصوبوں پر خرچ ہونے والی اربوں کھربوں روپے سے بھی آدھی رقم ہوگی مثلاً کراچی میں کبھی ٹرام سروس چلتی تھی آج بھی امریکہ کی ریاست اوریاگن، پورٹ لینڈ اور دنیا کے کئی ممالک میں ٹرام سروس چلتی ہے۔ کراچی میں لوکل ٹرین چلتی تھی۔ ان کو بہتر کیا جائے۔ٹرام سروس شروع کی جائے ۔ لاہور میں ”گورا بہادر“ کے زمانے میں بھی شاہدرہ، بادامی باغ، لاہور سٹیشن، میاں میر سٹیشن، والٹن سٹیشن، کوٹ لکھپت اور رائے ونڈ سٹیشن تک ٹرین چلتی تھی۔ اس ٹرین سروس کو دوبارہ انہی خطوط پر شروع کیاجاسکتاہے۔
قیام پاکستان کے وقت مغربی پاکستان کی ریلوے کو پی ڈبلیو آر یعنی پاکستان ویسٹرن ریلوے اور مشرقی پاکستان کی ریلولے کو پاکستان ایسٹرن ریلوے یعنی پی ای آرکہا جاتا تھا۔ لاہور کی لوکو موٹو ورک شاپ ایشیا کی سب سے بڑی ورک شاپ تھی جہا ں پر کبھی بیک وقت سو گاڑیوں کی سروس کرنے کا انتظام تھا۔ آج کیا؟ سب کچھ تباہ ہوگیا۔ ریلوے کو کسی ہوائی مخلوق نے تباہ نہیں کیا بلکہ ریلوے کو ریلوے کے افسروں اور ملازمین نے تباہ کیا ہے۔ بیرون ممالک میں ہر سال افسران کی فوج ظفر موج جو دورے کرتی ہے اس نے اس ملک کو کیادیا؟ حال ہی میں ایک قومی ادارے کے ایک خاص اہلکار نے بتایا کہ ان کے عملے کا سربراہ جب دس بار بیرون ممالک کے دورے اور سیریں کر چکا تو اس کے بعد اپنا تبادلہ کرالیا۔ سٹاف کے کسی فرد نے اس سے پوچھا کہ سر! آپ نے جو دورے کئے اس سے محکمے کو کیا ملا؟ تو موصوف نے فرمایا کہ میں تو اس محکمے کے دورے ہی تو کرنے آیا تھا وہ پورے ہوگئے آگے دورے کوئی نہیں تھے سو میں چلتا ہوں۔ نوٹ چھاپ لئے، دیہاڑی لگالی، سیریں کرلیں اور اب ہمارا کیا کام؟
بھارت کے ریلوے کے نظام کا شمار دنیا کے سب سے بڑے اور عظیم ٹرانسپورٹ اداروں میں ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں انفرادی طورپر کسی بھی ادارے کا اتنا بڑا نظام نہیں۔ بھارت میں عام بجٹ کے بعد جس بجٹ پر پورے بھارتیوں کی نظریں ٹکی ہوتی ہیں وہ ریلوے کا بجٹ ہے۔ جس کا اثر وہاں کے عوام پر براہ راست پڑتا ہے۔ 1849 میں برصغیر میں ایک انچ بھی ریلوے لائن نہیں تھی سب سے پہلے ایک برطانوی انجینئر Robert Maitland Brereton نے یہاں پر ریلوے کی بنیاد رکھی۔ 7مارچ 1870 کو وائسرائے لارڈ مایو (Lort Mayo) نے ریلوے لائن کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ یہ خوشی کا موقعہ ہے کہ ہم جلد ہی پورے ملک میں ریلوے کا جال بچھا دیں گے اور پورے ملک کو اس سے جوڑ دیں گے“ ایک فرانسیسی مصنف Jules Verme نے اس ریلے لائن کی افتتاحی تقریب سے متاثر ہو کر ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا Around the world in eighty days 1875
1895 میں ہندوستان میں ریلوے انجنوں کی تیاری شروع کردی گئی تھی بھارت کاریلوے کا نظام آج دنیا بھر میں ملازمتوں کی فراہمی میں دنیا کے دس بڑے محکموں میں شمار ہوتا ہے آج وہاں 14لاکھ ملازمین 2,29381 مال بردار ویگن 59713 مسافر کوچیں، 9213 ریلوے انجن ہیں اورروزانہ دس ہزار ٹرینیں چلائی جاتی ہیں اور 24ریاستوں اور 3مرکزی علاقے اس نظام سے جڑے ہوئے ہیں۔
ہمارے ہاں کیا ہے ہر روز کوئی نہ کوئی روٹ بند کردیا جاتا ہے ۔ ہم ریلوے کے نئے روٹس کا افتتاح تو کر نہیں کرسکتے کیوں نہ ہم جب کوئی روٹ یا بہت سارے روٹس بند کریں تو اس کی بہت بڑی تقریب منعقد کیا کریں۔ ریلوے جنرل منیجر / وزیر ریلوے ، ریلوے لائن پر آ کر دو فٹ کی دیوار تعمیر کرکے اس پر اپنا نام لگا دیں کہ آج کی اس پرغم تقریب میں فرمائیں کہ ہم نے اتنے روٹ بند کردیئے کیونکہ ہمارے ملک کے ہر وزیر/ افسر کو تختی پراپنا نام لکھوانے کابہت شوق ہے۔ بدنام جو ہوں گے توکیا نام نہ ہوگا؟ سو ہم ریلوے کو ترقی تو نہیں دے سکتے پر برباد تو کر ہی رہے ہیں اور مزید بربادی ابھی درکار ہے۔ بھارت راجستھان ٹرین سیاحوں کے لئے چلا کر کروڑوں ڈالرز ہر سال کما رہاہے ہم ٹوٹے فرش، بغیر پنکھوں اور بغیر بجلی اور ٹوٹے ہوئے واش رومز سے ہر ٹرین کو مقررہ وقت سے کئی کئی گھنٹے دیر سے چلا کر نام تو پیدا کر رہے ہیں۔ حکومت کیوں نہیں ان بڑے مگرمچھوں کو پکڑتی جنہوں نے ریلوے کو آج اس حال پر پہنچایا۔ جس وزیر کی اپنی ٹرانسپورٹ ہوگی وہ ریلوے کو چلنے دے گا؟ رہی بات بلٹ ٹرین کی تو یہ بہت مہنگا منصوبہ ہے۔ میاں صاحب اس ملک سے پہلے آپ خسرے، پولیو، ہیپاٹائٹس اور دیگر خطرناک بیماریوں پر تو قابو پائیں۔ پھر بات کریں بلٹ ٹرین کی۔ آج کراچی کے عوام کو بلٹ ٹرین کی ضرورت نہیں بلکہ بلٹ سے بچائیں۔
آج کراچی میں جو قتل عام ہو رہے ہیں جو بلٹ چل رہی ہیں ان کو پہلے روکیں پہلے امن قائم کریں بلٹ ٹرین کراچی کے مسائل کا حل نہیں بلٹ کو بند کریں شہروں کوشہروں سے جوڑنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے شروع کرنا ہے تو ایئرایمبولنس سروس شروع کریں جس کا وعدہ ضیا الحق نے بھی کبھی کیا تھا۔ اس کے لئے گنجان علاقوں میں ہیلی پیڈ بنائیں بڑے بڑے ہسپتالوں میں ہیلی پیڈ بنائیں۔ کبھی سروسز ہسپتال پر بھی ہیلی پیڈ بنانے کا وعدہ جنرل ضیا الحق نے کیا تھا۔ اس پر کام کریں۔ سپنے نہ دکھائیں۔ بقول جگر مرادآبادی
وہی ہیں شاہد و ساقی مگر دل بجھتا جاتا ہے
وہی ہے شمع لیکن روشنی کم ہوتی جاتی ہے
آج کل ہر قلمکار سیاست پر لکھ رہا ہے لیکن دوستو! سیاست ے ہٹ کر بھی بہت سارے معاملات اور مسائل ہیں۔ جو سیاست دانوں کی ترجیحات میں نہیں۔ سیاستدانوں کی کیا ترجیحات ہیں اس پر ہمیں کچھ نہیں کہنا۔
تازہ ترین